جمعہ _29 _نومبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1282
غیر مسلم کے حق میں تجارت میں ترقی و برکت اور ان کے حق میں ہدایت کی دعا کرنے کا کیا حکم ہے؟
کافر و مشرک کے حق میں صحت و تجارت ترقی و برکت کی دعا کرنا اس وقت جائز ہے جب کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا دشمن نہ ہو یا اس سے اسلامی احکامات پر عمل کرنے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا نقصان نہ ہو تو غیر مسلم کے حق میں تجارت میں برکت و ترقی کی دعا دینا جائز ہے اور ہدایت کی دعا ہر ایک کے حق میں ہر وقت کرنا جائز ہے۔
امام رملي رحمة الله عليه فرماتے ہیں:وَيَجُوزُ الدُّعَاءُ لِلْكَافِرِ بِنَحْوِ صِحَّةِ الْبَدَنِ وَالْهِدَايَةِ
(نهايه المحتاج:1/ 533)
حاشيه الجمل:1/ 389
بدھ _11 _دسمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1283
کسی ایسے شخص کے حق میں جو مسلمان نہ ہو کیا اس کے لیے صحت و برکت یا ہدایت کی دعا کرنے کا کیا حکم ہے؟
ایسے کسی شخص کے لیے جو مسلمان نہ ہو یا اس شخص کا اسلام و مسلمان سے دشمنی بھی ظاہر نہ ہو تو اسلامی تعلیم کے مطابق حسن سلوک کا تقاضہ یہ ہے اس کی صحت و اس کے مال میں برکت کی دعا کرسکتے ہیں اسی طرح کسی بھی کافر کے حق میں اس کی زندگی میں ہدایت کی دعا کی جاسکتی ہے
امام رملي رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وَيَجُوزُ الدُّعَاءُ لِلْكَافِرِ بِنَحْوِ صِحَّةِ الْبَدَنِ وَالْهِدَايَةِ
(نهايه المحتاج:1/ 533)
اتوار _15 _دسمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1284
اقامت کہنے والا امام کے پیچھے کھڑے ہوکر ہی اقامت کہنا ضروری ہے یا کسی بھی جگہ سے اقامت کہہ سکتا ہے؟
امام کے پیچھے ہی کھڑا ہوکر اقامت کہنا درست ہے لیکن ضروری نہیں ہے. بلکہ مستحب یہ ہے کہ اذان دی ہوئی جگہ کے علاوہ کسی بھی جگہ سے اقامت کہہ سکتے ہیں
قال الإمام العمراني: وإذا أراد المؤذن الإقامة. فالمستحب له: أن يتحول من موضع الأذان إلى غيره.
(البيان ٨٥/٢) قال الإمام البغوي: ويستحب أن يتحول عن موضع الأذان إلى غيره للإقامة. (التهذيب٤٠/٢)
المجموع ١٤٤/٤ بحر المذهب ٥٤/٢
المنهاج القويم _ ٨٥
اتوار _22 _دسمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1285
طواف اور سعی کرنے کے دوران ٹھکاوٹ کی وجہ سے رکنے یا آرام کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
اگر کوئی شخص طواف یا سعی کے دوران تھک جائے یا بیمار ہوجائے اور آرام یا تھکن دور کرنے کی غرض سے طواف اور سعی کے چکر کو پورا کرنے سے پہلے رکنا چاہے تو رک بھی سکتا ہے اور کچھ دیر آرام کرنے کے لیے بیٹھ بھی سکتا ہے۔ البتہ بقیہ چکر اسی جگہ سے شروع کرے گا جہاں پر وہ رکاتھا چاہے وقفہ طویل ہوجائے۔
يستحب موالات الطواف فيتابع بين الاشواط ولا يفرق بين الطوافات السبع فلو فرق تفريقا كثيرا بلا عذر لا يبطل طوافه…. ولو اقيمت الصلاة المكتوبة وهو في الطواف*او عرضت له حاجه لابد منها وهو في اثناء الطواف قطعه فاذا فرغ بنى على ما سبق سواء طال الفصل او قصر.
(المعتمد:٢/٣٥٣)
(فَلَوْ أَحْدَثَ فِيهِ تَوَضَّأَ وَبَنَى وَفِي قَوْلٍ اسْتَأْنَفَ).(وَبَنَى) إلَّا الْمُغْمَى عَلَيْهِ وَالْمَجْنُونَ فَيَسْتَأْنِفَانِ مُطْلَقًا (فَلَوْ أَحْدَثَ إلَخْ) نَقَلَ فِي الْكِفَايَةِ عَنْ النَّصِّ أَنَّهُ لَوْ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، وَجَبَ الِاسْتِئْنَافُ وَالْوُضُوءُ وَعَلَّلَهُ بِزَوَالِ التَّكْلِيفِ بِخِلَافِ الْمُحْدِثِ بِغَيْرِهِ.
حاشيتا القليوبي وعميرة :٢/٤٧٨
قال الامام النووي:حَيْثُ قَطَعَ الطَّوَافَ فِي أَثْنَائِهِ بِحَدَثٍ أَوْ غَيْرِهِ وَقُلْنَا يَبْنِي عَلَى الْمَاضِي فَظَاهِرُ عِبَارَةِ جُمْهُورِ الْأَصْحَابِ أَنَّهُ يَبْنِي مِنْ الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَ وَصَلَ إلَيْهِ.وَاحْتَجَّ الْمَاوَرْدِيُّ فِي الْبِنَاءِ عَلَى قُرْبٍ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ عَلَى أَنَّ الْقُعُودَ الْيَسِيرَ فِي أَثْنَاءِ الطَّوَافِ لِلِاسْتِرَاحَةِ لَا يَضُرُّ.
المجموع:٨/٤٩,٤٨
تحفة مع الحواشي:٥/١٣٠
البيان ٤/٢٨٤
پیر _23 _دسمبر _2024AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1286
مسجد کے باہری حصہ میں سخت بدبو ہو تو ایسی بدبودار جگہ پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
مسجد کے باہر جگہ اگر صاف ہو تو نماز پڑھنا درست ہے.جب کہ گذرنے والوں کو تکلیف نہ ہو ہاں اگر باہر مسجد سے متصل جگہ پر سخت بدبو ہو تو ایسی بدبو دار جگہ پر نماز پڑھنا مکروہ ہے جس سے نماز کے خشوع و خضوع میں خلل ہوتا ہے لیکن اگر نماز پڑھنے کی جگہ پر نجاست ہو یا کپڑا یا بدن نجس ہو تو نماز فاسد ہوگی۔
أما قارعة الطريق، فالنهي عن الصلاة فيها لمعنيين:أحدهما: أنها لا تنفك عن النجاسات غالبًا، لأنها ممر الدواب والبهائم، والثاني: أن المارة تكثر فيها، فلا يكمل الخشوع ويتعلق قلبه بما يتوهمه من المارة بين يديه، فلو بسط فيها ثوبًا طاهرًا، فالكراهية باقية، وإن ارتفع معنى النجاسة، لأن المعنى الثاني يمنع الخشوع في الصلاة، ويوجب اشتغال القلب، وهو قبل بسط الثوب الطاهر عليها موجود بعده، وتنعقد الصلاة. ولو صلى فيها في جوف الليل، فمكروه، لأنه لا يأمن مرور المارة بين يديه بالليل كهو بالنهار.
(التعليقه٢/ ٩٤٩)
المهمات ٣/ ١٥١
التهذيب٢/ ٢٠٥
العزيز ٢/ ١٨
منگل _7 _جنوری _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1287
اگر کوئی شخص اپنے والدین یا کسی رشتہ دار کے ایصال ثواب کے لیے کوئی چیز بنائے مثلاً راستے میں واٹر کولر (Water Cooler) یا مسجد میں اوقات نماز بورڈ (Prayer Time Table) لگائے تو کیا اس پر ان کے نام کی تختی لگانے کا کیا مسئلہ ہے؟
مرحومین کے ایصالِ ثواب کیلئے دی ہوئی چیزوں پر ان کے نام کی تختی لگانے میں کوئی حرج نہیں البتہ جب دکھاوے اور نام و نمود کا اندیشہ ہو تو نہ لگانا بہتر ہے اگر یہ نیت ہو کہ یہاں سے پانی پینے والے لوگ مرحومین کے حق میں دعا کرینگے تو اس نیت کے ساتھ نام کی تختی لگانا درست ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”وَلَا بَأْسَ أَنْ يُقَالَ مَسْجِدُ فُلَانٍ وَمَسْجِدُ بَنِي فُلَانٍ عَلَى سَبِيلِ التَّعْرِيفِ“
(المجموع :٢ / ٢٠٧)
محمد زحیلی فرماتے ہیں:أن دفع صدقة التطوع في السر أفضل منها في العلن ،لقوله عز و جل….
(المعتمد: ٢ / ١٤٢)
امام سیوطی فرماتے ہیں القاعدة:الأصل في الأشياء الاباحة حتى يدل الدليل على التحريم
(الأشباه و النظائر: ١٠٣)
ہفتہ _11 _جنوری _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1288
میت کی نماز جس طرح فرض کفایہ ہے اسی طرح میت کو کندھا دینا اور تدفین کے عمل میں شریک ہونا بھی فرض کفایہ ہے
أمام نووی فرماتے ہیں: قال الشافعي والاصحاب: حمل الجنازة فرض كفاية، ولا خلاف فيه“.
المجموع: ٦ / ٢٦٩
الموسوعة الفقهية الكويتية: ١٦ / ١١
المهذب: ١ / ٢٥١
نهاية المطلب في دراية المذهب: ٣ / ٤٢
جمعرات _16 _جنوری _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1289
شادی کی غرض سے لڑکی کو دیکھنے کا کیا مسئلہ ہے؟ اور شرعا اس کی کیا حد مقرر ہے؟
کسی بھی اجنبی عورت کو دیکھنا حرام ہے، نکاح سے پہلے منگیتر کو دیکھنا بھی حرام ہے، اس لیے کہ نکاح سے پہلے منگیتر بھی اجنبی عورت کے حکم میں ہوتی ہے، البتہ نکاح کی غرض سے منگنی کے وقت چہرہ اور ہتھیلیوں کو دیکھنا جائز ہے۔ بال یا سر وغیرہ کو دیکھنا جائز نہیں۔
شیخ عز الدین بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: من رغب في نكاح امرأة فله النظر إلى وجهها وكفَّيها وإن خاف الفتنة، واستحبَّه الأكثرون، ولا يقف على إذنها، بل له أن يسرقها النظر، ولا يجوز إلى غير الوجه والكفِّ اتِّفاقًا.
(الغاية في اختصار النهاية:٨٨/٥)
اصحاب الفقه المنهجي فرماتے ہیں: ومن الأمور المستحبّة التي رغّب فيها الإسلام أن ينظر الخاطب إلى المخطوبة قبل الخطبة، إذا قصد نكاحها… وله تكرير النظر ثانيًا وثالثًا إن احتاج إليه، ليتبين هيئتها، فلا يندم بعد النكاح، إذ لا يحصل الغرض غالبًا بأول نظرة.
(الفقه المنهجي: ٤٦/٤)
علامہ رملی فرماتے ہیں: هَلْ يَجُوزُ تَكْرِيرُ نَظَرِ الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ إلَى الْمَخْطُوبَةِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ؟(فَأَجَابَ) بِأَنَّهُ لَا يَجُوزُ.
(فتاویٰ الرملی:١٨٢/٣)
نهاية المطلب في دراية المذهب: ٣٧/١٢
النجم الوهاج: ١٩/٧
حاشية الجمل: ١٩٩/٤
پیر _20 _جنوری _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1290
والدین کا کنواری لڑکی کی رائے اور اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے رشتہ طے کرنے کیا مسئلہ ہے؟
کسی لڑکی یا لڑکے کو والدین کا زبردستی نکاح پر مجبور کرنا اسلامی تعلیمات کے عدل و شفقت کے اصولوں کے خلاف ہے البتہ صرف والد یا اس کی عدم موجودگی میں دادا کو یہ اجازت ہے کہ کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر كفو يعنى دين حسب ونسب اور مال کے اعتبار سے اس کے جیسا شخص سے کرے لیکن ان کے لئے بھی مستحب یہی ہے کہ اس سے اجازت لی جائے۔ اگر باپ یا دادا اس کا نکاح غیر مناسب شخص (غیر کفؤ) سے کرتا ہے تو یہ نکاح باطل ہوگا
فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وبن ابي ليلى وأحمد واسحق وَغَيْرُهُمُ الِاسْتِئْذَانُ فِي الْبِكْرِ مَأْمُورٌ بِهِ فَإِنْ كَانَ الْوَلِيُّ أَبًا أَوْ جَدًّا كَانَ الِاسْتِئْذَانُ مَنْدُوبًا إِلَيْهِ.
(شرح النووي على مسلم ٩/٢٠٤)
ويجوز للاب والجد تزويج البكر من غير رضاها صغيرة كانت أو كبيرة: لما روى ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قال (الثيب أحق بنفسها من وليها والبكر يستأمرها أبوها في نفسها) فدل على أن الولى أحق بالبكر وإن كانت بالغة فالمستحب أن يستأذنها.
(المجموع شرح المهذب. تكملة المطيعي الأولى ١٦/١٦٥)
تَزْوِيجُ الْأَبِ الْبِكْرَ الصَّغِيرَةَ بِغَيْرِ كُفْءٍ بَاطِلٌ وَإِنْ رَضِيَتْ إذْ لَا عِبْرَة.
(الفتاوى الفقهية الكبرى ٤/٩٣)
البيان في مذهب الإمام الشافعي ٩/١٨١
حلية العلماء في معرفة مذاهب الفقهاء :٦/٣٣٦
پیر _3 _فروری _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1291
کیا بہو اپنے سسر کے ساتھ سفر پر اکیلی جاسکتی ہے؟
عورت کے لیے اس کا سسر محرم ہے، لھذا بہو کے لیے اپنے سسر کے ساتھ اگر فتنہ کے اندیشہ نہ ہو تو اکیلی ضرورتا سفر کرسکتی ہے۔
امام بجیرمی فرماتے رح ہیں: تَحْرُمُ (زَوْجَةُ الِابْنِ) وَهُوَ مَنْ وَلَدْته بِوَاسِطَةٍ أَوْ غَيْرِهَا وَإِنْ لَمْ يَدْخُلْ وَلَدُك بِهَا، لِإِطْلَاقِ قَوْله تَعَالَى: ﴿وَحَلائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ﴾
حاشية البجيرمي: ٤٢٤/٣
رؤضة الطالبين:١١١/٧
نهاية المطلب:٢٢٣/١٢
شرح مشكل الوسيط: ٥٩٧/٣
الوسيط في المذهب: ١٠٦/٥