جمعہ _29 _ستمبر _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1211
کیا انسان اپنے والدین کی قبر کا بوسہ لے سکتا ہے؟
قبر کو بوسہ دینا اور استلام یعنی ہاتھ اٹھاکر سلام کرنا ناپسندیدہ عمل اور قبیح بدعت ہے۔ قبر چاہیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کیوں نہ ہو بوسہ لینا اور ہاتھ دکھاکر سلام کرنا جائز نہیں
قال الامام ابن حجر الهيتمي رحمة الله عليه: وَالْتِزَامُ الْقَبْرِ أَوْ مَا عَلَيْهِ مِنْ نَحْوِ تَابُوتٍ وَلَوْ قَبْرَهُ ﷺ بِنَحْوِ يَدِهِ وَتَقْبِيلِهِ بِدْعَةٌ مَكْرُوهَةٌ قَبِيحَةٌ. تحفة المحتاج:٣/١٧٥
قال خطيب الشربيني رحمة الله عليه:يُكْرَهُ تَقْبِيلُ الْقَبْرِ وَاسْتِلَامُهُ وَتَقْبِيلُ الْأَعْتَابِ عِنْدَ الدُّخُولِ لِزِيَارَةِ الْأَوْلِيَاءِ، فَإِنَّ هَذَا كُلَّهُ مِنْ الْبِدَعِ الَّتِي ارْتَكَبَهَا النَّاسُ. (مغني المحتاج:٢/٥٥)
نهاية المحتاج: ٣/١٢
حاشية الجمل: ٢/٢٠٦
جمعرات _5 _اکتوبر _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1212
وضو کرتے وقت سر کے مسح کے لیے نیا پانی لینا ضروری ہے یا ہاتھ کے وضو کے بعد ہاتھ پر لگے پانی سے سر کا مسح کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
وضو کرتے وقت سر کا مسح نئے پانی سے کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی ہاتھ کے بچے ہوئے پانی سے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کا مسح درست نہیں ہوگا. بلکہ سر کے مسح کے لیے الگ سے پانی لینا ضروری ہے
امام شافعی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وَيَأْخُذُ لِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ مَاءً غَيْرَ الْمَاءِ الَّذِي أَخَذَ لِلْآخَرِ وَلَوْ مَسَحَ رَأْسَهُ بِفَضْلِ بَلَلِ وُضُوءِ يَدَيْهِ أَوْ مَسَحَ رَأْسَهُ بِبَلَلِ لِحْيَتِهِ لَمْ يُجْزِهِ وَلَا يُجْزِئُهُ إلَّا مَاءٌ جَدِيد. (الأم/٢٦)
تحفة الأحوذي:٩٣/١
جمعہ _6 _اکتوبر _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1213
کیا دو تین سنت نمازوں کو ایک ساتھ الگ الگ نیت سے پڑھ سکتے ہیں جیسے تحیتہ الوضو، تحیتہ المسجد، اور صبح کی سنت یا الگ الگ پڑھنا چاہیے؟
اگر کوئی شخص فجر کی دو رکعت سنت پڑھتے وقت تحیتہ المسجد اور تحیتہ الوضوء کی بھی نیت کرلیں تو ان دو رکعت سے باقی نمازیں بھی حاصل ہوجائیں گی. اس لیے ان نمازوں کو دوسری فرض یا نفل نمازوں کے ساتھ جمع کرکے پڑھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی الگ الگ نیت سے پڑھنا چاہیے تب بھی پڑھ سکتا ہے
تستحبّ الاستخارة بالصلاة والدعاء المذكور، وتكون الصلاة ركعتين من النافلة، والظاهر أنها تحصل بركعتين من السنن الرواتب، وبتحية المسجد وغيرها من النوافل. اذکار للنووی:230/1
مسألة: السنن التي تندرج مع غيرها عشر: التحية وركعتاالطواف والإحرام والوضوء، وصلاة الغفلة والاستخارة، والحاجة والزوال، والقدوم من السفر والخروج له، ذكره في النهاية فلو جمعها كلها، أو بعضها ولو مع الفرض بنية واحدة جاز وأثيب على الكل، ويسن لمن وجد الإمام في الفرض أن يحرم به من معه، وينوي معه التحية ولا يشتغل بها عن الفرض، بل يكره ذلك. و في حاشيته:قوله: (تندرج مع غيرها) غير مقصودة لذاتها، ولهذا يجوز جمعها مع فرض، أو نفل غيرها، بل تحصل ويثاب عليها وإن لم ينوها عند الرملي.
كن قال النووي رحمة الله عليه: في الأذكار: الظاهر أن الاستخارة تحصل بركعتين من السنن الرواتب، وبتحية المسجد، وبغيرها من النوافل.قلت: فعلى هذا يتجه إلحاقها بالتحية في عدم اشتراط التعيين، ومثلها صلاة الحاجة. الأشباه والنظائر :١/١٤
أسنى المطالب في شرح روض الطالب مع حاشية الرملي الكبير:١/٢٠٥
حاشية البجيرمي على شرح المنهج: ١/
منگل _10 _اکتوبر _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1214
کیا سنت نماز میں بھی فرض نماز کی طرح توجیہ پڑھنا سنت ہے؟
نماز جنازہ کے علاوہ ہر فرض و نقل نمازوں کی پہلی رکعت میں توجیہ پڑھنا سنت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص امام کے ساتھ رکوع یا سجدے کی حالت میں رکعت باندھ کر جماعت میں شامل ہوجائے تو ایسی صورت میں بھی مقتدی کے لیے اپنی پہلی رکعت میں توجیہ پڑھنا سنت نہیں ہے.
وَسَوَاءٌ فِي دُعَاءِ الِاسْتِفْتَاحِ الْفَرِيضَةُ وَجَمِيعُ النَّوَافِلِ. روضة الطالبين وعمدة المفتين:١/٢٤٠
الِاسْتِفْتَاحِ لِكُلِّ مُصَلٍّ يَدْخُلُ فِيهَا النَّوَافِلُ الْمُرَتَّبَةُ وَالْمُطْلَقَةُ وَالْعِيدُ وَالْكُسُوفُ فِي الْقِيَامِ الْأَوَّلِ وَالِاسْتِسْقَاءُ وغيرها يستثني مِنْهُ مَوْضِعَانِ (أَحَدُهُمَا) صَلَاةُ الْجِنَازَةِ: فِيهَا وَجْهَانِ ذَكَرَ الْمُصَنِّفُ فِي الْجَنَائِزِ أَصَحُّهُمَا عِنْدَهُ وَعِنْدَ الْأَصْحَابِ لَا يُشْرَعُ فِيهَا دُعَاءُ الِاسْتِفْتَاحِ لِأَنَّهَا مبنية علي الاختصار والثانى تستحب كغيرها (الوضع الثَّانِي) الْمَسْبُوقُ إذَا أَدْرَكَ الْإِمَامَ فِي غَيْرِ الْقِيَامِ لَا يَأْتِي بِدُعَاءِ الِاسْتِفْتَاحِ حَتَّى قَالَ الشَّيْخُ أَبُو مُحَمَّدٍ فِي التَّبْصِرَةِ لَوْ أَدْرَكَ الامام رفعا مِنْ الِاعْتِدَالِ حِينَ كَبَّرَ لِلْإِحْرَامِ لَمْ يَأْتِ بِدُعَاءِ الِاسْتِفْتَاحِ بَلْ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَك الْحَمْدُ إلَى آخِرِهِ مُوَافَقَةً لِلْإِمَامِ. المجموع شرح المهذب:٣/٣١٩
نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج مع حاشية الشبراملسي وحاشية الرشيدي: ١/٤٧٢
تحفة المحتاج في شرح المنهاج وحواشي الشرواني والعبادي:٢/٢٩
مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج:١/٣٥٢
مختصر تحفة المحتاج بشرح المنهاج :١/١٧٨
اتوار _22 _اکتوبر _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1215
صلاۃ التسبیح کی کتنی رکعتیں ہیں؟ اسے کس طرح یعنی دو دو رکعت کرکے یا پھر 4 رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا چاہیے؟
صلاۃ التسبیح کی چار رکعتیں ہیں۔انہیں ایک سلام کے ساتھ یا پھر دو دو رکعت کرکے پڑھنا درست ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص تسبیح کی نماز رات میں پڑھ رہا ہو تو چار رکعت دو تشھد اور ایک سلام کے ساتھ جیسے ظہر، عصر کی نماز پڑھتے ہیں اس طرح پڑھنا افضل ہے۔ اگر دن میں پڑھ رہا ہو تو پھر ایک سلام سے پڑھنا افضل ہے۔ دو دو رکعت پڑھنا بھی درست ہے ۔اور جب دو دو رکعت پڑھی جائے تو دونوں کے درمیان زیادہ فصل (دیر) نہ ہو
والمجموع من الروايتين ثلاثمائة تسبيحة، فإن صلاها نهارا فبتسليمة واحدة، وإن صلاها ليلا فبتسليمتين أحسن، إذ ورد أن صلاة الليل مثنى مثنى. وقوله: أربع ركعات بتسليمة أو تسليمتين قد تقدم في كلام الغزالي أنه إن صلاها نهارا فبتسليمة واحدة، وإن صلاها ليلا فبتسليمتين. وقال النووي في الأذكار، عن ابن المبارك: فإن صلاها ليلا فأحب إلي أن يسلم من كل ركعتين، وإن صلاها نهارا فإن شاء سلم وإن شاء لم يسلم.اه.وعلى أنها بتسليمة واحدة له أن يفعلها بتشهد واحد، وله أن يفعلها بتشهدين كصلاة الظهر. إعانة الطالبين:١/٣٠٠
وصلاة التسبيح أربع ركعات إما بتسليمة واحدة وهي نهارا أفضل، أو بتسليمتين وهو أفضل بليل۔. حاشيةالقليوبي:١/٢٤٧
ويحتمل أن شرط حصول سنتها أن يفعلها متوالية حتى تعد صلاة واحدة وهو الأقرب۔. حاشية الجمل:١/٤٧٩
بدھ _12 _جون _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1216
دودھ دینے والے جانور کی قربانی درست ہے یا نہیں؟
دودھ دینے والے جانور کی قربانی کرنا درست ہے۔
قال الامام الشافعي كرائم الاموال فيما هو أعلى كل ما يجوز أضحية.
الأم للشافعي: ٢٥،٢٦/٣
قال الامام الحرمين: وحكوا وجها بعيدا عن بعض الأصحاب أن الربى لا تقبل من جهة أنها لقرب عهدها بالولادة تكون مهزولة، والهزل عيب.وهذا ساقط، فقد لا تكون كذلك، وقد تكون غير الربى مهزولة، والهزل الذي يعد عيبا فهو الهزال الظاهر البين.
نهاية المطلب: ١٨٢/٣
المجموع: ٤٢٧/٦
مغني المحتاج: ١٢٢/٧
التمهيالتمه
پیر _23 _اکتوبر _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1217
حمل کے دوران عورتوں کو بعض مرتبہ خاص طبی چانچ کی ضرورت پڑتی ہے تو کیا عورت ڈاکٹر کے ہوتے ہوئے کسی مرد ڈاکٹر سے چانچ کرانے کا کیا مسئلہ ہے؟
دوران حمل عورت کو بہت سی تکالیف و دشواریوں پیش آتی ہیں اور رحم میں موجود بچہ اور ماں کی صحت کے لیے مختلف طریقوں سے علاج و معالجہ اور جانچ کی ضرورت پڑتی ہے تو ایسے وقت میں ماہر مرد ڈاکٹر سے علاج کی یا خاص طبی جانچ کی checkup ضرورت پیش آئے تو اسکی اجازت ہے۔ البتہ ماہر عورت ڈاکٹر کی موجودگی میں مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا جائز نہیں ہے.
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وإذا كان بعورة المرأة علة يجوز للطبيب الأمين أن ينظر إليها؛ للمعالجة؛ كما يجوز للختان أن ينظر إلى فرج المختون؛ لأنه موضع ضرورة. التهذيب: ٢٣٦/٥
علامة زكريا الأنصاري فرماتے ہیں:قَالَ الْأَذْرَعِيُّ فِي الْغُنْيَةِ رَأَيْت فِي الْكَافِي لَوْ كَانَ بِعَوْرَةِ الرَّجُلِ أَوْ الْمَرْأَةِ عِلَّةٌ جَازَ لِلطَّبِيبِ الْأَمِينِ أَنْ يَنْظُرَ إلَيْهِمَا لِلْمُعَالَجَةِ كَمَا فِي الْخِتَانِ۔ أسنی المطالب:٤٧٤/٤
علامہ ابن الملقن رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ويبَاحَانِ، يعنى النظرُ والْمَسُّ، لِفَصَدٍ وَحِجَامَةٍ وَعِلاَج، للحاجة الملجِئَة إلى ذلك… ونظر القابلة إلى فرج التي تولدها۔ عجالة المحتاج: ١١٨٠/٣
علامه أبوبکر الدمياطي رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وهو أنه لا يباح النظر لأجل المعالجة عند وجود امرأة أو محرم۔ إعانة الطالبين :٤١٩/٣
بدھ _25 _اکتوبر _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1218
میت کو غسل دینے کے بعد اگر اگلی یا پچھلی شرمگاہ سے نجاست نکلے تو کفن کے ساتھ پیمپر پہنانے کا کیا مسئلہ ہے؟
میت کو غسل دینے کے بعد اس کی اگلی یا پچھلی شرم گاہ سے نجاست نکل رہی ہو تو اس جگہ کو روئی سے بند کرنا چاہیے اگر ممکن نہ ہو تو اس صورت میں میت کو کفن کے اندر نجاست کو روکنے کے لیے پیمپر پہنانا درست ہے.
فَإِنْ كَانَ يَخَافُ مِنْ مَيْتَتِهِ أَوْ مَيِّتِهِ أَنْ يَأْتِيَ عِنْدَ التَّحْرِيكِ إذَا حُمِلَا شَيْئًا لِعِلَّةٍ مِنْ الْعِلَلِ اسْتَحْبَبْت أَنْ يَشُدَّ عَلَى سُفْلِيّهمَا مَعًا بِقَدْرِ مَا يَرَاهُ يُمْسِكُ شَيْئًا إنْ أَتَى مِنْ ثَوْبٍ صَفِيقٍ فَإِنْ خَفَّ فَلِبْدٌ صَفِيقٌ۔. الأم للشافعي- ط الفكر ١/٣٠٣
قال الشافعي رحمة الله عليه: (ويشد عليه خرقة مشقوقة الطرفين بإحدى أليتيه وعانته، ثم تشد عليه كما يشد التبان الواسع) .قال الشيخ أبو حامد: وهذا الشد لا يحتاج إليه في الميت إلا إن كان به علة قيام، أو خشي عليه أن يخرج منه، فيؤخذ لبد، فيشد عليه من فوق أليتيه، فإن لم يكن لبد، فخرقة. (البيان: ٣ / ٤٤)
جمعرات _26 _اکتوبر _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1219
غیر مسلم لوگ دیوالی اور دسہرے کے موقع پر دیوی دیوتاوں کے نام پر بکرے ذبح کرتے ہیں اور ذبح کرنے کے لیے مسلمانوں کو بلاتے ہیں اس صورت میں مسلمان کے لیے جانور کو ذبح کرنے یا گوشت کی صفائی وغیرہ کی اجرت لینے کا کیا حکم ہے؟
غیروں کے تہواروں کے موقع پر ان کے دیوی دیوتاوں کے نام پر جو بکرے وغیرہ ذبح کئے جاتے ہیں اس طرح کے گناہ کے کاموں میں مسلمان کا اجرت پر کام کرنا شرعا جائز نہیں ہے اس لیے کہ گناہ کے کاموں پر کسی بھی طرح کا تعاون کرنا حرام ہے.
امام ابن حجر الهيتمي رحمة الله عليه: ما الحُكْمُ فِي بَيْعِ نَحْوِ المِسْكِ لِكافِرٍ يُعْلَمُ مِنهُ أنَّهُ يَشْتَرِيه لِيُطَيِّبَ بِهِ صَنَمَهُ وبَيْعِ حَيَوانٍ لِحَرْبِيٍّ يُعْلَمُ مِنهُ أنَّهُ يَقْتُلُهُ بِلا ذَبْحٍ لِيَأْكُلَهُ؟(فَأجابَ) بِقَوْلِهِ يَحْرُمُ البَيْعُ فِي الصُّورَتَيْنِ كَما شَمَلَهُ قَوْلُهُمْ (يعني العلماء ) كُلُّ ما يَعْلَمُ البائِعُ أنَّ المُشْتَرِيَ يَعْصِي بِهِ يَحْرُمُ عَلَيْهِ بَيْعُهُ لَهُ وتَطْيِيبُ الصَّنَمِ وقَتْلُ الحَيَوانِ المَأْكُولِ بِغَيْرِ ذَبْحٍ مَعْصِيَتانِ عَظِيمَتانِ ولَوْ بِالنِّسْبَةِ إلَيْهِمْ لِأنَّ الأصَحَّ أنَّ الكُفّارَ مُخاطَبُونَ بِفُرُوعِ الشَّرِيعَةِ كالمُسْلِمِينَ فَلا تَجُوزُ الإعانَةُ عَلَيْهِما بِبَيْعِ ما يَكُونُ سَبَبًا لِفِعْلِهِما وكالعِلْمِ هُنا غَلَبَةُ الظَّنِّ. الفتاوى الفقهية الكبرى:٢/٢٧٠
علامہ سلیمان البجیرمی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:ولا يَجُوزُ لِلْمُسْلِمِ إعانَةُ الكافِرِ عَلى ما لا يَحِلُّ عِنْدَنا كالأكْلِ والشُّرْبِ… لِأنَّهُ إعانَةٌ عَلى مَعْصِيَةٍ. حاشية البجيرمي على الخطيب:٢/٣٧٤
علامہ زین الدین الملیباری رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وحرم أيضا: بيع نحو عنب ممن علم أو ظن أنه يتخذه مسكرا للشرب والأمرد ممن عرف بالفجور به والديك للمهارشة والكبش للمناطحة والحرير لرجل يلبسه وكذا بيع نحو المسك لكافر يشتري لتطييب الصنم والحيوان لكافر علم أنه يأكله بلا ذبح لان الأصح أن الكفار مخاطبون بفروع الشريعة كالمسلمين۔. فتح المعين: ١/٣٢٦
وكذلك لا يبيع للمسلمين ما يستعينون به على التشبه بالكفار في أعيادهم. (الإسلام سؤال وجواب: رقم السؤال ٦٩٥٥٨)
جمعہ _27 _اکتوبر _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1220
گھر میں بیوی کے علاوہ کوئی اور محرم رشتہ دار مثلاً والدہ، بالغ بیٹی یا بہن وغیرہ ہو تو کیا اپنے ہی گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت لینے کی ضرورت ہے جبکہ آج کل ہر گھر کے باہر گھنٹی ہوتی ہے؟
اپنے گھر میں اگر بیوی کے علاوہ محرم رشتہ دار ہوں تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے ان کی اجازت لینا ضروری نہیں ہے. بلکہ بغیر اجازت بھی داخل ہوسکتے ہیں، لیکن بہتر یہ ہے کہ اجازت کے ساتھ داخل ہو یا داخل ہونے سے پہلے کم از کم کھانسے یا پیروں سے آہستہ آواز کرےجس سے موجود لوگوں کو آنے کی طلاع دے تاکہ اگر وہ نامناسب حالت میں ہو تو اپنے آپ کو سنبھال سکے۔
امام بخاری رحمة الله عليه فرماتے ہیں: سَأَلَ رَجُل حُذَيْفَة : أَسْتَأْذِن عَلَى أُمِّي؟قَالَ : إِنْ لَمْ تَسْتَأْذِن عَلَيْهَا رَأَيْت مَا تَكْرَه ". (الادب المفرد ١٠٦٠)
امام ابن الرفعه رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وإن كان ذا محرم: فإن كان ساكنًا مع صاحب البيت فيه، فلا يلزمه أن يستأذن، ولكن عليه إذا أراد الدخول أن يشعر بدخوله بالنحنحة وشدة الوطء، ونقل الخُطا ليستتر العريان، ويفترق المجتمعا. (كفاية النبيه ١٦/٣٠٣)
(الحاوي الكبير ١٣/٤٦٤)