فقہ شافعی سوال نمبر/ 0621 ایک جانور کو قر بانی کے ایام شروع ہونے سے پہلے کوئی مرض لاحق ہو گیا تھا اسکی وجہ سے اسکی صحت کافی متأثر ہوگئی لیکن قربانی کے ایام میں وہ جانور اچھا ہوگا مگر کمزوری کے اثرات اب بھی باقی ہے تو کیا ایسے جانور کی قربانی درست ہے؟
جواب:۔ ایسا جانور جسے قربانی کے ایام شروع ہونے سے پہلے کوئی مرض لاحق ہوجائے اسکی وجہ سے اسکی صحت کافی متأثر ہوگئی ہو لیکن قربانی کے ایام میں اس جانور کی بیماری مکمل دور ہوجائے، البتہ اس مرض کی وجہ سے جانور میں کمزوری کا اثر باقی رہے تو ایسے جانور کی قربانی کرنا درست ہے۔
قال امام النووي رحمة الله عليه: العجفاء التي ذهب مخها من شدةهزالها لاتجزئ وإن كان به بعض الهزال ولم يذهب مخها أجزأت۔ (روضة الطالبين2/464) لا تجزئ التضحية بما فيه عيب ينقص اللحم ألمريضة. فإن كان مرضها يسيرا لم يمنع الإجزاء وإن كان بينا يظهر بسبب الهزال واللحم لم يجز ۔ (المجموع:8/293)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0622 اگر کسی مرد کا انتقال ہوجائے تو اس کی بیوی کی عدّت کب سے شروع سے ہوتی ہے مرنے کے بعد سے یا تدفین کا عمل مکمل ہونے کے بعد سے شروع ہوگی ؟
جواب:۔ مرنے والے کی عدت کا وقت روح کے قبض ہونے کے فوراً بعد شروع ہوجاتا ہے، تدفین کا اعتبار نہیں ہوگا ۔“وعدة الوفاة من الموت” (منهاج الطالبين 3/38)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0623 برسات کے دنوں میں تیمم کے لئے خشک مٹی دستیاب نہ ہو تو کیا گیلی (تَر) مٹی سے تیمم کرنا درست ہے؟
جواب:۔ برسات کے موسم میں تیمم کے لیے خشک مٹی نہ ہو تو گیلی مٹی سے تیمم کرنا درست نہیں، لہذا خشک مٹی حاصل کرنے یا تر مٹی کو خشک کرکے اس سے تیمم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
فقال الشافعي رحمة الله عليه: وإذا كان التراب مبلولا لم يتيمم به. (كتاب الأم:2/107) فإن تيمم بطين رطب أو بتراب ندي لايعلق غباره لم يجز. (المهذب:1/119)
Fiqhe Shafi Question No/0624 If a person who have entered in a state of ihram has a child along with him then is it necessary for the child to perform ablution for performing tawaf??
Ans; If a person who have entered in a state of ihram has a child along with him then it is necessary for the child to perform ablution for performing tawaf..
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0625 اگر کوئی شخص وضو یا تیمم کا محتاج ہو اور اس کو وضو یا تیمم کرانے کےلئے اسکی بیوی کے علاوہ کوئی دوسرا شخص موجود نہ ہو تو اس صورت میں کیا بیوی اسے وضو یا تیمم کراسکتی ہے؟ یا مس امراہ یعنی عورت چھونے کی وجہ سے اس کا وضو یا تیمم درست نہیں ہوگا؟
جواب:۔ اگر کوئی شخص وضو یا تیمم کا محتاج ہو اور اس کو وُضو یا تیمم کرانے کے لئے اسکی بیوی کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہ ہو تو اس صورت میں بیوی اسے وضو یا تیمم کرائے گی اس طور پر کہ وہ اپنے ہاتھوں میں گلوز یا کوئی چیز لپیٹ لے گی چونکہ بیوی کا بغیر حائل کے وضو یا تیمم کرانے سے وضویاتیمم درست نہیں ہوگا۔
ولزوجة غسل زوجها بلامس منهاله ولا من الزوج أو السيد لها كأن كان الغسل من كل وعلي يده خرقة لئلا ينتقض وضوءه۔ (حاشية الجمل:3/145) ويستحب أن لا يمس سائر بدنه إلا بخرقة ويوضئه كما يوضئه للصلاة۔ (التنببه/109)
Fiqhe Shafi Question No/0625 If a person has a necessity to perform tayammum /ablution and except his wife there is nobody else who could help him perform it ,then in this situation can his wife help him?? Or does the touch of his wife invalidates his tayammum/ablution??
Ans; If a person is in need of performing tayammum /ablution and except his wife there is nobody else who could help him perform it ,then in this situation his wife can help him perform tayammum /ablution by wearing gloves or by covering her hands with something.. Because it is not Permissible for a wife to make her husband perform it with uncovered hands..
فقہ شافعی سوال نمبر / 0626 *شوہر کے انتقال کے بعد سسُر کا بہو سے اور بیوی کے انتقال کے بعد شوہر کا ساس سے پردہ کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟*
*شریعت میں بہو سسر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ لھذا بیٹے کی وفات کے بعد بھی بہو اور سسُر اور بیٹی کی وفات کے بعد داماد اور ساس کے درمیان پردہ کی ضرورت نہیں ہے*
*وَجُمْلَتُهُ: أَنَّهُ يَحْرُمُ عَلَى الرَّجُلِ حَلَائِلُ أَبْنَائِهِ وَأَبْنَاءِ أَوْلَادِهِ وَإِنْ سَفَلُوا مِنَ الرِّضَاعِ وَالنَّسَبِ بِنَفْسِ الْعَقْدِ۔* (تفسير البغوي:۱۹۱/۲) *والثالثة: زوجة الابن محرمة على الأب لعقد الِابْنِ عَلَيْهَا تَحْرِيمَ تَأْبِيدٍ سَوَاءً دَخَلَ بِهَا الابن أم لا، وهي الحليلة واختلف في تسميها الحليلة عَلَى ثَلَاثَةِ أَوْجُهٍ: أَحَدُهَا: أَنَّهَا سُمِّيَتْ حَلِيلَةً لِأَنَّهَا تَحِلُّ لِلزَّوْجِ. وَالثَّانِي: لِأَنَّهَا تَحُلُّ فِي الْمَكَانِ الَّذِي يَحُلُّ بِهِ الزَّوْجُ.وَالثَّالِثُ: لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا يَحِلُّ إِزَارَ صَاحِبِهِ*. (الحاوي الكبير:٢٠٠/٩) *ﺯﻭﺟﺔ اﻻﺑﻦ، ﻭﺯﻭﺟﺔ اﺑﻦ اﻻﺑﻦ، ﻭاﺑﻦ اﻟﺒﻨﺖ، ﻭﻫﻜﺬا ﺯﻭﺟﺎﺕ اﻟﻔﺮﻭع ﻓﻼ ﻳﺠﻮﺯ ﻧﻜﺎﺣﻬﻦ ﺑﺤﺎﻝ.ﻗﺎﻝ ﺗﻌﺎﻟﻰ: ﻭﺣﻼﺋﻞ ﺃﺑﻨﺎﺋﻜﻢ اﻟﺬﻳﻦ ﻣﻦﺃﺻﻼﺑﻜﻢ* (الفقه المنهجي:٢٧/٤)
فقہ شافعی سوال نمبر (٦٢٧) اگر کوئی عورت حج یا عمرہ کو جانا چاہتی ہو اور سفر شروع سے پہلے اس کو حیض شروع ہو جائے ، جس کی وجہ سے وہ بغیر احرام کے مکہ چلی گئی اب پاک ہو نے کے بعد اسے حج یا عمرہ کا احرام مسجد عائشہ جاکر باندھنا درست ہے یا نہیں؟ یا پھر اسے اپنے میقات یلملم جاکر احرام باندھنا ضروری ہے؟
جواب:۔ اگر کوئی حائضہ عورت حج یا عمرہ کے سفر پر جانا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ وہ اپنے میقات پر ہی احرام باندھے (یعنی حج یا عمرہ کی نیت کرے گی) اگر احرام کی نیت کئے بغیر حائضہ عورت اپنی میقات سے نکل کر مکہ پہنچ جائے تو وہ اپنے میقات پر واپس جاکر احرام کی نیت کرے گی اور واپس میقات پر جانا دشوار ہو یا قافلہ سے بچھڑنے کا خوف ہو تو وہیں سے احرام کی نیت کرے گی اور دم دے گی ۔
وإن بلغه مريدا نسكا لم تجز مجاوزته بغيرإحرام فإن فعل لزمه العود ليحرم منه إلا إذا كان له عذر كأن ضاق الوفت أو كان الطريق مخوفا …فإنه لايلزمه العود فإن لم يعد للعذر أو غيره لزمه دم۔ (كنز الراغبين:1 /515) ومن بلغ الميقات مريدا للنسك لم يجز أن يجاوزه حتي يحرم لما ذكرناه من حديث إبن عباس رضي الله عنهما فإن جاوزه وأحرم دونه نظرت فإن كان له عذر بأن يخشي أن يفوته الحج أو الطريق مخوف لم يعد وعليه دم۔ (المهذب :1 /677)
Fiqhe Shafi Question No/0627 If a woman wants to go for hajj pilgrimage/umrah and she starts menstruating before the beginning of her journey due to which she had to go there without wearing ihram so after attaining the purification should she wear the ihram of hajj/umrah at Masjid Aysha or is it necessary to go to Meeqat to wear the Ihram?
Ans; If a woman wants to go for hajj pilgrimage/umrah then she is supposed to wear ihram at her Meeqat(that is she has to make niyyah of hajj/umrah).. If the menstruating woman leaves meeqat and reaches makkah without making niyyah then she has to return to her meeqat and make niyyah of ihram and if she cannot return there or there is a fear of getting separated from the Caravan then she has to wear ihram at her present location and give atonement(dam)…
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0628 اگر غیر ممیز بچہ محرمات احرام میں سے کسی کا ارتکاب کرے تو بچہ پر دم واجب ہوگا یا نہیں؟
جواب:۔ اگر غیر ممیز بچہ محرمات احرام میں سے کسی چیز کا ارتکاب کرے خواہ بھول کرے یا عمدا کرے کسی بھی صورت میں بچے پر دم واجب نہیں ہوگا، البتہ اگر بچہ ممیز ہو اور اس نے جان بوجھ کر محرمات احرام کا ارتکاب کیا ہو تو اس کے ولی پر دم ہوگا اور دم ولی ہی کے مال سے دیا جائے گا۔
امام قليوبي رحمة الله عليه فرماتے ہیں: واذا ارتكب محظورا بنفسه فلا ضمان مطلقا ان لم يكن مميزا. امام خطیب شربینی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ويجب عليه منعه من محظورات الاحرام فان ارتكب منها شيا وهو مميز وتعمد فعل ذلك فالفدية في مال الولي في الاظهر اما غير مميز فلا فدية عليه في ارتكابه محظورا علي احد۔ (حاشيتا قبليوبي وعميرة:1246/2) (مغني المختاج:224/2) (الفقه الاسلامي وادلة :23/3) (نهاية المحتاج239/3) (كتاب الايضاح في مناسك الحج والعمرة:508)
Fiqhe Shafi Question No/0628 If a young child ( who doesnot have the ability to differeniate between right and wrong)performs an act from the prohibitions of ihram then does atonement becomes compulsory on the child?
Ans; If a young child performs an act from the prohibitions of ihram then whether he performs it knowingly or unknowingly, atonement will not be compulsory on the child..
However, if the child has an understanding ability then atonement will be compulsory on his guardian and will be given from the wealth of the guardian..
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0629 اگر کسی شخص کا متعینہ تاریخ پر سفر حج طے ہوا لیکن اس تاریخ کو آفت سماوی کی وجہ سے سفر کینسل ہوجائے اور سفر کرنے میں جانی ومالی نقصان کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں سفر حج کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ اگر کسی کا متعینہ تاریخ پر سفر حج طے ہو لیکن اس دن آفت سماوی کی وجہ سے اس کا سفر کینسل ہوجائے اور سفر کرنے میں جانی ومالی نقصان کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اس پر سفر حج واجب نہیں ہے کیونکہ سفر حج کے لئے راستے کا پُرامن ہونا بھی ضروری ہے۔
الثالث. امن الطريق امنا لائقا بالسفر من سبع وعدو وسواء في البر والبحر والجو۔ (الفقه الشافعي الميسر1/379) الخامس. الإستطاعة الأمنية. أمن الطريق ولو ظنا علي نفسه وماله في كل مكان بحسب ما يليق به والمراد هو الأمن العام فلو خاف علي نفسه أو زوجه أوماله سبعا أو عدوا أو رصديا ولا طريق له سواه لم يجب الحج عليه لحصول الضرر. (موسوعة الفقه الإسلامي3 /98) الامر الثالث: الطريق. فيشترط أمن فيه ولو ظنا لائق بالسفر وإن لم يلق بالحضر علي النفس والبضع والمال ولو يسيرا. فلو خاف علي شيئ منها لم يلزمه نسك لتضره۔ (أسني المطالب2/ 292)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0630 اگر کسی نے فرض حج یا عمرہ نہ کیا ہو اور اس کے پاس صرف اتنی رقم ہو جس سے یا تو فرض حج یا عمرہ ممکن ہے، یا پھر دعوتی واصلاحی سرگرمیوں میں لگایا جاسکتا ہو تو ایسی صورت میں اسے کیا کرنا چاہے؟
جواب:۔ اگر کسی شخص پر فرض عمرہ باقی ہو، اور عمرہ کے بقدر اس کے پاس رقم موجود ہو تو اسے ایک مرتبہ فرض عمرہ کرنا ضروری ہے , نیز اگر وہ کسی دینی و دعوتی سرگرمیوں میں اس رقم کو لگانا چاہتا ہے، تو اس کو پہلے فرض عمره ادا کرنا ہوگا، اس لئے کہ امربالمعروف ونہی عن المنکر فرض کفایہ ہے اور عمرہ زندگی میں ایک مرتبہ فرض عین ہے اس کے ادا نہ کرنے پر اس پر قضاء واجب ہوتی ہے اگر فرض عین اور فرض کفایہ دونوں ایک ساتھ پیش آئیں تو فرض عین کو ادا کرنا افضل ہے۔
ومن فروض الكفاية……… و الامر بالمعروف و النهي عن المنكر. (نهايه المحتاج ٨/٣٨) من حج حجة ادی فرضه….. وكذا العمره فرض في الاظهر لقوله تعالى (واتموا الحج والعمرة لله) (مغني المحتاج ٢/٦٤١) ان فرض العين افضل لشدة اعتنائه الشارع به يقصد حصوله من كل مكلف في الأغلب۔ (حاشية البناني ١/١٨٤) (الموسوعة الفقهيه ٣٢/٩٧) (الحاوي الكبير :٤/٢٣) (المهذب:١/٦٤٣)