پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0341
سوال: اگر کسی دوا میں الکحل ہو تو اس کا استعمال کرنا کیسا ہے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے اس چیز میں تمہاری شفایابی نہیں رکھی ہے جس کو اس نے تم پر حرام قرار دیا ہے”
الکحل نشہ آور چیز ہے جس کا استعمال جائز نہیں ہے، البتہ فقہاء کرام نے قرآن مجيد كي ایت فمن اضطر غیر باغ ولا عاد … اور فقہی متفقہ قاعدہ الضرورات تبیح المحظورات.کہ حالت مجبوری میں حرام چیزمباح ہوجاتی ہے. کے تحت یہ بات کہی ہے کہ ایسی دواء جس میں الکحل یا اس جیسی نجس یا نشہ آور چیز کی ملاوٹ ہو تو اس کا استعمال اس وقت جائز ہوگا جبکہ اس کے علاوہ مؤثر دوا نہ ہو تو ایسی صورت میں بقدر ضرورت استعمال جایز ہے.ورنہ اس طرح کی دواکا استعمال حرام ہوگا.
للمريض المسلم تناول الأدوية المشتملة على نسبة من الكحول إذا لم يتيسر دواء خال منها ووصف ذلك الدواء طبيب ثقة أمين في مهنته (١)
_____________(١) موسوعة الفقه الإسلامى (٤٩٧/٩)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0342
اگر امام صرف ایک مقتدی کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردے یہا ں تک کہ کوئی دوسرا مقتدی آجائے تو اس دوسرے مقتدی کے لئے امام کے ساتھ والے مقتدی کو اپنے ساتھ پیچھے لانے کی کیا کیفیت ہے ؟
جواب: حضرت مقاتل بن حیان رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص پیچھے سے آے اورصف میں جگہ نہ پاے تووہ اپنے ساتھ صف میں سے کسی کوکھینچ لے،اورجس کوکھینچا جارہا ہے اس کوبہت زیادہ اجرہے(بيهقي 5212 )اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ جس کوکھینچا جارہا ہے وہ پیچھے آجاے،اوراس کی کیفیت یہ نقل کی کہ پچھلاشخص رکعت باندھ کراگلی صف کے آدمی کوہاتھ کے ذریعہ پیچھے لے آے.اس اعتبار سے اگر کوئ شخص امام اور مقتدی کی نماز شروع ہونے کے بعد آجائے تو اس دوسرے مقتدی کو چاہئے کہ پیچھے کھڑے رہ کرپہلے تکبیرہ تحریمہ کہہ کر امام کے ساتھ کھڑے مقتدی کو ہاتھ لگائے تاکہ اسے اس کا نماز میں داخل ہونا معلوم ہو.اوروہ پیچھے آکراس کے ساتھ کھڑا ہوجاے،البتہ اگرامام کے آگے کی طرف جگہ ہوتوخود امام بھی آگے بڑھ سکتا ہے تاکہ پیچھے سے آنے والامقتدی پہلے مقتدی کے ساتھ کھڑا ہوسکے.
قال الإمام قاضي ابن شهبة:
ويكره وقوف المأمومِ فردًا) للنهي عنه (٣)، (بل يدخل الصفَّ إن وجد سعةً) ولو كانت السعة في صف متقدم .. خرق الكاملَ؛ لتقصيرهم، (وإلّا) أي: وإن لم يجد سعة (.. فليَجُرَّ شخصًا بعد الإحرام، وليساعده المجرور) لأن في ذلك إعانةً على الخير؛ لتحصل له فضيلةُ الصف، وليخرج من الخلاف.
[بداية المحتاج (٣٤١/١)]
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0343
بہت سے لوگوں کی زبان سے لفظ واللہ و اللہ بات بات پر نکلتا ہے.تو کیا شرعا ان کی ہر بات کو حلفیہ مانا جاۓگا یا اس کو عادت شمار کرکےشرعی قسم نہیں مانی جاۓگی؟
جواب: اللہ تعالی کا فرمان: لا يؤاخذكم الله باللغو فى أيمانكم (البقرة ٢٢٥)
علامہ ابن کثیر اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی لغو قسم کے صادر ہونے پر تمہاری نہ کوئ پکڑ کرےگا نہ تم پر کوئ چیز لازم ہوگی. اور لغو قسم سے مراد ایسی قسم جو بغیرقصد و اعتقاد اور بغیر تاکید کے اسکی زبان پر عادت کی وجہ سے جاری ہوجاے(تفسیر ابن کثیر:1/239)
اس آیت کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ بہت سے وہ لوگ جوبات بات پرلفظ واللہ کہتے ہیں اگریہ ان کی عادت بن گی ہے تو ان کی ہر بات کو شر عا قسم نہیں مانا جا ۓگا.البتہ اگرق قسم کاقصد موجود ہوتوقسم شمار ہوگی.
قال الإمام العمراني رحمه الله:
لغو اليمين): فلا ينعقد، وهو: الذي يسبق لسانه إلى الحلف بالله من غير أن يقصد اليمين، أو قصد أن يحلف بالله: لا أفعل كذا، فسبق لسانه وحلف بالله: ليفعلنه، وسواء في ذلك الماضي والمستقبل.(١)
_____________(١)البيان (٤٣٢/١٠)
(٢) مغني المحتاج (٢٢٥/٦)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0344
بائیک اور موٹر چلاتے وقت سلام کرنے وال دور ہو تو صرف اشارے سے سلام کا جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
بولنے پر قادر شخص کے لیے صرف ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی دور ہو یعنی فاصلہ اتنا ہو کہ سلام کرنے والے کی آواز نہ سن سکتا ہو تو پھر سلام کرتے وقت زبان اور اشارہ دونوں کے ساتھ سلام کرنا ضروری ہے.
الانحناء بالرأس مكروه، والسلام بالِإشارة من غير نطق مكروه في حق الناطق، مستحب في حق الأخرس، فإن كان الذي يسلم عليه بعيدًا جمع بين اللفظ والِإشارة. فتاوى النووي: ١٣٢
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0345
بعض لوگ موذی چیونٹی کو ختم کر نے کے لۓآگ کا استعمال کرتےہیں اور ان کا کہنا یہ ہوتا ہیکہ دوا سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے؟
جواب: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبیوں میں سے کسی نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انھوں نے سارے چیونٹیوں کو جلانے کا حکم دیاتو اللہ رب العزت نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ آپ کو ایک چیونٹی نے کاٹا تو آپ نے تمام تسبیح کرنے والی چیونٹیوں کو ہلاک کر دیا(صحیح مسلم ٢٢٤١)
امام نووی اس حدیث کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کہ "واما فى شرعنا فلا يجوز الاحراق بالنار للحيوان… واما قتل النمل فمذهبنا انه لا يجوز واحتج اصحابنا فيه بحديث ابن عباس (شرح مسلم ٤٩٩/٧)
ان تمام احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہیکہ موذی چیونٹیوں کو آگ سے جلانایاالیکٹرانک شاک سے مارنا جائز نہیں ہے.جیسا کہ مذکورہ کتابوں کی عبارتوں سے واضح ہوتا ہے..الا یہ کہ جلانے یا الکٹرک شاک کے علاوہ کوی چارہ ہی نہ ہو تب ضرورتا اسکا استعمال کر سکتے ہیں (عون المعبود ١١٩/١٤) (نهایة المحتاج٣٣٤/٣)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0346
آج کل بہت سے نوجوان اپنے ہاتھ میں چاندی کا یا لوہے کا کڑا پہنتے ہیں پوچہنے پر کہتے ہیں کہ یہ اسٹائل ہے لہذا مردوں کے لئے اس طرح کی کسی چیز کے استعمال کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں,اور ان عورتوں پر لعنت کی ہیں جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں(١)
📝اس روایت سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی مشابہت کرنا حرام ہے اور عورت کے مشابہت میں یہ بھی ہیکہ مرد اپنے ہاتھ میں کڑا پہنے چاہے چاندی کا ہو یا لوہے کا ہو یاچمڑےیاربڑ کاہو،یاکسی اورچیز کا ہو،اسکا مرد کے لۓ پہننا حرام ہے,البتہ چاندی اوردیگردھاتوں کی انگوٹھی پہننا مرد کے لۓ جائز ہے-
📕آج کل یہ چاندی یا لوہے کا کڑا پہننا غیرمسلموں کی علامات ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان ہی میں سے ہے. لہذا ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے.
📌📖وَأَمَّا الْفِضَّةُ فَيَجُوزُ لِلرَّجُلِ التَّخَتُّمُ بِهَا وَهَلْ لَهُ مَا سِوَى الْخَاتَمِ مِنْ حُلِيِّ الْفِضَّةِ كَالدُّمْلُجِ وَالسِّوَارِ وَالطَّوْقِ وَالتَّاجِ فِيهِ وَجْهَانِ قَطَعَ الْجُمْهُورُ بِالتَّحْرِيمِ وَقَالَ الْمُتَوَلِّي وَالْغَزَالِيُّ فِي فَتَاوِيه يَجُوزُ لِأَنَّهُ لَمْ يَثْبُتْ فِي الْفِضَّةِ إلَّا تَحْرِيمُ الْأَوَانِي وَتَحْرِيمُ الْحُلِيِّ عَلَى وَجْهٍ يَتَضَمَّنُ التَّشَبُّهَ بِالنِّسَاءِ . (٢)
📚📚المراجع📚📚
١. (صحیح بخاری ٥٨٨٥)
٢.(المجموع شرح المهذب،٦/٣٢)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0347
اگر کوئ طبیب جسم کی رگوں کی تکلیف کے نجات کے لۓکبوتر یا کسی اور پرندے یا جانور کے خون کو لگانا متعین کرے تو کیا بطور علاج اس تکلیف سے نجات کے لۓخون کا لگانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: حضرت ابوهريرة رض فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه و سلم نے خبيث اورناپاک چیزوں کے ذریعہ علاج سے منع فرمایا . (١)
📝اس حدیث سے پتہ چلا کہ نجس اشیاء سے علاج درست نہیں ہے.لہذاعام حالات سے ناپاک اشیاء سے علاج درست نہیں بلکہ بعض خاص صورتوں میں بطورمجبوری درست ہے.اس اعتبارسے
اگر کوئ طبیب جسم کی رگوں کی تکلیف کے نجات کے لۓکبوتر یا کسی اور پرندے یا جانور کے خون کو لگانا متعین کرے اور وہ طبیب مسلمان عادل ہو اور اس مریض کے لۓ اس کے علاوہ کوئ اور علاج نہ ہو یا خون کے زریعہ علاج کی وجہ سے مرض جلدی ٹھیک ہوتا ہوتو ان صورتوں میں ایسے مریض کے لۓکبوتر یا کسی اور جانور کا خون بطور علاج جسم کی رگوں میں لگانابدرجہ مجبوری جائز ہے .
📌📖إذا اُضْطُرَّ إلى شُرْبِ الدَّمِ أوْ البَوْلِ أوْ غَيْرِهِما مِن النَّجاساتِ المائِعَةِ غَيْرِ المُسْكِرِ جازَ لَهُ شُرْبُهُ بِلا خِلافٍ…………… وإنَّما يَجُوزُ ذَلِكَ إذا كانَ المُتَداوِي عارِفًا بِالطِّبِّ يَعْرِفُ أنَّهُ لا يَقُومُ غَيْرُ هَذا مَقامَهُ أوْ أخْبَرَهُ بِذَلِكَ طَبِيبٌ مُسْلِمٌ عَدْلٌ ويَكْفِي طَبِيبٌ واحِدٌ (٢)
📚📚المراجع📚📚
١.(سنن ابى داؤد ٣٨٧٠)
٢.(المجموع ٤٥,٤٦/٩)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0348
کیا زوال کے بعد اور اذان سے پہلے ظہر کی سنت پڑھ سکتے ہے؟
جواب:حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہرنماز کا ابتدائی اورانتہائی وقت ہے.اورظہر کی نماز کا وقت زوال شمس سے شروع ہوتا ہے.اورعصرکا وقت داخل ہوتے ہی ختم ہوتا ہے(١)
📝 اس حدیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ ظہرکی فرض نماز کا وقت زوال شمس سے شروع ہوتا ہے لہذا زوال شمس سے پہلے ظہر کی نماز ادا نہیں ہوگی.اسی طرح فرض نماز کے پہلے کی سنت کا وقت فرض نماز کے وقت سے شروع ہوتا ہے.لہذاظہرکی پہلی سنتوں کا وقت زوال شمس سے شروع ہوگا.چوں کہ اذان سنت ہے .اگر اذان نہ دئ جائے اور فرض پڑھے تو فرض پرھنا صحیح ہے اسی طرح سنت بھی صحیح ہوجائے گی.
📌📖ويدخل وقت هذه السنن – التي تفعل قبل الفرض – بدخول وقت الفرض، ويكون ذلك وقت الاختيار لها، فإذا فعل الفرض.. ذهب وقت الاختيار لها، وبقي وقت الجواز لها إلى خروج وقت الفرض.(٢)
📌📖(ويَدْخُلُ وقْتُ الرَّواتِبِ) اللّاتِي (قَبْلَ الفَرْضِ) بِدُخُولِ وقْتِ الفَرْضِ (و) يَدْخُلُ وقْتُ اللّاتِي (بَعْدَهُ بِفِعْلِهِ)(٣)
📚📚المراجع📚📚
١.(سنن ترمذی:١٥١)
٢.البيان ٢/٢٦
٣.نهاية المحتاج ٢/٧٧
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0349
اذان سے پہلے اوراذان کے بعد درود شریف پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب: حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مؤذن کوآذان دیتے ہوئے سنوتواس کاجواب دواورآخیر میں مجھ پردرود پڑھواس لئے کہ جس نے مجھ پرایک مرتبہ درود پڑھا اللہ تعالی اس پردس رحمتیں نازل فرماتے ہیں(١)
📝اس حدیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ اذان کے جواب کی طرح آہستہ اذان کے بعد درود پڑھنامسنون ہے.
📕لیکن اذان سے پہلے درود پڑھنے کا تذکرہ اکثرعلماء نے نہیں کیا ہے .البتہ بعض علماء نےاذان سے قبل آہستہ درود پڑھنے کا تذکرہ کیا ہے
📕لہذااذان کے بعد دعا اوردرود پڑھنا سب کے لئے مستحب ہے،اوراذان سے قبل مؤذن کے لئے آہستہ درود پڑھنے کی گنجائش ہے
📌📖يُسْتَحَبُّ لِلْمُؤَذِّنِ أنْ يَقُولَ بَعْدَ فَراغِ أذانِهِ هَذِهِ الأذْكارَ المَذْكُورَةَ مِن الصَّلاةَ عَلى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وسُؤالِ الوَسِيلَةِ(٢)
📌📖(و) سن (لكل) من مؤذن ومقيم وسامعهما (أن يصلي) ويسلم (على النبي) (ص) (بعد فراغهما)، أي بعد فراغ كل منهما إن طال فصل بينهما(٣)
📚📚المراجع📚📚
١.(مسلم :٨٤٩)
٢.المجموع ٣/ ١٢٤
٣.إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين، ١/٣٨٢
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0350
مسبوق کے لئے پہلی سلام کے بعد کھڑا ہونا ہے یا پھر امام کے دونوں سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہونا ہے؟
جواب: حضرت عتبان ابن مالک رض فرماتے ہیں کہ ہم نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی توجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیری تو ہم نے بھی سلام پھیری .(١)
📝اس حدیث سے پتہ چلا کہ امام کا پہلی سلام پھیرتے ہی مقتدی ومسبوق اس کی اقتداء سے نکل جاتے ہیں ،اورچوں کہ دوسری سلام سنت ہے ،اس اعتبار سے مسبوق امام کی پہلی سلام کے بعد ہی بقیہ رکعت کی ادائیگی کے لیے کھڑا ہوسکتا ہے،البتہ دوسری سلام کے مکمل ہونے کے بعد کھڑا ہونا مستحب ہے،اس لئے کہ حضرت انس رض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی متابعت کی جاے .(٢)
📕اورمتابعت کا تقاضہ یہ ہے کہ امام کی دوسری سلام کے بعدکھڑاہونا سنت ہے تاکہ امام کی مکمل متابعت ہو جائے.اس لئے کہ دوسری سلام بھی نماز کا حصہ ہے.
📌📖والسُّنَّةُ لِلْمَسْبُوقِ أنْ يَقُومَ بَعْدَ تَسْلِيمَتَيْ الإمامِ لِأنَّ الثّانِيَةَ مَحْسُوبَةٌ مِن الصَّلاةِ هَكَذا صَرَّحَ بِهِ القاضِي حُسَيْن والمُتَوَلِّي والبَغَوِيُّ وآخَرُونَ ويَجُوزُ أنْ يَقُومَ بَعْدَ تَمامِ الأُولى . (٣)
📚📚المراجع📚📚
١.(بخاری ٨٣٨)
٢.(بخاری ٣٧٨)
٣.المجموع ٤/١٩٠