بدھ _13 _جنوری _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0941
مساجد میں کبھی چپل اور جوتے گم ہوجاتے ہیں یا بدل جاتے ہیں تو مسجد میں موجود چپل اور جوتوں کو پہن کر جاسکتے ہیں؟جب کہ ان کے مالک کا علم نہیں ہوتا۔
مساجد میں کبھی چپل اور جوتے گم ہوجاتے ہیں یا بدل جاتے ہیں تو مسجد میں موجود چپل اور جوتوں کو پہنا جائز نہیں.
قال الإمام الجمل رحمة الله عليه: منْ ضَلَّ نَعْلَهُ فِي مَسْجِدٍ وَوَجَدَ غَيْرَهَا لَمْ يَجُزْ لَهُ لُبْسُهَا وَإِنْ كَانَتْ لِمَنْ أَخَذَ نَعْلَهُ اهـ. وَلَهُ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ بَيْعُهَا وَأَخْذُ قَدْرِ قِيمَةِ نَعْلِهِ مِنْ ثَمَنِهَا إنْ عَلِمَ أَنَّهَا لِمَنْ أَخَذَ نَعْلَهُ، وَإِلَّا فَهِيَ لُقَطَة. (حاشية الجمل على شرح المنهج ٤٧١/٣)
قال الإمام البجرمي رحمه الله عليه: منْ ضَلَّ نَعْلَهُ فِي مَسْجِدٍ وَوَجَدَ غَيْرَهُ لَمْ يَجُزْ لَهُ لُبْسُهُ وَإِنْ كَانَ لِمَنْ أَخَذَ نَعْلَهُ، وَلَهُ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ بَيْعُهُ وَأَخْذُ قَدْرِ قِيمَةِ نَعْلِهِ مِنْ ثَمَنِهِ إنْ عَلِمَ أَنَّهُ لِمَنْ أَخَذَ نَعْلَهُ وَإِلَّا فَهُوَ لُقَطَةٌ. (حاشية البجيرمي على الخطيب ١٦٩/٣)
قال الإمام ابن حجر الهيتمي رحمة الله عليه: منْ ضَلَّ نَعْلَهُ فِي مَسْجِدٍ وَوَجَدَ غَيْرَهَا لَمْ يَجُزْ لَهُ لُبْسُهَا، وَإِنْ كَانَتْ لِمَنْ أَخَذَ نَعْلَهُ انْتَهَى. (تحفة المحتاج في شرح المنهاج ٧/٦)
قال الإمام الرملي رحمه الله عليه؛ منْ ضَلَّ نَعْلَهُ فِي مَسْجِدٍ وَوَجَدَ غَيْرَهَا لَمْ يَجُزْ لَهُ لُبْسُهَا وَإِنْ كَانَتْ لِمَنْ أَخَذَ نَعْلَهُ اهـ. وَلَهُ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ بَيْعُهَا وَأَخْذُ قَدْرِ قِيمَةِ نَعْلِهِ مِنْ ثَمَنِهَا إنْ عَلِمَ أَنَّهَا لِمَنْ أَخَذَ نَعْلَهُ، وَإِلَّا فَهِيَ لُقَطَةٌ. (نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج، ١٤٨/٥)
منگل _19 _جنوری _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0942
اگر کوئی قضا نماز کو ادا کی نیت سے پڑھے اور نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہوجائے کہ نماز کا وقت نکل چکا تھا تو کیا وہ نماز دوبارہ قضا کی نیت سے پڑھنا ہوگا؟
اگر کوئی شخص ادا نماز پڑھے اس گمان سے کہ وقت باقی ہے مگر نماز مکمل ہوجانے کے بعد معلوم ہوجائے کہ نماز کا وقت ختم ہوچکا تھا، تب بھی اس کی نماز درست ہوگی چونکہ نماز کی نیت میں ادا اور قضاء کا ذکر کرنا شرط نہیں ۔
لَوْ صَلّى يَوْمَ الغَيْمِ بِنِيَّةِ الأداءِ وهُوَ يَظُنُّ بَقاءَ الوَقْتِ فَبانَ وُقُوعُ الصَّلاةِ خارِجَ الوَقْتِ – أجْزَأتْهُ ، واسْتَدَلُّوا بِهِ عَلى أنَّ نِيَّةَ القَضاءِ لَيْسَتْ بِشَرْطٍ ، هَذا كَلامُ الأصْحابِ فِي المسالة : وقال الرّافِعِيُّ الأصَحُّ أنَّهُ لا يُشْتَرَطُ نِيَّةُ القَضاءِ والأداءِ بَلْ يَصِحُّ الأداءُ بِنِيَّةِ القَضاءِ (المجموع :٢٥٩/٤)
ولو صلّى في يوم غيم ثّم بان أنه صلّى بعد الوقت أجزأه، وإن لم يكن نوى الفائتة. (بحر المذهب :١١٠/٢)
اتوار _24 _جنوری _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0943
منہ بولی بیٹی کا نکاح کے لیے ولی کون بنے گا اس کا اصل باپ یا پرورش کرنے والا ؟
متبنى یعنی منہ بولی بیٹی کا نکاح کے لیے ولی اس لڑکی کا اصل باپ بنے گا نہ کہ پرورش کرنے والا۔ اس لیے کہ باپ کی موجودگی میں کوئی دوسرا ولی نہیں بن سکتا۔ نیز فقہاء نے ولی حضرات کی جو ترتیب بتلائی ہے اس میں پرورش کرنے والے کا ذکر نہیں ہے۔
قَالَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَة اللَّه عليه: وَلَا وِلَايَةَ لِأَحَدٍ مَعَ أَبٍ فَإِذَا مَاتَ فَالْجَدُّ أَبُو الْأَبِ. (الأم :٣٥/٧)
اﻷﻭﻟﻴﺎء ﻓﻲ اﻟﺰﻭاﺝ ﺣﺴﺐ ﺗﺮﺗﻴﺒﻬﻢ: ﻭاﻷﻭﻟﻴﺎء ﻓﻲ اﻟﺰﻭاﺝ ﻫﻲ ﻋﻠﻰ اﻟﺘﺮﺗﻴﺐ اﻵﺗﻲ:اﻷﺏ.ﺛﻢ اﻟﺠﺪ ﺃﺑﻮ اﻷﺏ.ﺛﻢ اﻷﺥ اﻟﺸﻘﻴﻖ.ﺛﻢ اﻷﺥ ﻣﻦ اﻷﺏ.ﺛﻢ اﺑﻦ اﻷﺥ اﻟﺸﻘﻴﻖ.ﺛﻢ اﺑﻦ اﻷﺥ ﻣﻦ اﻷﺏ. ﺛﻢ اﻟﻌﻢ اﻟﺸﻘﻴﻖ. ﺛﻢ اﻟﻌﻢ ﻣﻦ اﻷﺏ. ﺛﻢ اﺑﻦ اﻟﻌﻢ اﻟﺸﻘﻴﻖ. ﺛﻢ اﺑﻦ اﻟﻌﻢ ﻣﻦ اﻷﺏ. ﻭﻫﻜﺬا ﺳﺎﺋﺮ اﻟﻌﺼﺒﺎﺕ، ﻓﺈﻥ ﻋﺪﻣﺖ اﻟﻌﺼﺒﺎﺕ ﻓﺎﻟﻘﺎﺿﻲ، ﻟﻤﺎ ﺳﺒﻖ ﻣﻦ ﻗﻮﻟﻪ -ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠم” ﻓﺎﻟﺴﻠﻄﺎﻥ ﻭﻟﻲ ﻣﻦ ﻻ ﻭﻟﻲ ﻟﻪ ” (الفقه المنهجي:٥٩/٢)
جمعہ _29 _جنوری _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0944
سر میں جوڑے جانے والے بالوں کی تجارت کا کیا حکم ہے؟
بیع کے صحیح ہونے کے لیے مبیع یعنی بیچے جانے والی چیز کا پاک ہونا شرط ہے، لہذا ناپاک اور حرام چیزوں کی بیع جائز نہیں ہے۔ اسی طرح انسان کے بالوں کو جوڑنا اور اس سےفائدہ اٹھانا یعنی بیچنا یا خریدنا انسان کے احترام کی وجہ سے حرام ہے اور اگر بال مردار جانور کے ہوں تو مردار جانور ناپاک ہونے کی وجہ سے حرام ہیں اگر وہ بال دھاگے یا اُون سے بنے ہوئے ہوں اور انسانی بالوں کے مشابہ نہ ہو تو ان جیسے بالوں کو جوڑنا اور اس کی تجارت کرنا جائز ہے.
قال الإمام النووي رحمة الله عليه: يَحْرُمُ الِانْتِفَاعُ بِشَعْرِ الْآدَمِيِّ وَسَائِرِ أَجْزَائِهِ لِكَرَامَتِهِ … وَإِنْ وَصَلَتْهُ بِشَعْرِ غَيْرِ آدَمِيٍّ فَإِنْ كَانَ شعرا نجسا وهو شعر الميتة … فَهُوَ حَرَامٌ أيضا بلا خلاف ….. فَأَمَّا رَبْطُ الشَّعْرِ بِخُيُوطِ الْحَرِيرِ الْمُلَوَّنَةِ وَنَحْوِهَا مِمَّا لَا يُشْبِهُ الشَّعْرَ فَلَيْسَ بِمَنْهِيٍّ عَنْهُ وَأَشَارَ الْقَاضِي إلَى نَقْلِ الْإِجْمَاعِ فِيهِ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِوَصْلٍ وَلَا هُوَ فِي مَعْنَى مَقْصُودِ الْوَصْلِ وَإِنَّمَا هُوَ لِلتَّجَمُّلِ وَالتَّحْسِينِ (المجموع: ٣ / ١٤٠, ١٤١)
قال الإمام النووي رحمة الله عليه:لَا يَجُوزُ بَيْعُهُ مُتَّصِلًا لَا يَجُوزُ بَيْعُهُ مُنْفَصِلًا كَشَعْرِ الْآدَمِيِّ. (المجموع٢٥٤/٩)
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمة الله عليه: وَوَصْلُ شَعْرِ الْآدَمِيِّ بِشَعْرٍ نَجَسٍ أَوْ شَعْرِ آدَمِيٍّ حَرَامٌ لِلْخَبَرِ السَّابِقِ،، وَلِأَنَّهُ فِي الْأَوَّلِ مُسْتَعْمِلٌ لِلنَّجِسِ الْعَيْنِيِّ فِي بَدَنِهِ، وَفِي الثَّانِي مُسْتَعْمِلٌ لِشَعْرِ آدَمِيٍّ، وَالْآدَمِيُّ يَحْرُمُ الِانْتِفَاعُ بِهِ وَبِسَائِرِ أَجْزَائِهِ لِكَرَامَتِهِ، … وَأَمَّا رَبْطُ الشَّعْرِ بِخُيُوطِ الْحَرِيرِ الْمُلَوَّنَةِ وَنَحْوِهَا مِمَّا لَا يُشْبِهُ الشَّعْرَ فَلَيْسَ بِمَنْهِيٍّ عَنْهُ. (مغني المحتاج:٤٠٦/١)
قال الإمام الدميري رحمة الله عليه: ووصل المرأة شعرها بشعر نجس، أو شعر آدمي حرام قطعًا؛ لأنه يحرم الانتفاع به لكرامته. (النجم الوهاج: ج ٢ / ٢٠٦)
قال الإمام عبد الواحد الروياني رحمة الله عليه: كل شعرٍ نجسٍ لا يجوز للمرأة أن تصل به شعرها. (بحر المذهب: ج ٢ / ١٩٦)
*قال أصحاب الموسوعة الفقهية الكويتية: وَاتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى عَدَمِ جَوَازِ الاِنْتِفَاعِ بِشَعْرِ الآْدَمِيِّ بَيْعًا وَاسْتِعْمَالاً؛ لأَِنَّ الآْدَمِيَّ مُكَرَّمٌ لِقَوْلِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى: {وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ} فَلاَ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ مِنْ أَجْزَائِهِ مُهَانًا مُبْتَذَلاً. * الموسوعة الفقهية الكويتية: ٢٦ /١٠٢
قال شيخ الإسلام زكريا الأنصاري رحمة الله عليه : وَوَصْلُهَا شَعْرَهَا بِشَعْرِ آدَمِيٍّ حَرَامٌ قَطْعًا؛ لِأَنَّهُ يَحْرُمُ الِانْتِفَاعُ بِشَيْءٍ مِنْهُ لِكَرَامَتِهِ سَوَاءٌ كَانَ شَعْرَهَا أَوْ شَعْرَ غَيْرِهَا أَذِنَ فِيهِ الزَّوْجُ أَوْ لَا؛ لِأَنَّهُ بِانْفِصَالِهِ مِنْ الْآدَمِيِّ تَجِبُ مُوَارَاتُهُ كَذَا فِي الرَّوْضَةِ. (الغرر البهية: ج ١ / ٣٤٦)
قال الإمام الشبراملسي رحمة الله عليه :أَمَّا الْآدَمِيُّ فَيَحْرُمُ مُطْلَقًا أَذِنَ أَوْ لَا؛ لِأَنَّهُ يَحْرُمُ الِانْتِفَاعُ بِشَيْءٍ مِنْهُ لِكَرَامَتِهِ، وَنُقِلَ بِالدَّرْسِ عَنْ م ر أَنَّهُ يَحْرُمُ ذَلِكَ عَلَى الْآدَمِيِّ وَلَوْ مِنْ نَفْسِهِ لِنَفْسِهِ. أَقُولُ: وَلَعَلَّ وَجْهَهُ أَنَّهُ صَارَ مُحْتَرَمًا، وَتُطْلَبُ مُوَارَاتُهُ بِانْفِصَالِهِ أَوَّلًا، وَعَلَيْهِ فَلَا يَصِحُّ بَيْعُهُ كَبَقِيَّةِ شُعُورِ الْبَدَنِ لِلْعِلَّةِ الْمَذْكُورَةِ. حاشية الشبراملسي على نهاية المحتاج: ٢ / ٢٥
پیر _1 _فروری _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0945
کسی غیر مسلم موت کی خبر سن کر انا لله وانا اليه راجعون پڑھنے کا کیا مسئلہ ہے؟
اگر کسی غیر مسلم کی موت کی خبر معلوم جائے تو اس موقع پر انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسلے کہ ہر ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کے پاس لوٹنا ہے۔ البتہ غیر مسلم کی موت کی خبر سننے پر کچھ نہ پڑھنا بلکہ خاموش رہنابہتر ہے۔
قال الإمام النووي رحمة الله عليه: ﻭﻳﺠﻮﺯ ﻟﻠﺠﻨﺐ ﻭاﻟﺤﺎﺋﺾ ﻭاﻟﻨﻔﺴﺎء ﻓﻲ ﻣﻌﻨﺎﻩ ﺃﻥ ﺗﻘﻮﻝ ﻋﻨﺪ اﻟﻤﺼﻴﺒﺔ (ﺇﻧﺎ ﻟﻠﻪ ﻭﺇﻧﺎ ﺇﻟﻴﻪ ﺭاﺟﻌﻮﻥ) ﺇﺫا ﻟﻢ ﺗﻘﺼﺪ اﻟﻘﺮﺁﻥ: ﻗﺎﻝ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ اﻟﺨﺮاﺳﺎﻧﻴﻮﻥ ﻭﻳﺠﻮﺯ ﻋﻨﺪ ﺭﻛﻮﺏ (المجموع :١٦٢/٢)
قال الإمام القرطبي رحمة الله عليه: ﻭاﻻﺳﺘﺮﺟﺎﻉ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺼﻴﺒﺔ ﺳﻨﺔ ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ (اﻟﺬﻳﻦ ﺇﺫا ﺃﺻﺎﺑﺘﻬﻢ ﻣﺼﻴﺒﺔ ﻗﺎﻟﻮا ﺇﻧﺎ ﻟﻠﻪ ﻭﺇﻧﺎ ﺇﻟﻴﻪ ﺭاﺟﻌﻮﻥ {اﻟﺒﻘﺮﺓ 156} ﻭﻓﻴﻪ ﺗﻜﻨﻴﺔ اﻟﺮﺋﻴﺲ اﻟﻜﺒﻴﺮ ﻟﻤﻦ ﺩﻭﻧﻪ ﺃﻻ ﺗﺮﻯ ﻗﻮﻟﻪ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ ﻏﻠﺒﻨﺎ ﻋﻠﻴﻚ ﻳﺎ ﺃﺑﺎ اﻟﺮﺑﻴﻊ ﻭﻟﻢ ﻳﺴﺘﻜﺒﺮ ﻋﻦ ﺫﻟﻚ ﻣﻦ اﻟﺨﻠﻔﺎء ﻭاﻷﻣﺮاء ﺇﻻ ﻣﻦ ﺣﺮﻡ اﻟﺘﻘﻮﻯ۔ (المجموع :١٦٢/٢)
*وقال الشيخ ابن باز رحمة الله عليه: الكافر إذا مات فلا بأس أن نقول : إنا لله وإنا إليه راجعون ، والحمد لله ، ولو كان من غير أقربائك؛ لأن كل الناس إليه راجعون ، وكل الناس ملك لله سبحانه وتعالى، فلا بأس بهذا ” انتهى من ” فتاوى نور على الدرب ” * (الاستذكار:٦٦/٣)
جمعرات _4 _فروری _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0946
اگر کسی کا آپریشن کے ذریعہ کوئی عضو یعنی پاؤں یا ہاتھ وغیرہ کاٹ دیا جائے تو کیا اسے دفن کرنا ضروری یا کہیں پھینک سکتے ہیں؟
انسان زندہ ہو یا مردہ ہر حال میں اس کے تمام اعضاء کا احترام کرنا ہے۔ لہذا اگر آپریشن کے ذریعہ کوئی عضو کاٹ دیا جائے تو اسے دفن کرنا مستحب ہے.
*قال الإمام النووي رحمة الله عليه : وَالدَّفْنُ لَا يَخْتَصُّ بِعُضْوِ مَنْ عُلِمَ مَوْتُهُ بَلْ كُلُّ مَا يَنْفَصِلُ مِنْ الْحَيِّ مِنْ عُضْوٍ وَشَعْرٍ وَظُفْرٍ وَغَيْرِهِمَا مِنْ الْأَجْزَاءِ يُسْتَحَبُّ دَفْنُهُ *. (المجموع: ٥/٢٥٤)
قال الإمام الرافعي رحمة الله عليه: ما ينفصل من الحَيِّ من ظفر وشعر وغيرهما يستحب لهم دفنها۔ (العزيز شرح الوجيز: ٤١٨/٢)
قال الإمام النووي رحمة الله عليه: وأَمَّا الدَّفْنُ، فَلَا يَخْتَصُّ بِمَا إِذَا عُلِمَ مَوْتُ صَاحِبِهِ، بَلْ مَا يَنْفَصِلُ مِنَ الْحَيِّ مِنْ شَعْرٍ وَظُفْرٍ وَغَيْرِهِمَا يُسْتَحَبُّ لَهُ دَفْنُهُ۔ (روضة الطالبين :١١٧/٢)
پیر _14 _جون _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0947
اگر کسی شخص کو نماز میں رکوع کے بعد اعتدال کے بغیر سجدہ میں چلا جائے تو کیا ایسے شخص کی نماز درست ہوگی؟
بیماری یا بوڑھاپے کی وجہ سے اگر کسی شخص کو مکمل کھڑا ہونا دشوار ہونے کی بناء پر نماز میں رکوع کے بعد مکمل اعتدال کے بغیر جتنا ممکن ہو اٹھ کر سیدھے سجدہ میں چلا جائے تو ایسے بیمار شخص کی نماز درست ہوگی اور اعتدال اس سے ساقط ہوگا ۔
لو عجز عن الاعتدال سقط عنه فیسجد من رکوعه فان زال عذرہ قبل وضع جبھته اعتدل لابعدہ (العباب :1/203)
منگل _9 _فروری _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0948
اگر کسی جگہ آگ لگ جائے یا پانی بھر جائے اور وہاں قرآن مجید کے نسخے جل کر یا پانی میں گر کر ضائع ہو رہے ہوں تو ایسے موقع پر قرآن مجید کے ان نسخوں کو بغیر وضو کے اٹھانے کا کیا مسئلہ ہے؟
عام حالت میں قرآن مجید کو بغیر طہارت کے چھونا یا اٹھانا بالکل جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی جگہ قرآن مجید کا نسخہ پانی میں ڈوبنے ، یا جلنے کا ڈر ہو، یا کسی کافر کے ہاتھ لگنے سے قرآن کی بے ادبی و اہانت کا امکان ہو تو ان تمام صورتوں میں بغیر وضو کے بھی قرآن مجید کو اٹھانا درست ہے۔
علامه نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: لَوْ خَافَ الْمُحْدِثُ عَلَى الْمُصْحَفِ مِنْ حَرْقٍ أَوْ غَرَقٍ أَوْ وُقُوعِ نَجَاسَةٍ عَلَيْهِ أَوْ وُقُوعِهِ بِيَدِ كَافِرٍ جَازَ أَخْذُهُ مَعَ الْحَدَثِ۔ (المجموع:٨٨/١)
علامہ خطیب شربین رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ﻭﻟﻮ ﺧﻴﻒ ﻋﻠﻰ ﻣﺼﺤﻒ ﺗﻨﺠﺲ ﺃﻭ ﻛﺎﻓﺮ ﺃﻭ ﺗﻠﻒ ﺑﻨﺤﻮ ﻏﺮﻕ ﺃﻭ ﺿﻴﺎﻉ ﻭﻟﻢ ﻳﺘﻤﻜﻦ ﻣﻦ ﺗﻄﻬﺮﻩ ﺟﺎﺯ ﻟﻪ ﺣﻤﻠﻪ ﻣﻊ اﻟﺤﺪﺙ. (مغني المحتاج: ٦٧/١)
علامہ سیوطی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: الضروريات تبيح المحظورات۔ (الاشباء و والنظائر:٨٤)
اتوار _7 _فروری _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0949
قران مجيد کو زمین پر رکھنے کا کیا حکم ہے؟
قرآن مجید اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے اس کی عظمت و رفعت کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بلند اور پاک جگہ پر رکھا جائے تاکہ قرآن مجید کی مکمل طور پر عظمت و رفعت ملحوظ رہے لھذا قرآن مجید کو کسی اونچی جگہ پر رکھنا چاہیے۔ تاکہ قرآن مجید کی بے ادبی اور بے حرمتی نہ ہو۔ اس کے برخلاف اگر کوئی قرآن مجید کو زمین پر رکھے یا کسی ایسی جگہ رکھے جہاں پر قران مجید کی توہین اور بے ادبی ہوتی ہو تو پھر حرام ہے۔
علامہ بجيرمي رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وَضْعُ الْمُصْحَفِ فِي رَفِّ خِزَانَةٍ وَوَضْعُ نَحْوِ تَرْجِيلٍ فِي رَفٍّ أَعْلَى مِنْهُ وَيَحْرُمُ وَضْعُ الْمُصْحَفِ عَلَى الْأَرْضِ. (حاشية البجيرمي: ٣٧٦/١)
علامہ رافعی رحمة اللہ عليه فرماتے ہیں: ان يوضع علي شئ مرتفع من سرير ونحوه لئلا تصيبه نداوة الارض فيتغير. (فتح العزيز: ١١٤/٥)
منگل _9 _فروری _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0950
کچھ لوگ قرآن مجید کی تلاوت کے بعد مصحف کا بوسہ لیتے ہیں کیا قرآن مجید کا بوسہ لینا درست ہے؟
قرآن کریم کی تعظیم کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت ختم کرنے کے بعد قرآن مجید کو تعظیما بوسہ لینا مستحب ہے۔
علامہ سلیمان رحمة الله عليه فرماتے ہیں: سن تقبيل المصحف. (حاشيه الجمل: ١٠٧/٤)
علامہ شروانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: على جواز تقبيل المصحف. (حواشي الشروانى: ١٥٥/١)