اتوار _14 _جنوری _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1241
نماز میں اگر سنن ابعاض میں شک ہوجائے کہ پہلے تشہد میں بیٹھا تھا یا نہیں یا پھر پہلے تشہد کے بعد میں درود اللھم صل علی محمد تک پڑھا ہے یا نہیں تو اس نماز کا کیا حکم ہے؟
سنن أبعاض میں اگر شک ہوجائے تو اس نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرنا سنت ہے۔ سنن ابعاض یعنی تشہد اول میں بیٹھنا یا دعائے قنوت پڑھنا یا تشہد میں درود شریف کا اللھم صلی علی محمد تک پڑھنا ہے ۔ اگر ان امور کے کرنے یا نہ کرنے میں شک ہوجائے تو انہیں نہ کرنا مان کر نماز کے آخر میں سجدہ سھو کیا جائے گا
قال الرملي رحمه الله (ولو شك) مصل (في ترك بعض) من الأبعاض السابقة معين القنوت (سجد) إذ الأصل عدم فعله، بخلاف ما لو شك في ترك بعض مبهم أو في أنه سها أم لا. نهاية المحتاج: ٢/٧٨
قال النووي رحمه الله: قال أصحابنا فإذا شك في ترك مأمور يجبر تركه بالسجود وهو الأبعاض فالأصل أنه لم يفعله فيسجد للسهو وهذا لا خلاف فيه قال البغوي هذا إذا كان الشك في ترك مأمور به معين فأما إذا شك هل ترك مأمورا به مطلقا أم لا فلا يسجد كما لو شك هل سهي أم لا فإنه لا يسجد قطعا. المجموع: ٤/١٢٨
حاشية الجمل: ١/٤٥٤
العزيز: ٢/٨٧
الغرر البهية: ١/٣٧٢
منگل _16 _جنوری _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1242
صدقہ کے مال سے پرندوں کو کھانا کھلانا جائز ہے یا نہیں؟
نفل صدقہ میں سے پرندوں کو اناج وغیرہ کھلانا جائز ہے۔ اور اس پر اس کو نفل صدقہ کا ثواب بھی ملے گا۔لیکن زکات، صدقہ فطر اسی طرح نذر مانے ہوئے صدقہ کے مال میں سے پرندوں کو کھلانا جائز نہیں ہے
قال المهلب رحمة الله عليه: وهذا يدل على أن الصدقة على جميع الحيوان، وكل ذي كبد رطبة فيه أجر. (التوضيح لشرح الجامع الصحيح :١٥/٢١٨)
يقول الامام محمد صالح المنجد رح: ومعلوم أن إطعام الطيور والبهائم من الصدقات التي يكتب فيها الأجر للمسلم،. (موقع السلام سوال وجواب:٤٨٠٤/٥)
يقول الامام عمراني رح: أعلمهم أن عليهم صدقة، توخذ من أغنيائهم، وترد في فقرائهم . وهذا خطاب للمسلمين. البيان: ٤٤١/٣
وأما الطيور والحيوانات فلاينفق عليها من الصدقة الواجبةكالزكاة والكفارة، وتطعم من غير الواجبة كالتطوع. فتاوي اللجنة دائمة:١١/٢٣
بدھ _24 _جنوری _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1243
جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان جب امام بیٹھتا ہے تو اس وقت کونسی دعا پڑھنی چاہیے؟
امام جب دو خطبوں کے درمیان بیٹھ جائے تو مقتدی دعا یا ذکر یا قرآن مجید کی کوئی آیت تلاوت کرے یا دورد شریف پڑھے۔ البتہ آہستہ آواز میں دعا کرنا زیادہ بہتر ہے اس لیے کہ جمعہ کی نماز میں دو خطبوں کے درمیان کا وقت بھی دعا کی قبولیت کے اوقات میں سے ہے
قال الإمام ابن حجر هيتمي رحمة الله عليه: نَفَعَ اللَّهُ بِهِ عَمَّا إذَا جَلَسَ الْخَطِيبُ بَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ هَلْ يُسْتَحَبُّ لَهُ فِي جُلُوسِهِ دُعَاءٌ أَوْ قِرَاءَةٌ أَوْ لَا وَهَلْ يُسَنُّ لِلْحَاضِرِينَ. حِينَئِذٍ أَنْ يَشْتَغِلُوا بِقِرَاءَةٍ أَوْ دُعَاءٍ أَوْ صَلَاةٍ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ بِرَفْعِ الصَّوْتِ أَوْ لَا (فَأَجَابَ) بِقَوْلِهِ: ذُكِرَ فِي الْعُبَابِ أَنَّهُ يُسَنُّ لَهُ قِرَاءَةُ سُورَةِ الْإِخْلَاصِ وَقُلْتُ فِي شَرْحِهِ لَمْ أَرَ مَنْ تَعَرَّضَ لِنَدْبِهَا بِخُصُوصِهَا فِيهِ وَيُوَجَّهُ بِأَنَّ السُّنَّةَ قِرَاءَةُ شَيْءٍ مِنْ الْقُرْآنِ فِيهِ كَمَا يَدُلُّ عَلَيْهِ رِوَايَةُ ابْنِ حِبَّانَ كَانَ ﷺ يَقْرَأُ فِي جُلُوسِهِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَإِذَا ثَبَتَ أَنَّ السُّنَّةَ ذَلِكَ فَهِيَ أَوْلَى مِنْ غَيْرِهَا لِمَزِيدِ ثَوَابِهَا وَفَضَائِلِهَا وَخُصُوصِيَّاتِهَا قَالَ الْقَاضِي وَالدُّعَاءُ فِي هَذِهِ الْجِلْسَةِ مُسْتَجَابٌ انْتَهَتْ عِبَارَةُ الشَّرْحِ الْمَذْكُورِ وَيُؤْخَذُ مِمَّا ذُكِرَ عَنْ الْقَاضِي أَنَّ السُّنَّةَ لِلْحَاضِرِينَ الِاشْتِغَالُ وَقْتَ هَذِهِ الْجِلْسَةِ بِالدُّعَاءِ لِمَا تَقَرَّرَ أَنَّهُ مُسْتَجَابٌ حِينَئِذٍ وَإِذَا اشْتَغَلُوا بِالدُّعَاءِ فَالْأَوْلَى أَنْ يَكُونَ سِرًّا لِمَا فِي الْجَهْرِ مِنْ التَّشْوِيشِ عَلَى بَعْضِهِمْ وَلِأَنَّ الْإِسْرَارَ هُوَ الْأَفْضَلُ فِي الدُّعَاءِ إلَّا لِعَارِضٍ. الفتاوي الفقهية الكبري.251/1
قال الإمام البجيرمي رحمة الله عليه: فَيَأْتِي بِالدُّعَاءِ إذَا جَلَسَ الْخَطِيبُ قَبْلَ أَنْ يَخْطُبَ وَبَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ وَبَيْنَهُمَا وَبَيْنَ الصَّلَاةِ أَوْ بَعْدَ التَّشَهُّدِ قَبْلَ السَّلَامِ لَا فِي حَالِ الْخُطْبَةِ. حاشية البجيرمي 401/1
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمة الله عليه: وَيَكُونُ جُلُوسُهُ بَيْنَهُمَا) أَيْ بَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ (نَحْوَ سُورَةِ الْإِخْلَاصِ) اسْتِحْبَابًا، وَقِيلَ إيجَابًا، وَهَلْ يَقْرَأُ فِيهَا أَوْ يَذْكُرُ أَوْ يَسْكُتُ لَمْ يَتَعَرَّضُوا لَهُ لَكِنْ فِي صَحِيحِ ابْنِ حِبَّانَ «أَنَّهُ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ فِيهَا». وَقَالَ الْقَاضِي: إنَّ الدُّعَاءَ فِيهَا مُسْتَجَابٌ. مغني المحتاج: 557/1
روضة الطالبين 93/3
النجم الوهاج : 483/2
جمعہ _26 _جنوری _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1244
اگر کوئی چیز بنانے کے لئے (اوڈر) دی گئی ہو اور اس چیز کے بنانے کے بعد دینے والا شخص اس کی اجرت ادا کرنے سے پہلے وہ چیز طلب کرے اور وہ دینے کے لیے تیار نہ ہو تو وہ چیز بنانے والے کو اجرت نہ دینے پر اس چیز کو روکے رکھنے کا حق ہوگا یا نہیں؟
کسی کے پاس کوئی چیز بنانے کے لئے دی گئی ہو تو بنانے کے بعد اسے اُجرت ملنے تک اس چیز کو واپس نہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگر اجرت ادا کرنے میں تاخیر کرے اور بنانے والا وہ چیز دینے کے لیے تیار نہ ہوتو اسے مطالبہ کا اختیار نہیں ہوگا بلکہ پہلے اجرت ادا کرنا ضروری ہوگا
قال الإمام ابن حجر الهيتمى رحمة الله عليه: وَقَدْ صَرَّحُوا بِأَنَّ لِنَحْوِ الْقَصَّارِ حَبْسَ الثَّوْبِ لِرَهْنِهَا بِأُجْرَتِهِ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهَا. تحفة المحتاج:١١١/٦
قال الإمام الدمياطي رحمة الله عليه: يجوز لنحو القصار حبس الثوب، كرهنه، بأجرته حتى يستوفيها. إعانة الطالبين: ١٤٠/٣
نهاية المحتاج ٢٥٠/٥
فتح المعين ٢٨٥
جمعرات _1 _فروری _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ سوال نمبر / 1245
کرایہ پر لینے والا شخص کسی دوسرے کو زیادہ کرایہ لے کر اجرت پردے سکتا ہے یا نہیں ؟
کراۓ پر لی ہوئی چیز کسی اور کو اجرت پر دینا جائز ہے۔ چاہے اتنا ہی کرایہ طے کرے جتنے کرایہ پر خود لیا ہے یا اس سے زیادہ کرایہ پر دے دونوں صورتیں جائز ہیں۔
يقول الامام بغوي رح: ولو استأجر دارًا، وأراد المستأجر أن يؤاجرها من غيره بعد ما قبض: يجوز؛ سواء أجر بأكثر مما استأجر أو بأقل. التهذيب:٤٣٩/٤
يقول الامام الرافعي رح:ويصحُّ من المستأجر إجارةُ ما استأجرهُ بعْد القبْض، سواءٌ أجَّر بمثل ما استأجَرَ أو أقَلَّ، أو أكثر. العزيز: ١٨٧/٦
حاشية البجيرمي: ٢٨٠/٤
مغني المحتاج:٧٥/٦
الغرر البهية:٢٣٧/٣
بدھ _7 _فروری _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1246
اگر کسی عورت سے متعلق طبی علاج کے بعد یا معائنہ کے بعد یہ معلوم ہو جائے کہ اس میں ولادت کی صلاحیت نہیں ہے تو اس عورت سے نکاح کرنے کا کیا حکم ہے؟
نکاح کے بہت سارے مقاصد ہیں اس میں سے ایک مقصد یہ ہے کہ انسان پاک دامن رہے اپنی خواہشات کو حلال طریقے سے پورا کرے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس سے نسل انسانی کی ترویج بھی ہو۔ اگر طبی ذرائع سے یقینی طور پر کسی شخص کے تعلق سے یہ بات معلوم ہو کہ ولادت کی صلاحیت نہیں ہے تب بھی اس سے نکاح کرنا یا شادی کرنا جائز ہے۔ البتہ حدیث پاک میں اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ اس شخص سے یا اس عورت سے شادی کی جائے جس میں ولادت کی صلاحیت ہو اس سے نکاح کرنا چاہیے۔
وقال المناوي رحمة الله عليه: «تزوج غير الولود مكروه تنزيهًا» انتهى.وكما يجوز للمرأة أن تتزوج من الرجل العقيم، فكذلك يجوز للرجل أن يتزوج من المرأة العقيم.*
فيض القدير: ٦/٩٧٧٥
وَيُنْدَبُ لِمُرِيدِ النِّكَاحِ أَنْ يَنْكِحَ (الْوَلُودَ) الْوَدُودَ لِخَبَرِ «تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الْأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
(الغرر البهية: ٤/٩٣)
التهذيب: ٥/٢٣٣
الوسيط: ٥/٢٧
جمعرات _8 _فروری _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1247
سنن رواتب اور صلاة الحاجة و صلاۃ التوبہ جیسی نمازوں کو ایک نیت کے ساتھ جمع کرکے پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
سنن رواتب کے ساتھ صلاة الحاجة یا صلاۃ التوبہ کی نماز کو ایک ہی نیت کے ساتھ جمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔
صَلَاة الْحَاجة فَمن ضَاقَ عَلَيْهِ الْأَمر ومسته حَاجَة…. وَتحصل بِرَكْعَتَيْنِ يَنْوِي بهما قَضَاء حَاجته….. وتندرجان فِي الْفَرْض وَالنَّفْل كتحية الْمَسْجِد۔ نهاية الزين: ١/١٠٥
قَوْلُهُ كَتَحِيَّةِ مَسْجِدٍ إلَخْ) أَيْ وَصَلَاةِ الْحَاجَةِ وَسُنَّةِ الزَّوَالِ وَصَلَاةِ الْغَفْلَةِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ….. وَيَنْبَغِي أَنْ يُلْحَقَ بِذَلِكَ صَلَاةُ التَّوْبَةِ وَرَكْعَتَا الْقَتْلِ وَعِنْدَ الزِّفَافِ وَنَحْوَ ذَلِكَ مِنْ كُلِّ مَا قُصِدَ بِهِ مُجَرَّدُ الشُّغْلِ بِالصَّلَاةِ. تحفة المحتاج: ٢/١١
أَمَّا غَيْرُ الْمَقْصُودِ كَتَحِيَّةٍ وَاسْتِخَارَةٍ وَإِحْرَامٍ وَطَوَافٍ وَسُنَّةِ وُضُوءٍ أَوْ غُسْلٍ أَوْ غَفْلَةٍ وَسُنَّةِ الْقُدُومِ مِنْ السَّفَرِ وَالْخُرُوجِ لَهُ وَرَكْعَتَيْ الْحَاجَةِ وَالزِّفَافِ فَهَذِهِ الْعَشَرَةُ نَصَّ عَلَيْهَا الرَّمْلِيُّ فَيَجُوزُ جَمْعُهَا مَعَ فَرْضٍ أَوْ نَفْلِ۔ حاشية البجيرمي:٢/٨
الإقناع. ١/١٢٩
إعانة الطالبين. ١/١٥٠
جمعہ _9 _فروری _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1248
جمعہ کا خطبہ اگر ظھر کا وقت شروع ہونے سے پہلے دیا جائے تو جمعہ کا خطبہ اور نماز درست ہوگی یا نہیں؟
اگر کسی جگہ جمعہ کا خطبہ ظہر کا وقت شروع ہونے سے پہلے دیا جائے تو جمعہ کی نماز اور خطبہ دونوں درست نہیں اس لیے کہ خطبہ اور جمعہ کی نماز کے لیے ظہر کا وقت شروع ہونا ضروری ہے۔
وَلَا تصح الجمعة إلا في وقت الظهر لانهما فرض في وقت واحد…. وان خطب قبل دخول الوقت لم تصح لان الجمعة ردت إلي ركعتين بالخطبة فإذا لم تجز الصلاة قبل الوقت لم تجز الخطبة فان دخل فيها في وقتها… المجموع:٤ -٥٠٩
وشرطها : الوقت ؛ أي : وقت الظهر ؛بأن تفعل مع خطبتيها كلها فيه؛ لخبر البخاري عن أنس :أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي الجمعة حين تميل الشمس… فلا يجوز شيء من ذلك قبل وقت الظهر ولا بعده… فتح الرحمان/ ٣٨٥
السراج الوهاج:١/٨٥
الفقه المنهجي:١/٢٠٣
المعتمد/١-٥٠٥
پیر _12 _فروری _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1249
احرام پہننے کے بعد سرمہ لگانے کا کیا حکم ہے؟
احرام پہننے کے بعد ایسا سرمہ لگانا درست ہے جس میں خوشبو نہ ہو۔لہذا صرف زینت کے لیے بھی سرمہ لگا سکتے ہیں لیکن احرام کی حالت میں سرمہ نہ لگانا افضل ہے۔ اور خوشبو دار سرمہ لگانے سے فدیہ واجب ہوگا
قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَلَا بَأْسَ بِالْكُحْلِ مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ طِيبٌ فَإِنْ كَانَ فِيهِ طِيبٌ افْتَدَى قال الشافعي: «وَلَا بَأْسَ بِالْكُحْلِ، مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ طيب، فإن كان فيه طيب افتدى». (مختصر المزنی:١٦٣)
الحاوی الکبیر ١٢١/٤
بحر المذهب ١٢٧/٥
العزيز٤٧٢/٣
المجموع ٢٤٨/٤
بدھ _14 _فروری _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1250
اگر کوئی عورت نذر مانے کہ میرا فلاں کام ہونے تک میں روزے رکھوں گی اور وہ کام ابھی پورا نہیں ہوا، اور درمیان میں حیض آجائے جس کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتی تو کیا وہ عورت گنہگار ہوگی؟
نذر مانی ہوئی عورت اگر مسلسل روزہ رکھ رہی ہو اور درمیان میں حیض ونفاس کے ایام آجائے تو چونکہ حیص و نفاس کی مدت میں روزہ نہ رکھنے کا حکم ہے اسلیے اس کے تسلسل پر نہ کوئی فرق پڑے گا اور نہ ہی وہ گنہگار ہوگی.
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمة الله عليه:وَإِذَا أَطْلَقَ النَّاذِرُ السَّنَةَ حُمِلَتْ عَلَى الْهِلَالِيَّةِ؛ لِأَنَّهَا السَّنَةُ شَرْعًا وَلَا يَقْطَعُهُ أَيْ التَّتَابُعَ فِي السَّنَةِ لَوْ كَانَ النَّاذِرُ لَهَا امْرَأَةً حَيْضٌ وَنِفَاسٌ أَيْ زَمَنُهُمَا لِأَنَّهُ لَا يُمْكِنُ الِاحْتِرَازُ مِنْهُ. مغني المحتاج:٢٣٩/٦
قال الإمام الماوردي رحمة الله عليه: وَلِذَلِكَ لَوْ نَذَرَتْ صِيَامَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ لَمْ يَقْطَعِ الْحَيْضُ تَتَابُعَ الصِّيَامِ فِي نَذْرِهَا. الحاوى الكبير: ٥٠٠/١٥
قال الإمام ابن حجر الهيتمى رحمة الله عليه:نَذَرَ صَوْمَ سَنَةٍ غَيْرِ مُعَيَّنَةٍ وَشَرَطَ التَّتَابُعَ فِي نَذْرِهِ، وَلَوْ بِالنِّيَّةِ وَجَبَ التَّتَابُعُ…. وَلَا يَقْطَعُهُ حَيْضٌ وَنِفَاسٌ لِتَعَذُّرِ الِاحْتِرَازِ عَنْهُمَا. تحفة المحتاج ٨٣/١٠
نهاية المحتاج ٢٢٦/٨
النجم الوهاج:١٠٧/١٠
بداية المحتاج: ٤٢٦