بدھ _20 _مارچ _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0721
اگر کوئی ایک سے زائد دنوں تک بےہوش رہے تو کیا اس کے لیے ان دنوں کی نماز پڑھنا ضروری ہے؟
جواب:۔ اگر کوئی شخص بیماری، یا بغیر کسی زیادتی کے (شراب یا بے ہوشی کی اشیاء اور دواء وغیرہ کے استعمال سے نہ ہو) از خود بے ہوش ہوجائے چاہیے پورا دن ہو یا دن کے کسی حصے میں بے ہوش رہے یا ایک سے زیادہ دنوں تک بے ہوش رہے تو ایسے شخص کے لیے بے ہوشی کے ایام کی نمازوں کا اعادہ ضروری نہیں چونکہ بے ہوشی کی صورت میں اس پر سے نماز کی فرضیت کا حکم ساقط ہوجائے گا.
قَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ الْجُنُونَ وَالْإِغْمَاءَ وَمَا فِي مَعْنَاهُمَا مِمَّا يُزِيلُ الْعَقْلَ بِغَيْرِ مَعْصِيَةٍ يَمْنَعُ وُجُوبَ الصَّلَاةِ وَلَا إعَادَةَ سَوَاءٌ كَثُرَ زَمَنُ الْجُنُونِ وَالْإِغْمَاءِ وَنَحْوِهِمَا أَمْ قَلَّ حَتَّى لَوْ كَانَ لَحْظَةً أَسْقَطَ فَرْضَ الصَّلَاةِ۔ (المجموع:٧/٣) ولا قضاء على…… جنون او إغماء او سكر بلا تعد به اذا آفاق۔ (تحفة المحتاج :١٦١/١) ولا قضاء على شخص( ذي حيض) او نفاس اذا طهر او جنون او إغماء اذا آفاق۔ (كنز الراغبين:١١٨/١) * نھاية المحتاج:٢٤١/١ * النجم الوهاج:٣٨/٢
جمعرات _28 _مارچ _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0722
اذان کے دوران باتیں کرنا کیسا ہے؟ حدیث میں اذان کے باتیں کرنے والے پر کیا وعید آئی ہے؟
جواب:۔ اذان شعائر اسلام میں سے ہیں اس لیے چاہیے کہ اذان کے وقت بالکل باتیں نہ کریں بلکہ اذان کا جواب دیں الا یہ کہ اشد ضرورت ہو تو بات کرسکتے ہیں البتہ بعض فقھاء نے یہ بات لکھی ہے کہ جوشخص اذان کے وقت باتیں کرتا ہے تو موت کے وقت اسے کلمہ نصیب نہ ہوگا۔
(مؤطا مالك:274) قال الجرداني رحمه الله: وقال الجلال السيوطي رحمه الله في مختصر اذكار النووي: ان من تكلم حالة الاذان يخشي عليه من سوء الخاتمة نعوذ بالله تعالي من ذلك۔ (فتح العلام :2/ 110) قال النووي رحمه الله وَيُسْتَحَبُّ أَنْ لَا يَتَكَلَّمَ فِي أَذَانِهِ بِشَيْءٍ أَصْلًا فَلَوْ عَطَسَ حَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى فِي نَفْسِهِ وَيَبْنِي۔ (روضة الطالبين :1/ 201) قال باعشن رحمه الله: (و) يسن (أن يقطع القراءة) ونحو الذكر، كتدريس وإن كان واجباً؛ لأنه لا يفوت، بخلاف الإجابة؛ (للإجابة۔ (بشري الكريم :1/ 146)
اتوار _31 _مارچ _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0723
قرآن کی تلاوت کے وقت اذان ہوجائے تو قرآن مجید کی تلاوت کو روک کر جواب دینا ہے ضروری ہے؟
جواب:۔ قرآن مجید کی تلاوت دوران اگر اذان ہوجائے تو سبق اور تلاوت قرآن کو رک کر اذان کا جواب دینا مستحب ہے، اسلیے کہ سبق اور تلاوت کا وقت متعین نہیں ہوتا اسے اذان کے بعد بھی مکمل کرسکتا ہے۔
قال الجرداني رحمه الله وقال الجلال السيوطي رحمه الله في مختصر اذكار النووي: ان من تكلم حالة الاذان يخشي عليه من سوء الخاتمة نعوذ بالله تعالي من ذلك(۱)
قال النووي رحمه الله وَيُسْتَحَبُّ أَنْ لَا يَتَكَلَّمَ فِي أَذَانِهِ بِشَيْءٍ أَصْلًا فَلَوْ عَطَسَ حَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى فِي نَفْسِهِ وَيَبْنِي(۲)
قال باعشن رحمه الله (و) يسن (أن يقطع القراءة) ونحو الذكر، كتدريس وإن كان واجباً؛ لأنه لا يفوت، بخلاف الإجابة. (للإجابة،(۳)
( ۱)فتح العلام 2/ 110
( ۲)روضة الطالبين 1/ 201
(۳بشري الكريم 1/ 146
منگل _2 _اپریل _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0724
کیا پیروں سے معذور شخص کی امامت صحیح ہے؟
جواب:۔ ہاتھ یا پاؤں سے معذرو شخص کی امامت صحیح اور جائز ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ بیماری کے ایام میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھاتے تھے اور صحابہ کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے تھے۔
(صحيح مسلم:418) علامہ شيرازي رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ويجوز للقائم أن يصلي خلف القاعد لأن النبي صلى الله عليه وسلم صلى جالسا والناس خلفه قيام۔ (المهذب:1/ 184)ا مام نووي رحمة الله عليه فرماتے ہیں: فِي مَذَاهِبِ الْعُلَمَاءِ: قَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ مَذْهَبَنَا جَوَازُ صَلَاةِ الْقَائِمِ خَلْفَ الْقَاعِدِ الْعَاجِزِ وَأَنَّهُ لَا تَجُوزُ صَلَاتُهُمْ وَرَاءَهُ قُعُودًا وَبِهَذَا قَالَ الثَّوْرِيُّ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَبُو ثَوْرٍ وَالْحُمَيْدِيُّ وَبَعْضُ الْمَالِكِيَّةِ۔(المجموع:4/ 264)
جمعہ _19 _اپریل _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0725
صلاة استسقاء کا کیا مطلب ہے اور یہ نماز کب پڑھنا مسنون ہے؟
جواب:۔ استسقاء کے لغوی معنی پانی طلب کرنا ہے اور شرعی معنی دعا و نماز کے ذریعے اللہ سے پانی کو طلب کرنا، پانی کم ہونے پر استسقاء کی نماز پڑھنا کا سنت ہے لہذا جب پانی ختم ہوجائے یا بارش نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی شدید قلت ہو، الغرض جب لوگوں کو پانی کی ضرورت ہو تو ایسے وقت میں استسقاء کا عمل کرسکتے ہیں۔
قال الشافعي في الأم وأصحابنا وإنما يشرع الاستسقاء إذا أجدبت الأرض وانقطع الغيث أو النهر أو العيون المحتاج إليها وقد ثبتت الأحاديث الصحيحة في استسقاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصلاة وبالدعاء قال أصحابنا ولو انقطعت المياه ولم يدع إليها حاجة في ذلك الوقت لم يستسقوا لعدم الحاجة.(المجموع 65/5)
منگل _23 _اپریل _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0726
ووٹ کا نشان جو سیاہی انگلی پر لگنے سے وضو اور غسل کا کیا مسئلہ ہے
جواب :۔ ووٹ دیتے وقت بطور علامت انگلی پر اگرقلم کے ذریعہ نشان لگایاجائے تواس نشان میں وضو وغسل کے لئے کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن اگر روشنائی کا استعمال کیا جاتا ہے اس کو فوری طورپرصاف کرنے کی کوشش کی جائے اس لئے کہ بسااوقات یہ نشان سوکھنے کے بعد جرم کی حیثیت اختیارکرجاتاہے اور پانی کے پہنچنے کے لئے مانع بنتا ہے ۔البتہ اگر اس کو چھڑانا دشوار اور تکلیف دہ ہو تو اس کو معاف سمجھا جائے گا اور وضو اور غسل صحیح ہوجائے گا.
إذا كان على بعض أعضائه شمع أو عجين أو حناء واشتباه ذلك فمنع وصول الماء الى شئ من العضو لم تصح طهارته سواء كثر ذلك أم قل ولو بقي على اليد وغيرها أثر الحناء ولونه دون عينه أو أثردهن مائع بحيث يمس الماء بشرة العضو ويجري عليها لكن لا يثبت صحت طهارته. (المجموع :٤٦٧/١) ولو وضع في الشق شمعة أو حناء وله جرم لا يجزيء وضوؤه ولا تصح صلاته (كفاية الأخيار :٢٦/١) ويجب إزالة نحو شمع يمنع وصول الماء ولا يضر لون صبغ ولا دهن لا جرم له۔ (حاشية الجمل :١١٣/١)
جمعہ _26 _اپریل _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0727
کیا تراویح میں قرآن کا ختم کرنا ضروری ہے؟
جواب:۔ تراویح کی نماز میں پورے رمضان میں ایک مرتبہ قرآن مجید کا ختم کرنا افضل ہے ۔
قال الرملي رحمه الله وَفِعْلُهَا بِالْقُرْآنِ فِي جَمِيعِ الشَّهْرِ أَوْلَى وَأَفْضَلُ مِنْ تَكْرِيرِ سُورَةِ الْإِخْلَاصِ ۔ (نهاية المحتاج :2/ 127) قال عميره رحمه الله: قَالَ الْإِسْنَوِيُّ: التَّرَاوِيحُ سُنَّةٌ بِالْإِجْمَاعِ، وَأَفْتَى ابْنُ الصَّلَاحِ وَابْنُ عَبْدِ السَّلَامِ بِأَنَّ خَتْمَ الْقُرْآنِ فِي مَجْمُوعِهَا أَفْضَلُ مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ الْإِخْلَاصِ ثَلَاثًا فِي كُلِّ رَكْعَةٍ۔ (حاشية القليوبي وعميرة :1/ 248) قال الدمياطي رحمه الله: وفعلها بالقرآن في جميع الشهر بأن يقرأ فيها كل ليلة جزءا أفضل من تكرير سورة الرحمن أو هل أتى على الإنسان أو سورة الإخلاص بعد كل سورة من التكاثر إلى المسد كما اعتاده أهل مصر. (اعانة الطالبين:1/ 307) ★مغني المحتاج 1/ 461 ★حاشية الجمل 1/ 489
جمعرات _2 _مئی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0728
اگر کسی شخص پر زکات فرض ہوچکی ہے (سال مکمل ہوا ہے) اور رمضان کا انتظار کرے تو اس کا کیا مسئلہ ہے؟
جواب :۔ زکات فرض ہوتے ہی فورا نکالنا واجب ہے۔ رمضان کے انتظار میں تاخیر کرنا جائز نہیں بلا عذر تاخیر کرنا حرام ہے اور تاخیر کرنے والا گنہگار بھی ہوگا. ہاں اگر رمضان کے علاوہ مہینے میں زکات کے مستحقین موجود نہ ہو۔یا رمضان میں پائے جانے والے مستحق زیادہ ضرورت مند ہوں۔یا فی الحال ادائیگی کے لئے مال موجود نہ ہو تو ایسی صورتوں میں رمضان کا انتظار کرنے کی گنجائش ہے ورنہ نہیں ۔
قَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ مَذْهَبَنَا أَنَّهَا إذَا وَجَبَتْ الزَّكَاةُ وَتَمَكَّنَ مِنْ إخْرَاجِهَا وَجَبَ الْإِخْرَاجُ عَلَى الْفَوْرِ فَإِنْ أَخَّرَهَا أَثِمَ۔ (المجموع:٣٣٥/٥)وَحرم تَأْخِيرهَا) أَي تَأْخِير الْمَالِك أَدَاء الزَّكَاة بعد التَّمَكُّن۔( نهاية الزين: ١٧٩/١) تَجِبُ الزَّكَاةُ) أَيْ أَدَاؤُهَا (عَلَى الْفَوْرِ) ؛ لِأَنَّ حَاجَةَ الْمُسْتَحِقِّينَ إلَيْهَا نَاجِزَةٌ (إذَا تَمَكَّنَ) مِنْ الْأَدَاءِ كَسَائِرِ الْوَاجِبَاتِ؛ وَلِأَنَّ التَّكْلِيفَ بِدُونِهِ تَكْلِيفٌ بِمَا لَا يُطَاقُ، فَإِنْ أَخَّرَ أَثِمَ۔ (مغني المحتاج:١٢٩/٢ ووجب على المالك إخراج القدر الواجب على الفور، إذا توفر شرطان اثنان: الشرط الأول: أن يتمكن من إخراجها:…. . فإن كان غائباً عن المكان الذي هو فيه، بأن كان في بلدة أخرى،…. لم يكلف بإخراج الزكاة عنه فوراً… الشرط الثاني: حضور الأصناف المستحقين لها۔
(الفقه المنهجي:٥٣/٢) * (روضة الطالبين:٢٢٣/٢)* (السراج الوهاج: ١٣٣/١)
اتوار _12 _مئی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0729
افطاری کے وقت کوئی خاص دعا جس کا ثبوت احادیث سے ہو تو رہنمائی فرمائیں۔جواب :۔ افطاری کے وقت یہ دعا "اللهم لك صمت و على رزقك أفطرت” پڑھنا مستحب ہے پڑھتے ہیں اور یہ دعا حدیث سے بھی ثابت ہے اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی پڑھتے تھے” اللَّهُمَّ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إنْ شَاءَ اللَّهُ
آخری دعا کو صرف پانی سے افطار کرنے پر پڑھنے کو مخصوص کیا ہے۔ البتہ فقھائے کرام نے ان دونوں دعاؤں کو پڑھنا سنت لکھا ہے۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صام أو أفطر قال: "أللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت۔(سنن أبو داود /٢٣٥٨) روت حفصة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من لم يبيت الصيام من الليل فلا صيام له ۔ (سنن النسائي /٢٣٣٣) (وَ) يُسَنُّ (أَنْ يَقُولَ عِنْدَ فِطْرِهِ) أَيْ: عَقِبَهُ (اللَّهُمَّ لَك). (تحفة المحتاج/ ٤٢٥/٣) (اللَّهُمَّ لَك صُمْت)…. وَوَرَدَ أَيْضًا أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى فَيُسَنُّ الْجَمْعُ بَيْنَهُمَا لَكِنْ هَذَا رُبَّمَا يُفْهَمُ مِنْهُ أَنَّهُ فِي خُصُوصِ مَنْ أَفْطَرَ عَلَى الْمَاءِ ۔(حاشية الجمل: ٣٣٠/٢) وَ) يَنْبَغِي لَهُ (أَنْ يَقُولَ بَعْدَ) وَفِي نُسْخَةٍ عِنْدَ (الْإِفْطَارِ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْت وَعَلَى رِزْقِك أَفْطَرْت۔(اسني المطالب: ٤٢٢/١) ويسن أن يقول عقب الفطر: اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت ويزيد – من أفطر بالماء -: ذهب الظمأ، وابتلت العروق، وثبت الاجر إن شاء الله تعالى. (إعانة الطالبين: ٢٧٩/٢) (نهاية المحتاج :١٨٣/٣)
جمعہ _17 _مئی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0730
میت کی طرف سے افطار کروانا کیسا ہے؟
کیا میت کو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ؟
جواب:۔ کسی مرنے والے کی طرف سے ثواب کی نیت سے افطار کروانا صدقہ کرنے کی طرح درست ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچے گا خواہ افطار کروانے والا میت کی اولاد ہو یا کسی دوسرے کی طرف سے ہو۔
أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم إن أمي افتلتت نفسها ولم توصي وأظنها لو تكلمت تصدقت أفلها أجر إن تصدقت عليها فقال النبي صلى الله عليه وسلم : نعم۔ وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ ١ جَوَازُ الصَّدَقَةِ عَنْ الْمَيِّتِ ٢ وَاسْتِحْبَابُهَا ٣ وَأَنَّ ثَوَابَهَا يَصِلُهُ وَيَنْفَعُهُ ٤ وَيَنْفَعُ الْمُتَصَدِّقَ أَيْضًا وَهَذَا كُلُّهُ أَجْمَعَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ۔ وينفع الميت صدقة عنه ومنها وقف لمصحف وغيره وحفر بئر وغرس شجر منه في حياته أو من غيره عنه بعد موته”۔ (صحيح البخاري ١٣٨٨) (صحيح مسلم/ ١٠٠٤) (شرح مسلم :١١/٨٤) (تحفة المحتاج /٧/٧٢)