بدھ _14 _اگست _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1261
استخارہ اور استشاره (مشورہ طلب کرنا) میں سے شرعا کونسا عمل افضل و بہتر ہے؟ نیز استخاره و الاستشارہ میں کونسا عمل مقدم اور کونسا مؤخر کرنا چاہیے؟
استخارہ و استشارہ دونوں ہی سنت عمل ہے اور قرآن و سنت میں دونوں کی ترغیب آئی ہے۔ ایک ہی معاملہ میں استخارہ کی نماز پڑھنا اور استشارہ یعنی مشورہ لینا دونوں جائز ہے اور ان میں سے کسی کو بھی مقدم مؤخر کرنا درست ہے، چاہے پہلے استخارہ کی نماز پڑھے پھر مشورہ کریں یا پہلے مشورہ کرکے بعد میں استخارہ کی نیت سے نماز پڑھے۔ البتہ مستحب یہ ہے کہ کسی اہم دینی یا دنیوی کام کے سلسلے میں پہلے نیک و مخلص اور تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کرے پھر استخارہ کی نیت سے نماز پڑھ کر اللہ سے رجوع کرے۔
قال الإمام النووي: اعلم أنه يستحبُّ لمن خطر بباله السفر أن يشاور فيه مَنْ يعلم من النصيحة والشفقة والخبرة، ويثق بدينه ومعرفته، قال الله تعالى: ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾ [آل عمران : ١٥٩] ودلائله كثيرة. وإذا شاور وظهر أنه مصلحة استخار الله لها الله في ذلك، فصلى ركعتين من غير الفرضية، ودعا بدعاء الاستخارة.
كتاب الأذكار للنووي: ١٥٠
قال الفيومي القاهري: ولتكن الاستشارة قبل الاستخارة فإذا شاور وظهر أنه مصلحة استخار الله تعالى في ذلك فصلى ركعتين من غير الفريضة ودعا بدعاء الاستخارة.
فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب للفيومي القاهري: ٤٩٣/٤
بدھ _14 _اگست _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1262
جماعت کی نماز کے دوران اگر اچانک مائک بند ہوجائے یا بجلی چلی جائے جس سے امام کے تکبیرات کا علم نہ ہوسکے تو ایسے لوگ اپنی نماز انداز امام کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے؟ ایسی صورت میں کیا کرینگے
با جماعت نماز کے دوران اگر امام کی تکبیرات کا علم نہ ہو چاہے وہ مائیک خراب ہوجائے یا بجلی چلی جائے یا مکبر یعنی بلند آواز سے تکبیرات کہنے والا خاموش ہو جائے اور امام کی آواز نہ پہنچتی ہو تو ایسا مقتدی اندازا دو رکن کے بقدر انتظار کرے گا۔ ورنہ امام سے مفارقت کی نیت کرے اور اپنی نماز مکمل کرے گا۔
شیخ زکریا انصاری فرماتے ہیں:لو ذهب المبلغ في اثناء صلاته لزمته نية المفارقة ان لم يرج عوده قبل مضي ما يسع ركنين في ظنه فيما يظهر.
(الغرر البهية :٢ / ٤٧۵)
حاشية الجمل: ٢ / ٣٤٧
نهاية المحتاج: ٢ / ١٩٨
اعانة الطالبين: ٢ / ٤٢
حاشية البجيرمي: ١ / ٣٢٣
اتوار _28 _جولائی _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1263
کیا عقیقہ ساتویں دن ہی کرنا ضروری ہے یا اس کے بعد بھی کرسکتے ہیں؟
بچے کا عقیقہ پیدائش کے ساتویں دن کرنا سنت ہے۔ اور سات دن کے بعد بھی کر سکتے ہیں۔ البتہ بچہ کے بالغ ہونے تک والد پر اس کا حق ہے۔ بلوغت کے بعد والد سے ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور وہ خود چاہے تو اپنی طرف سے کر سکتا ہے۔
والسُّنَّةُ أَنْ يَكُونَ ذلك يوم السابع ؛ لِمَا رَوَتْ عَائِشَةُ: أَنَّ النبي ﷺ عَنْ عَنِ الحسن والحسين يوم السابع، وسماهما، وأمر أن يُمَاطَ الأذى عن رُءُوسِهِمَا فإن قدمه على ذلك أو أخره، جَاز؛ لأنه وجد بعد سببه*
(البيان ٤٤١/٤)
هي سنة، والمستحب ذبحها يوم السابع من يوم الولادة۔۔۔۔۔الأصح. قلت: وإن ولد ليلاً، ويجزئ ذبحها قبل فراغ السبعة، ولا يحسب قبل الولادة۔۔۔* *ولا تفوت بتأخيرها عن السبعة،۔۔وهو مخير في العقيقة عن نفسه
(روضة الطالبين/ ٤٥٠)
العقيقة سنة وهو ما يذبح عن المولود… ذبح العقيقة يوم السابع من الولادة.. فلو ذبحها بعد السابع او قبله وبعد الولادة أجزاه…. قال أصحابنا: ولا تفوت بتأخيرها عن السبعة لكن يستحب ألا يؤخر عن سن البلوغ…. قال الرافعي : فإن أخر حتى بلغ سقط حكمها في حق غير المولود. وهو مخير في العقيقة عن نفسه .قال : واستحسن القفال والشاشي أن يفعلها ؛ للحديث المروى أن النبي : عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ
(المجموع ٣٤٥/٩)
والا فضل فعلھا عقب الدخول للاتباع ولاتفوت بطلاق والموت ولابطول الزمن فیمایظھر کالعقیقۃ
(تحفۃ المحتاج:3/298)
پیر _29 _جولائی _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1264
اگر کسی حاملہ عورت کا حمل ساقط ہوجائے یا شرعی عذر کی وجہ سے ماہر ڈاکٹر کے کہنے پر بچے دانی کو صاف کرنے کے کچھ دنوں تک جو خون نکلے۔اس خون کا کیا حکم ہوگا کیا ایسی حالت میں عورت نماز پڑھ سکتی ہے یا نہیں غسل کب کرے گی؟
حمل اگر دو مہینے یا اس سے زیادہ مدت کا ہو اور وہ ساقط ہوجائے یا کچھ شرعی عذر کی وجہ سے بچہ دانی کو صاف کرنا پڑے تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس ہی کا خون ہوگا۔ اور حیض و نفاس کی حالت میں نماز پڑھنا، روزے رکھنا، جماع کرنا حرام ہے۔ نفاس والی عورت خون رکنے کے بعد مکمل پاک ہوکر فرض غسل لے گی۔
علامہ ابن حجر الہتمی فرماتے ہیں: النفاس وهو الدم الخارج بعد فراغ جميع الرحم وإن وضعت علقة أو مضغة فيها صورة خفية أخذاً…. ويحرم به ما حرم بالحيض.
(تحفة المحتاج :٦٧٨/١)
شيخ ابن رفعة رحمة الله عليه فرماتے ہیں: النفاس… الدم الخارج عقيب العلقة والمضغة التي شهد القوابل أنه يخلق منها الولد لو بقيت.
(كفاية النبيه:٢٠٨/٢)
البيان: ٥١٣/١
ترشيح المستفيدين علي فتح المعين:١٥٣/١
المعتمد في الفقه الشافعي: ١٢٥/١
منگل _30 _جولائی _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1265
دوران سفر اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو کیا ایسا شخص سفر کی حالت میں قصر و جمع کرسکتا ہے؟ کیا ایسے شخص کے لیے یہ رخصت ختم ہوجائے گی یا نہیں؟
اگر کوئی شخص جائز سفر کی نیت سے نکلے اور دوران سفر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو ایسی صورت میں اس کے سفر کی رخصت ختم نہیں ہوگی ایسا شخص قصر و جمع کر سکتا ہے۔
قال الامام النووي رحمة الله عليه :اما العاصي في سفره وهو من خرج في سفر مباح وقصد صحيح ثم ارتكب معاصي في طريقه كشرب الخمر وغيره فله الترخص بالقصر وغيره بلا خلاف لانه ليس ممنوعا في السفر
(المجموع:5/ 327)
البيان:2/ 454
روضه الطالبين:1/ 492
اسنى المطالب:1/ 484
نهايه المطلب :2/ 549
اتوار _18 _اگست _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1266
صلاۃ التسبیح پڑھتے وقت اگر رکوع کی تسبیح پڑھنا چھوٹ جائے پھر اعتدال میں کھڑا ہونے کے بعد واپس رکوع میں جاکر اگر ان تسبیحات کو پڑھے تو کیا نماز ہوجائے گی یا نہیں؟
اگر رکوع میں تسبیحات چھوٹ جائے تو اعتدال میں کھڑا ہونے کے بعد واپس رکوع میں لوٹنا حرام ہے اور اگر کوئی اعتدال میں کھڑا ہونے کے بعد تسبیحات مکمل کرنے کے لیے لوٹنے سے نماز باطل ہوجائے گی. ہاں اگر مسئلہ معلوم نہ ہو تو نماز باطل نہیں ہوگی۔ البتہ ایسے موقع پر سجدہ سہو کرنا سنت ہے
قال الشيخ البجيرمي: ولو تذكر في الاعتدال ترك تسبيحات الركوع حرم عليه عوده لها وقضائها في الاعتدال ، لأنه ركن قصير فلا يطول على ما ورد ويقضيها في السجود لاستحباب تطويله۔
(تحفة الحبيب:٤٢٧/١)
قال الإمام المزجّد: فلو تذكر في الاعتدال ترك تسبيحات الركوع حرم عوده لها ويقضيها في السجود..
(العباب: ٢٥٢/١)
تحفة المحتاج:٢٦٩/١
نهاية المحتاج:١٢٣/٢
الفتاوى الكبرى الفقهية: ٢٧٠/١
منگل _27 _اگست _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1267
مسجد میں داخل ہوتے وقت اگر اذان ہو رہی ہو تو کیا اذان کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ہے یا بغیر انتظار کے تحیۃ المسجد پڑھنا ہے تحیۃ المسجد کا وقت کب تک رہتا ہے؟
افضل اور بہتر یہی ہے کہ کھڑے کھڑے اذان کا جواب دیں اور اذان کے بعد کی دعاء پڑھ کر تحیۃ المسجد پڑھے تاکہ دونوں عبادت حاصل ہوسکے ۔چوں کہ اذان کے ختم ہونے تک انتظار کرنے سے تحیۃ المسجد کا وقت ختم نہیں ہوتا بلکہ بیٹھنے سے تحیۃ المسجد کا وقت فوت ہو جاتاہے
قال الخطيب الشربيني: وتفوت بجلوسه قبل فعلها ، وإن قصر الفصل إلا جلس سهوا. وقصر الفصل كما جزم به في التحقيق، وتفوت بطول الوقوف
مغني المحتاج: ٧٣٤/١
قال ابن قدامة الحنبلي: وإنْ دَخَلَ المَسْجِدَ فَسَمِعَ المُؤَذِّنَ اسْتُحِبَّ لَهُ انْتِظَارُهُ ليَفْرُغَ، ويقُولُ مِثْلَ ما يَقُولُ جَمْعًا بين الفَضِيلَتَيْنِ.
(المغني لابن قدامة:٥٤١/١)
محمد الأمين الشنقيطي فرماتے ہیں: وَإِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَهُوَ يُؤَذِّنُ اسْتُحِبَّ لَهُ انْتِظَارُهُ لِيَفْرَغَ وَيَقُولَ مِثْلَ مَا يَقُولُ جَمْعًا بَيْنَ الْفَضِيلَتَيْنِ
(أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن: ٨/١٥٢)
نهاية المحتاج:١٢٠/٢
نهاية الزين: ١٠٣
فتح المعين:٧٨
بدھ _31 _جولائی _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1268
اگر کسی کی رکعت چھوڑ جائے اور وہ امام کی سلام کے فورا بعد کھڑا نہ ہو بلکہ بہت دیر تک تشہد میں بیٹھا رہے پھر بعد میں کھڑا ہوجائے تو کیا اس سے نماز پر کوئی اثر پڑے گا اس کی نماز ہوجائے گی؟
اگر مسبوق امام کے سلام کے بعد فورا کھڑا نہ ہو بلکہ بہت دیر تک تشہد میں بیٹھا رہے جب کہ اس کے لیے وہ تشہد کا محل نہ ہو تو مسبوق شخص کا امام کے بعد دیر تک بیٹھنا حرام ہے۔ اگر وہ حرمت کو جانتے ہوئے عمدا بیٹھا رہے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ ہاں اگر مسئلہ معلوم نہ ہو یا بھول کر بیٹھے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی۔ ہاں اگر مسبوق شخص کے لیے تشہد میں بیٹھنے کا محل ہو تو امام کے سلام کے بعد دیر تک بیٹھے رہنا مکروہ ہے۔
امام محمد زحیلی فرماتے ہیں: ويلزم الماموم المسبوق القيام عقب التسلمتين ان لم يكن جلوسه مع الامام محل تشهده. فان مكث عامدا عالما بالتحريم بطلت صلاته او ناسيا او جاهلا لم تبطل. وان كان الجلوس محلا لتشهده فلا يلزمه ذلك لكن يكره له تطويله.
(المعتمد:١/ ٣٠٢)
المجموع: ٣ ٤٤٧
مغني المحتاج: ١/ ٤٤٩
بداية المحتاج: ١ / ٣٥٦
حاشية القليوبي وعميرة: ١ / ٧١٩
پیر _2 _ستمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1269
کیا ہر سفر میں باوجود امن و امان کے قصر کرنا ہے یا جس سفر میں خوف ہو اسی سفر میں نمازوں کو قصر کرنا ہے؟
نماز کو قصر کرنا صرف خوف کی حالت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ سفر میں امن کی حالت میں بھی قصر کی اجازت ہے البتہ سفر مسافت قصر کے مطابق ہو
اصحاب فقہ المنہجی فرماتے ہیں:عن يعلى بن أمية قال: قلت لعمر بن الخطاب:﴿ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يقتنكم الذين كفروا} فقد أَمِنَ الناس؟ فقال: عجبت مما عجبت منه، فسألت رسول الله ﷺ عن ذلك، فقال: «صدقة تصدق الله بها عليكم، فاقبلوا صدقته».
وهذا يدل على أن قصر الصلاة ليس خاصًا بحالة الخوف
(الفقه المنهجي:1/ 179)
بحر المذهب:11/ 179
عجالة المحتاج:1/ 342
التعليقة للقاضي حسين:3/ 150
پیر _2 _ستمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1270
تہجد کی نماز میں بلند آواز سے قرات کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
تہجد کی نماز پڑھنے والے کے لیے آہستہ یا اتنی آواز سے قراءت کرنا جائز جس سے دوسروں کی نیند میں خلل نہ ہو، ہاں اگر کوئی دوسرا موجود نہ ہو یا آواز نہ پہنچتی ہو تو بلند آواز میں قرات پڑھنا جائز ہے اور عورتوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ آہستہ تلاوت کریں
قال الدميري رحمة الله عليه :والأصح أن نوافل الليل يتوسط فيها بين الجهر والإسرار ، وقال المتولي : يستحب فيها الجهر إلا إذا كان عنده مصلون أو نيام يشوش عليهم فيسر.
(النجم الوهاج:٣١٧/٢)
المهمات : ٧١/٣
روضة الطالبين: ٣٥٣/١
أسنى المطالب : ٣٢١/١
المجموع: ٣٤٥/٣