منگل _5 _نومبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1272
مساجد میں فقراء و مساکین کے لیے تعاون کی اپیل کرنا یا ان کی مانگنے کی اجازت دینے کا کیا حکم ہے؟
مساجد میں مسکین و سائل کو تعاون کی اپیل کرنا یا ان کو مانگنے کی اجازت دینا جائز ہے جبکہ مانگنے میں کوئی غیر شرعی کام نہ ہو مثلا خواتین کی بے پردگی وغیرہ نیزاس کے مانگنے سے صفوں میں خلل یا نمازیوں کو تکلیف نہ ہو اگر مانگنے کی وجہ سے مسجد میں شور و غل اور نمازیوں کو تکلیف ہو تو مسجد میں مانگنا مکروہ ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں:ولا بأس بان يعطي السائل في المسجد شيئا لحديث عبد الرحمن ابن ابي بكر.
(المجموع/۱)
علامہ ابن العماد فرماتے ہیں: وينبغى أن يمنع السائل من رفع الصوت بالسوال في المسجد ومشيه بين الصفوف وأمام المصلين فان ذلك حرام.
(تسهيل المقاصد لزوار المساجد/٢٧٥)
اسنى المطالب:٣٨٢/١
حواشي الشرواني علي تحفة المحتاج.٤٢٧/٢
فتح العلام:٢٦٥/١
پیر _9 _ستمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1272
جماع کے دوران اگر اذان ہوجائے تو کیا دوران جماع اذان کا جواب دینا جائز ہے یا جماع کو روک کر جواب دینا ہوگا؟
اگرجماع کے دوران اذان ہوجائے تو اس وقت جواب نہ دیں اس لئے کہ جماع کے دوران اذان کا جواب دینا مکروہ ہے۔ البتہ جماع سے فارغ ہوکر اذان کا جواب دیں۔
قال ابن حجرالهيتمي رح: ويقطع للإجابة نحو القراءة والدعاء والذكر وتكره (الإجابة) لمن في صلاة…. ولمجامع وقاضي حاجة، بل يجيبان بعد الفراغ.
(تحفة المحتاج مع الحواشي: ١١٠/٢)
حاشية الجمل: ٤٨٥/١
المجموع : ١٢٥/٣
حاشية البجيرمي على الخطيب: ١٧٤/١
فتح المعين:٧٣
منگل _10 _ستمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1273
اگر کسی شخص کے ذمہ مختلف قسم کے روزے باقی ہوں (قضا، کفارہ قسم، نذر) اور اسے یاد نہ ہو کہ اس کی تعداد کتنی ہے تو اس صورت میں قضا کیسے مکمل کرے گا؟
اگر کسی کے ذمہ مختلف قسم کے روزے مثلا رمضان کے قضا روزے، کفارے کے روزے، یا قسم کے روزے نذر کے روزے اور اسے معلوم نہ ہو کہ کتنے روزے قضا ہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ احتیاطا اس وقت تک روزے رکھے جب تک اسے ظن غالب ہوجائے کہ اس کے تمام قضا روزے مکمل ہوگئے ہیں۔ یعنی وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں روزے رکھے تاکہ کوئی قضا باقی نہ رہے۔
قال الامام الرملي رحمة الله عليه: ومن عليه فوائت لا يعرف عددها قال القفال يقضي ما تحقق تركه فقال القاضي الحسين يقضي ما زاد على ما تحقق فعله وهو الا صح
نهايه المحتاج 1/ 383
التعليقات للقاضي حسين/ 2/ 476
الفتاوى الفقهيه الكبرى:1/ 225
النجم الوهاج:2/ 30
حاشيه البجيريمي1/ 406
بدھ _11 _ستمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1274
بچہ پیدا ہونے کے بعد ماں کے سینے میں اگر دودھ نہ ہو تو کیا ایسے بچہ کو کسی غیر مسلم عورت کا دودھ پلانا درست ہے یا نہیں؟
بچہ پیدا ہونے کے بعد اگر اس کی ماں کو دودھ نہ نکلے اور کوئی مسلم عورت موجود نہ ہو تو ضرورتا کسی غیر مسلم عورت کا دودھ پلانے کی اجازت ہے چونکہ دودھ پلانے کا عمل ایک خدمت ہے اور یہ خدمت کسی غیر مسلم عورت سے لینے میں کوئی حرج نہیں.
*قال الامام الرملي رحمة الله عليه: وَلَوْ اسْتَرْضَعَ ابْنَهُ) قُوَّةُ كَلَامِهِ تُشْعِرُ بِجَوَازِ اسْتِرْضَاعِ الْيَهُودِيَّةِ وَغَيْرِهَا مِنْ الْكَافِرَاتِ لِلْمُسْلِمِ، وَلَا مَانِعَ مِنْهُ لِأَنَّ اسْتِرْضَاعَهَا اسْتِخْدَامٌ لِلْيَهُودِيَّةِ وَاسْتِخْدَامُ الْكُفَّارِ غَيْرُ مَمْنُوعٍ، وَلَا نَظَرَ إلَى أَنَّهَا يُخَافُ مِنْهَا.عَلَى الطِّفْلِ، لِأَنَّا نَقُولُ: هَذِهِ الْحَالَةُ إذَا وُجِدَتْ فِي الْمُسْلِمَةِ امْتَنَعَ تَسْلِيمُ الرَّضِيعِ لَهَا، وَظَاهِرُهُ أَيْضًا سَوَاءٌ كَانَ بِبَيْتِهَا أَمْ بَيْتِ وَلِيِّهِ.
نهايه المحتاج:5/ 464
*قال الامام ابن حجر الهيتمى رحمة الله عليه:وَلَوْ اسْتَرْضَعَ ابْنَهُ إلَخْ قُوَّةُ كَلَامِهِ تُشْعِرُ بِجَوَازِ اسْتِرْضَاعِ الْيَهُودِيَّةِ وَغَيْرِهَا مِنْ الْكَافِرَاتِ لِلْمُسْلِمِ وَلَا مَانِعَ مِنْهُ.
حواشي الشرواني:6/ 363
بدھ _11 _ستمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1275
بارہ ربیع الاول کے دن نبی کی وفات کی یاد میں روزہ رکھنے کا کیا مسئلہ ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت یا وفات کی مناسبت سے روزے رکھنا جائز نہیں ہے۔ اسی وجہ سے فقہاء کرام نے جہاں سنت روزوں کا ذکر کیا ہے اس میں 12/ ربیع الاول (وفات یا ولادت) کے دن روزہ کی مشروعیت ثابت نہیں ہے۔
امام نووی فرماتےہیں: يُسَنُّ صَوْمُ الإِثْنَيْن، وَالخَمِيسِ، وَعَرَفَةَ ، وَعَاشُورَاءَ، وَتَاسُوعَاءَ، وَأَيَّامِ الْبِيضِ، وَسِتَّةِ مِنْ شَوَّالٍ، وَتَتَابُعُهَا أَفْضَلُ ، وَيُكْرَهُ إِفْرَادُ الجُمُعَةِ ، وَإِفْرَادُ السَّبْتِ، وَصَوْمُ الدَّهْرِ غَيْرَ الْعِيدِ وَالتَّشْرِيقِ مَكْرُوهُ لِمَنْ خَافَ بِهِ ضَرَراً أَوْ فَوْتَ حَقٍّ.
(الوجيز: ٣٥)
علماء عرب کا فتوی ہے: وأما تخصيص الثاني عشر من ربيع الأول من كل سنة بالصوم فخلاف السنة أيضا.
منهاج الطالبين: ١٤١
اسلام ويب فتوي:18134
اعانة الطالبين: ٤١٤/٢
تحفة المحتاج:٦٣١/٤
النجم الوهاج:٣٥٣/٣
منگل _24 _ستمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1276
جمع بین الصلاتین کرنے والا شخص (ظہر،عصر یا مغرب،عشاء) کی اگلی اور پچھلی سنتوں کو کس طرح ادا کرے گا؟
اگر کوئی شخص جمع بین الصلاتین تقدیم یا تاخیر پڑھ رہا ہو یعنی ظہر و عصر یا مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھ رہا ہو تو دونوں صورتوں میں ان نمازوں کی اگلی اور پچھلی سنت نمازوں کو دونوں فرض نماز پڑھنے کے بعدادا کرے
الفقه عبد الله الحضرمي الشافعي فرماتے ہیں: مَنْ جَمَعَ تقديماً صلَّى راتبة الأولى السابقة، ثم الفرضين، ثم راتبة الأولى المتأخرة، وراتبتي الثانية؛ أو تأخيراً فكذلك، وإن شاء قدم راتبة المتأخرة السابقة قبل الفرضين، وله في كل حال تأخير كل الرواتب، وحيثُ جَازَتَا فتقديم راتبة الأولى أولى.
(قلائد الخرائد و فرائد الفوائد: ١٥٨/١)
امام نووی فرماتے ہیں: وفي جمع العشاء والمغرب، يصلي الفريضتين، ثم سنة المغرب، ثم سنة العشاء، ثم الوتر.
رؤضة الطالبين:٤٠٢/١
المهمات: ٣٦٧/٣
العزيز شرح الوجيز:٢٤٧/٢
النجم الوهاج: ٤٤٢/٢
مغني المحتاج:٨٨/٢
جمعرات _10 _اکتوبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1278
صلاۃ التسبیح کے لیے کوئی خاص دن یا وقت متعین کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
تسبیح کی نماز کے لیے کوئی وقت یا دن متعین نہیں ہے، بلکہ مکروہ اوقات کے علاوہ رات یا دن کے کسی بھی حصہ میں پڑھ سکتے ہیں، ممکن ہوسکے تو روزانہ یا ہر جمعہ، یا مہینے میں ایک مرتبہ،یا سال میں ایک مرتبہ، یا کم سے کم زندگی میں ایک مرتبہ پڑھنا مستحب ہے۔
امام رملی رح فرماتے ہیں: وصلاة التسبيح كل وقت وإلا فيوم وليلة أو أحدهما وإلا فأسبوع وإلا فشهر وإلا فسنة وإلا فالعمر و حدیثھا حسن لکثرۃ طرقه.
(تحفة المحتاج :٢٦٩/١)
المجموع: ٦٢/٥
النجم الوهاج : ٣.٦/٢
حشيتا القليوبي وعميرة: ٥٥٩/١
المعتمد ٣٨٢/١
جمعرات _24 _اکتوبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1279
مساجد میں لگے پینے کے لئے واٹر فلٹر اور کولر (Water Filter & Cooler) کے پانی کو مسجد سے باہر لے جانے کا کیا مسئلہ ہے؟
مساجد میں لگے ہوئے پینے کے پانی کے فلٹر اور کولر (Water Filter & Cooler) سے پانی کو مسجد سے باہر مسجد کمیٹی سے اجازت کے بغیر لے جانا درست نہیں ہے کیونکہ یہ وقف کے حکم میں ہےاور وقف کی ہوئی چیز کا استعمال مسجد کمیٹی کی اجازت سے ہو تو درست ہے۔ نیز اجازت کے سلسلہ میں وہاں کے عرف و عادت کا بھی اعتبار ہوگا کہ اگر پانی کے لے جانے پر کوئی روک ٹوک اور ممانعت نہ ہو تو اجازت کے بغیر بھی پانی لے جانا درست ہے
*فَلَوْ كَانَ مَوْقُوفًا عَلَى جِهَةٍ عَامَّةٍ اُعْتُبِرَ إذْنُ النَّاظِرِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَالْحَاكِمُ وَالْعَبْدُ الْمُوصَى بِمَنْفَعَتِهِ
( أسنى المطالب:١/٥٢٦)
إنْ مَلَكَ الْمُوصَى لَهُ أَتَمَّ مِنْ مِلْكِ الْمَوْقُوفِ عَلَيْهِ بِدَلِيلِ أَنَّ لَهُ الْإِجَارَةَ وَالْإِعَارَةَ مِنْ غَيْرِ إذْنِ مَالِكِ الرَّقَبَةِ وَتُورَثُ عَنْهُ الْمَنَافِعُ بِخِلَافِ الْمَوْقُوفِ عَلَيْهِ لَا بُدَّ مِنْ إذْنِ النَّاظِرِ وَلَا تُورَثَ عَنْهُ الْمَنَافِعُ
(نهاية المحتاج:٥/٣٩٢)
الإِْذْنُ ضَرْبَانِ: أَحَدُهُمَا: الإِْذْنُ الصَّرِيحُ فِي النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ، وَالثَّانِي: الإِْذْنُ الْمَفْهُومُ مِنَ اطِّرَادِ الْعُرْفِ وَالْعَادَةِ، كَإِعْطَاءِ السَّائِل كَعُمْرَةٍ وَنَحْوِهَا مِمَّا جَرَتْ الْعَادَةُ بِهِ، وَاطَّرَدَ الْعُرْفُ فِيهِ، وَعُلِمَ بِالْعُرْفِ رِضَا الزَّوْجِ وَالْمَالِكِ بِهِ، فَإِذْنُهُ فِي ذَلِكَ حَاصِلٌ وَإِنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ
شرح المسلم للنووي:٧/١١٢
حاشية الجمل: ٣/٥٨٨
حاشية البجيرمي: ٣/٢١١
تحفة المحتاج:٦/٢٧٩
جمعہ _25 _اکتوبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1280
اگر کسی عورت کی بچہ دانی کسی وجہ سے دائمی طور پر نکالی گئی ہو اور ایسی عورت کو عادت کے مطابق متعینہ اوقات میں خون نظر آئے تو اس خون کا کیا حکم ہوگا؟
حیض کا خون پیدا ہونے اور نکلنے کی جگہ عورت کی بچہ دانی ہوتی ہے۔ جب عورت کی بچہ دانی نکال لی گئی ہو تو اب شرمگاہ سے نکلنے والا خون حیض کے حکم میں نہیں ہوگا بلکہ پیشاب کی طرح ناپاک خون مانا جائے گا اور اس خون کے نکلنے سے غسل بھی واجب نہیں ہوگا۔ البتہ وضو ٹوٹ جائے گا اور ایسی عورت نماز روزہ بھی نہیں چھوڑے گی بلکہ نماز کے اوقات میں بدن اور کپڑوں کی پاکی کا خیال رکھتے ہوئے صفائی کے بعد شرمگاہ پر پٹی یا کپڑا رکھ کر فورا نماز ادا کریگی ـ اگر خون مسلسل جاری ہو تو سلس البول یا مستحاضہ عورت کی طرح فرض نماز کا وقت داخل ہوجانے کے بعد ایک وضو سے ایک فرض اور کئی سنتیں ادا کرے گی
ﻗﺎﻝ اﻟﻤﺎﻭﺭﺩﻱ: اﻋﻠﻢ ﺃﻥ اﻟﺤﻴﺾ ﻫﻮ ﻣﺎ ﻳﺮﺧﻴﻪ اﻟﺮﺣﻢ ﻣﻦ اﻟﺪﻡ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻋﻠﻰ ﻭﺻﻒ
(الحاوي الكبير:١ / ٣٧٨)
ﻭاﻟﻔﺮﻕ ﺑﻴﻦ ﺩﻡ اﻟﺤﻴﺾ ﻭﺩﻡ اﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ ﻣﻊ اﻓﺘﺮاﻗﻬﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﺼﻔﺔ: ﺃﻥ ﺩﻡ اﻟﺤﻴﺾ ﻳﺨﺮﺝ ﻣﻦ ﻗﻌﺮ اﻟﺮﺣﻢ ﻭﺩﻡ اﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ ﻳﺴﻴﻞ ﻣﻦ اﻟﻌﺎﺩﻝ: ﻭﻫﻮ ﻋﺮﻕ ﻳﺴﻴﻞ ﺩمه ﻓﻲ ﺃﺩﻧﻰ اﻟﺮﺣﻢ ﺩﻭﻥ ﻗﻌﺮﻩ ﺣﻜﺎﻩ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻭﻗﺪ ﻗﺎﻝ اﻟﻨﺒﻲ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﻟﻔﺎﻃﻤﺔ ﺑﻨﺖ ﺃﺑﻲ ﺣﺒﻴﺶ ﻓﻲ ﺩﻡ اﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻋﺮﻕ.
(الحاوي الكبير:١ /٣٨٩ )
ﻭﺳﻠﺲ اﻟﺒﻮﻝ ﻭﺳﻠﺲ اﻟﻤﺬﻱ ﺣﻜﻤﻬﻤﺎ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺴﺘﺤﺎﺿﺔ ﻓﻴﻤﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎﻩ ﻭﻣﻦ ﺑﻪ ﻧﺎﺻﻮﺭ ﺃﻭ ﺟﺮﺡ ﻳﺠﺮﻱ ﻣﻨﻪ اﻟﺪﻡ ﺣﻜﻤﻬﻤﺎ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺴﺘﺤﺎﺿﺔ ﻓﻲ ﻏﺴﻞ اﻟﻨﺠﺎﺳﺔ ﻋﻨﺪ ﻛﻞ ﻓﺮﻳﻀﺔ ﻷﻧﻬﺎ ﻧﺠﺎﺳﺔ ﻣﺘﺼﻠﺔ ﻟﻌﻠﺔ ﻓﻬﻮ ﻛﺎﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ.
(المهذب: ١ / ٩١)
ﻭﻳﺠﺐ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺴﺘﺤﺎﺿﺔ ﺃﻥ ﺗﻐﺴﻞ اﻟﺪﻡ ﻭﺗﻌﺼﺐ اﻟﻔﺮﺝ ﻭﺗﺴﺘﻮﺛﻖ ﺑﺎﻟﺸﺪ ﻭاﻟﺘﻠﺠﻢ ﻟﻤﺎ ﺭﻭﻱ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ ﻟﺤﻤﻨﺔ ﺑﻨﺖ ﺟﺤﺶ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ "ﺃﻧﻌﺖ ﻟﻚ اﻟﻜﺮﺳﻒ” ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﺇﻧﻪ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﻓﻘﺎﻝ: "ﺗﻠﺠﻤﻲ” ﻓﺈﻥ اﺳﺘﻮﺛﻘﺖ ﺛﻢ ﺧﺮﺝ اﻟﺪﻡ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺗﻔﺮﻳﻂ ﻓﻲ اﻟﺸﺪ ﻟﻢ ﺗﺒﻄﻞ ﺻﻼﺗﻬﺎ ﻟﻤﺎ ﺭﻭﺕ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ ﺃﻥ ﻓﺎﻃﻤﺔ ﺑﻨﺖ ﺃﺑﻲ ﺣﺒﻴﺶ اﺳﺘﺤﻴﻀﺖ ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: "ﺗﺪﻉ اﻟﺼﻼﺓ ﺃﻳﺎﻡ ﺃﻗﺮاﺋﻬﺎ ﺛﻢ ﺗﻐﺘﺴﻞ ﻭﺗﺘﻮﺿﺄ ﻟﻜﻞ ﺻﻼﺓ” ﻭﺗﺼﻠﻲ ﺣﺘﻰ ﻳﺠﻲء ﺫﻟﻚ اﻟﻮﻗﺖ ﻭﺇﻥ ﻗﻄﺮ اﻟﺪﻡ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺼﻴﺮ ﻭﻻ ﺗﺼﻠﻲ ﺑﻄﻬﺎﺭﺓ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﻓﺮﻳﻀﺔ ﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﺎﻃﻤﺔ ﺑﻨﺖ ﺃﺑﻲ ﺣﺒﻴﺶ ﻭﻳﺠﻮﺯ ﺃﻥ ﺗﺼﻠﻲ ﻣﺎ ﺷﺎءﺕ ﻣﻦ اﻟﻨﻮاﻓﻞ ﻷﻥ اﻟﻨﻮاﻓﻞ ﺗﻜﺜﺮ ﻓﻠﻮ ﺃﻟﺰﻣﻨﺎﻫﺎ ﺃﻥ ﺗﺘﻮﺿﺄ ﻟﻜﻞ ﻧﺎﻓﻠﺔ ﺷﻖ ﻋﻠﻴﻬﺎ
(المهذب:١/ ٩٠)
ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻨﺎﺩﺭ ﻓﻬﻮ:ﻛﺎﻟﺤﺼﻰ ﻭاﻟﺪﻭﺩ، ﻭﺳﻠﺲ اﻟﺒﻮﻝ، ﻭﺩﻡ اﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ، ﻭﻫﻮ ﻳﻨﻘﺾ اﻟﻮﺿﻮء ﻋﻨﺪﻧﺎ
(البيان: ١ / ١٧٢)
بدھ _30 _اکتوبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1281
غسل کرتے وقت ناک اور کان کے زیور پہننے والے سوراخ میں پانی پہنچانے کا کیا مسئلہ ہے؟
عورت کے کانوں کے سوراخ اگر کھلے ہوں تو غسل کرتے وقت ان سوراخوں میں پانی کا پہنچانا واجب ہوگا۔ اگر استعمال نہ ہونے کی وجہ سے عورت کے کانوں کا سراخ بند ہوچکا ہوتو غسل کرتے وقت کانوں کے سراخ میں پانی کا پہنچانا ضروری نہیں۔
قال الامام ملباری رحمہ اللہ:لو دخلت شوكة في رجله وظهر بعضها وجب قلعها وغسل محلها لأنه صار في حكم الطاهر فإن استترت كلها صارت في حكم الباطن فيصح وضوؤه ولو تنفط في رجل أو غيره لم يجب غسل باطنه ما لم يتشقق فإن تشقق وجب غسل باطنه ما لم يرتتق
فتح المعين/49
قال الامام بجيريمي رحمه الله: لَوْ دَخَلَتْ شَوْكَةٌ فِي أُصْبُعِهِ مَثَلًا وَصَارَ رَأْسُهَا ظَاهِرًا غَيْرَ مَسْتُورٍ فَإِنْ كَانَتْ بِحَيْثُ لَوْ قُلِعَتْ بَقِيَ مَوْضِعُهَا مُجَوَّفًا وَجَبَ قَلْعُهَا وَلَا يَصِحُّ غَسْلُ الْيَدَيْنِ أَوْ الرِّجْلَيْنِ مَعَ بَقَائِهَا وَإِنْ كَانَتْ بِحَيْثُ لَوْ قُلِعَتْ لَا يَبْقَى مَوْضِعُهَا مُجَوَّفًا
حاشيه البجيريمي:1/ 71
قال مصنف الموسوعه الفقهيه الكويتيه: وَلاَ يَجِبُ غَسْل مَا فِيهِ حَرَجٌ كَعَيْنٍ وَثَقْبٍ انْضَمَّ بَعْدَ نَزْعِ الْقُرْطِ وَصَارَ بِحَالٍ إِنْ أُمِرَّ عَلَيْهِ الْمَاءُ يَدْخُلْهُ، وَإِنْ غُفِل لاَ، فَلاَ بُدَّ مِنْ إِمْرَارِهِ، وَلاَ يَتَكَلَّفُ لِغَيْرِ الإِْمْرَارِ مِنْ إِدْخَال عُودٍ وَنَحْوِهِ، فَإِنَّ الْحَرَجَ مَرْفُوعٌ
موسوعه الفقهيه الكويتيه:31/ 208
اعانه الطالبين:1/ 53
نهايه المحتاج:1/ 173
حاشيه الجمل:1/ 113