اتوار _13 _جون _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0971
میت کے نام سے مسجد کی تعمیر کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
مرنے والے کی طرف سے اس کے نام پر مسجد کی تعمیر کرنا یا کنواں کھودانا اسی طرح کوئی چیز صدقہ کرنا یہ تمام چیزیں مرنے والے کے حق میں اجرو ثواب کا باعث ہے۔
ثُمَّ شَرَعَ فِيمَا يَنْفَعُ الْمَيِّتَ فَقَالَ (وَتَنْفَعُ الْمَيِّتَ صَدَقَةٌ) عَنْهُ، وَوَقْفٌ، وَبِنَاءُ مَسْجِدٍ، وَحَفْرُ بِئْرٍ وَنَحْوِ ذَلِكَ (وَدُعَاءٌ) لَهُ (مِنْ وَارِثٍ وَأَجْنَبِيٍّ) كَمَا يَنْفَعُهُ مَا فَعَلَهُ مِنْ ذَلِكَ فِي حَيَاتِهِ، وَلِلْإِجْمَاعِ وَالْأَخْبَارِ الصَّحِيحَةِ فِي بَعْضِهَا كَخَبَرِ: «إذَا مَاتَ ابْنُ آدَمَ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ» وَخَبَرِ «سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ: قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إنَّ أُمِّي مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَقْيُ الْمَاءِ» رَوَاهُمَا مُسْلِمٌ وَغَيْرُهُ. (مغنی المحتاج :2/222)
منگل _15 _جون _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0972
شوہر کے انتقال کے بعد عدت گذارنے والی عورت کے لئے سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھات سے بنے زیورات کے استعمال کا کیا حکم ہے؟
* عدت وفات گزارنے والی عورت کے لیے زیب و زینت کے خاطر کسی بھی دھات کے زیورات کا استعمال کرنا حرام ہے۔*
والتقیید بالذھب والفضة یفھم جواز التحلي بغیرھما کنحاس ورصاص وھو کذلك آلا ان تعود قومھا التحلي بھما (مغنی المحتاج:5/191) والتحلي بنحو النحاس ان کان للزینة ….حرم. (حاشیة قلیوبی:4/3093)
بدھ _16 _جون _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0973
سونے چاندی یا دیگر دھاتوں سے بنی مورتیاں بیچنے کا شرعا کیا حکم ہے؟
سونے چاندی یا کسی بھی دھات سے بنی ہوئی مورتیوں کو بیچنا حرام ہے۔
وبیع الاصنام والصور المتخذۃ من الذھب والفضة وغیرھا ثلاثة اوجه۔ اصحھا البطلان۔ (المجموع:9/243)
منگل _22 _جون _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0974
کیا عید کی تکبیرات عورتیں بھی مردوں کی طرح بلند آواز سے پڑھ سکتی ہیں؟
عید الاضحی یا موقع پر نمازوں کے بعد تکبیرات کا پڑھنا ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد، غلام سب کے لیے بلند آواز سے پڑھنا مستحب ہے۔البتہ عورت کو اجنبی مردوں کی موجودگی میں پست آواز سے پڑھنا چاہیے۔
امام ابن حجر ہیتمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: يُنْدَبُ التَّكْبِيرُ إلَخْ (قَوْلُهُ لِغَيْرِ امْرَأَةٍ وَخُنْثَى بِحَضْرَةِ غَيْرِ نَحْوِ مَحْرَمٍ) مَفْهُومُهُ رَفْعُ الْمَرْأَةِ وَالْخُنْثَى بِحَضْرَةِ نَحْوِ مَحْرَمٍ (قَوْلُهُ: بِخِلَافِ الْمُقَيَّدِ الْآتِي) ظَاهِرُهُ أَنَّهُ يُقَدَّمُ الْمُقَيَّدُ عَلَى أَذْكَارِ الصَّلَاةِ وَأَنَّهُ لَا يُسَنُّ تَأْخِيرُهُ (قَوْلُهُ فِي الْمَتْنِ حَتَّى يُحْرِمَ الْإِمَامُ) اُنْظُرْ لَوْ أَخَّرَ الْإِمَامُ الْإِحْرَامَ إلَى الزَّوَالِ أَوْ تَرَكَ الصَّلَاةَ وَيُحْتَمَلُ أَنَّ الْمُعْتَبَرَ حِينَئِذٍ۔ (تحفة المحتاج في شرح المنهاج وحواشي الشرواني والعبادي، ٥١/٣)
امام زکریا انصاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: فَالتَّكْبِيرُ أَوْلَى مَا يَشْتَغِلُ بِهِ؛ لِأَنَّهُ ذِكْرُ اللَّهِ تَعَالَى وَشِعَارُ الْيَوْمِ فَإِنْ صَلَّى مُنْفَرِدًا فَالْعِبْرَةُ بِإِحْرَامِهِ (وَيَرْفَعُ بِهِ النَّاسُ أَصْوَاتَهُمْ) نَدْبًا إظْهَارًا لِشِعَارِ الْعِيدِ (فِي سَائِرِ الْأَحْوَالِ) فِي الْمَنَازِلِ وَالطُّرُقِ وَالْمَسَاجِدِ وَالْأَسْوَاقِ لَيْلًا وَنَهَارًا وَاسْتَثْنَى الرَّافِعِيُّ مِنْ طَلَبِ رَفْعِ الصَّوْتِ الْمَرْأَةَ وَظَاهِرُ أَنَّ مَحَلَّهُ إذَا حَضَرَتْ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَلَمْ يَكُونُوا مَحَارِمَ وَمِثْلُهَا الْخُنْثَى (أسنى المطالب في شرح روض الطالب، ٢٨٤/١)
علامہ خطيب شربينی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَيكبر) ندبا كل أحد غير حَاج (من غرُوب الشَّمْس من لَيْلَة الْعِيد) {ولتكبروا الله} أَي عِنْد إكمالها وَفِي الثَّانِي الْقيَاس على الأول وَفِي رفع الصَّوْت إِظْهَار شعار الْعِيد وَاسْتثنى الرَّافِعِيّ مِنْهُ الْمَرْأَة وَظَاهر أَن مَحَله إِذا حضرت مَعَ غير محارمها وَنَحْوهم وَمثلهَا الْخُنْثَى۔ (الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع، ١٨٨/١)
منگل _22 _جون _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0975
سفر کے دوران وضو کے لیے پانی کی سھولت نہ ہو بلکہ پانی خرید کر استعمال کرنا ہو تو کیا ایسا شخص تیمم کریگا یا پانی خرید کر وضو کرنا ضروری ہے؟
اگر سفر کے دوران وضوء کے لئے مفت پانی فراہم نہ ہو، بلکہ پانی خرید کر استعمال کرنا پڑ رہا ہو اور پانی کی مناسب قیمت ادا کرکے خرید سکتا ہو تو ایسے شخص کے لیے تیمم کی اجازت نہیں بلکہ پانی خرید کر وضو کرنا ہوگا۔
قال الإمام النووي رحمه الله عليه: إذا وجد الماء يباع بثمن مثله وهو واجد للثمن غير محتاج اليه لزمه شراؤه بلا خلاف۔ (المجموع:٢٨٢/١)
قال الإمام إبن حجر الهيتمي رحمه الله عليه: ويجب شراؤه اي: الماء للطهارة ….. بثمن مثله….. إلا ان يحتاج إلى الثمن لدين مستغرق او مؤنة سفره أو نفقة حيوان محترم۔ (تحفة المحتاج :١١٤/١)
جمعرات _24 _جون _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر /0976
جلے ہوئے گوبر کی راکھ اگر جسم کے کسی حصہ پر لگ جائے تو اس کا کیا مسئلہ ہے؟
گوبر اور آدمی کے پاخانے عین نجس ہیں۔ اور عین نجس چیز اگر بدن کے کسی حصہ پر لگ جائے تو وہ دھوئے بغیر پاک نہیں ہوتا اگرچہ اس گوبر کو جلایا ہی کیوں نہ جائے لہٰذا اگر جلے ہوئے گوبر کی راکھ کسی جگہ لگ جائے تو اس کو دھونا ضروری ہے۔
امامِ نووی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: وان احرق السرجين أو العذرة فصار رمادا لم يطهر لان نجاستها لعينها…. [الشَّرْحُ] مَذْهَبُنا أنَّهُ لا يَطْهُرُ السِّرْجِينُ والعَذِرَةُ وعِظامُ المَيْتَةِ وسائِرُ الأعْيانِ النَّجِسَةِ بِالإحْراقِ بِالنّارِ ۔ (المجموع:٥٧٩/٢)
وإن أحرق العذرة أو السرجين أو عظام الميتة فصار رمادًا، أو طرح كلبًا ميتًا في مملحةٍ فصار ملحًا، أو طرح السرجين في التراب فصار ترابًا.. لم يطهر شي من ذلك۔ (البيان في مذهب الإمام الشافعي: ٤٢٨/٢)
پیر _28 _جون _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سؤال نمبر / 0977
مسبوق شخص امام کے تشہد اول میں رکعت باندھ کر امام سے ملے اور امام اسکے بیٹھنے کے فورا بعد کھڑا ہوجائے تو کیا مسبوق شخص اپنی التحیات مکمل کرے گا یا پھر أمام کے ساتھ کھڑا ہوجائے گا؟
مسبوق شخص امام کے ساتھ نماز میں اس وقت شامل ہوجائے جب امام تشھد اوّل میں ہو پھر امام اسکے بیٹھنے کے فورا بعد کھڑا ہوجائے تو وہ مسبوق شخص امام کی اقتداء کرتے ہوئے کھڑا ہوجائے گا اپنی التحیات مکمل نہیں کرے گا۔
قال العمراني رحمه الله:وهل يتشهد مع الإمام؟ فيه وجهان، حكاهما ابن الصباغ: أحدهما- وهو المنصوص -: (أنه يتشهد معه) كما يقعد، وإن لم يكن موضع قعوده. والثاني: لا يتشهد، لأن هذا ليس بموضع تشهده.فإذا قلنا: يتشهد.. فإنه لا يكون واجبًا عليه؛ لأنه إنما يلزمه متابعة الإمام في الأفعال، دون الأذكار. فإن كان هذا في التشهد الأول.. فإن الإمام إذا قام.. فإن المأموم يقوم معه بتكبير؛ لأنه يقوم على ابتداء ركعة. (البيان:٣٧٩/٢)
قالَ أصْحابُنا إذا أدْرَكَهُ ساجِدًا أوْ فِي التَّشَهُّدِ كَبَّرَ لِلْإحْرامِ قائِمًا ويَجِبُ أنْ يُكْمِلَ حُرُوفَ تَكْبِيرَةِ الإحْرامِ قائِمًا كَما سَبَقَ بيانه قريبا وفى صِفَةِ الصَّلاةِ فَإذا كَبَّرَ لِلْإحْرامِ لَزِمَهُ أنْ يَنْتَقِلَ إلى الرُّكْنِ الَّذِي فِيهِ الإمامُ وهَلْ يُكَبِّرُ لِلِانْتِقالِ فِيهِ الوَجْهانِ اللَّذانِ ذَكَرَهُما المُصَنِّفُ أصَحُّهُما بِاتِّفاقِ الأصْحابِ لا يُكَبِّرُ لِما ذَكَرَهُ المُصَنِّفُ ثُمَّ يُكَبِّرُ بَعْدَ ذَلِكَ إذا انْتَقَلَ مَعَ الإمامِ مِن السُّجُودِ أوْ غَيْرِهِ مُوافَقَةً لِلْإمامِ۔ (المجموع:١٩٠/٤)
بدھ _30 _جون _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0978
باپ کی بیوی سے بالغ بچوں کے لیے پردہ کا کیا مسئلہ ہے؟
اگر کوئی عورت والد کے نکاح میں آجائے تو وہ عورت اپنے شوہر کے بچوں کے لیے ماں کے حکم میں ہوگی لھذا باپ کی بیوی سے پردہ نہیں ہے۔
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمة الله عليه: ﺯﻭﺟﺔ ﻣﻦ (ﻭﻟﺪﻙ) ﺑﻮاﺳﻄﺔ ﺃﻭ ﻏﻴﺮﻫﺎ ﺃﺑﺎ ﺃﻭ ﺟﺪا ﻣﻦ ﻗﺒﻞ اﻷﺏ ﺃﻭ اﻷﻡ ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﺪﺧﻞ ﻭاﻟﺪﻙ ﺑﻬﺎ ﻹﻃﻼﻕ ﻗﻮﻟﻪ: {ﻭﻻ ﺗﻨﻜﺤﻮا ﻣﺎ ﻧﻜﺢ ﺁﺑﺎﺅﻛﻢ ﻣﻦ اﻟﻨﺴﺎء ﺇﻻ ﻣﺎ ﻗﺪ ﺳﻠﻒ} (مغني المحتاج:٢٢٧/٣)
قال الإمام إبن حجر الهيتمي رحمة الله عليه: (ﻭﻳﺤﺮﻡ) ﻋﻠﻴﻚ ﺑﺎﻟﻤﺼﺎﻫﺮﺓ (ﺯﻭﺟﺔ ﻣﻦ ﻭﻟﺪﺕ) ﻭﺇﻥ ﺳﻔﻞ ﻣﻦ ﻧﺴﺐ ﺃﻭ ﺭﺿﺎﻉ،(ﺃﻭ ﻭﻟﺪﻙ) ﻭﺇﻥ ﻋﻼ (ﻣﻦ ﻧﺴﺐ ﺃﻭ ﺭﺿﺎﻉ) (تحفة المحتاج:٢٣٠/٣)
قال الإمام النووي رحمة الله عليه: ﻭﺗﺤﺮﻡ ﺯﻭﺟﺔ ﻣﻦ ﻭﻟﺪﺕ ﺃﻭ ﻭﻟﺪﻙ ﻣﻦ ﻧﺴﺐ ﺃﻭ ﺭﺿﺎﻉ (روضة الطالبين:٤٥١/٥)
پیر _5 _جولائی _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0979
نماز میں تکبیر اولی کب تک حاصل ہوتی ہے اس کی کیا حد ہے؟
نماز میں تکبیر اولی حاصل ہونے کی حد کے سلسلے میں علماء کے تین اقوال ہے۔ پہلا اصح قول یہ ہے کہ مقتدی امام کے تکبیر اولی کہنے کے فوراً بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے نماز میں شامل ہوجائے تاخیر کی صورت میں تکبیر اولی کا وقت فوت ہوجاتا ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ امام سورہ فاتحہ کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے تکبیر اولی کہہ کر نماز میں شامل ہوجائے۔ تیسرا قول تکبیر اولی حاصل ہونے کی آخری حد یہ ہے کہ امام کے رکوع میں جانے سے پہلے مقتدی کا قیام میں ذرہ سا وقت گزرے۔لہذا بہتر یہ ہے کہ امام کے ساتھ شروع ہی سے شامل ہوکر اس فضیلت کو حاصل کریں
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ يُسْتَحَبُّ المُحافَظَةُ عَلى إدْراكِ التَّكْبِيرَةِ الأُولى مَعَ الإمامِ. وفِيما يُدْرِكُها بِهِ أوْجُهٌ: أصَحُّها بِأنْ يَشْهَدَ تَكْبِيرَةَ الإمامِ، ويَشْتَغِلَ عَقِبَها بِعَقْدِ صَلاتِهِ. فَإنْ أخَّرَ لَمْ يُدْرِكْها. والثّانِي: بِأنْ يُدْرِكَ الرُّكُوعَ الأوَّلَ. والثّالِثُ: أنْ يُدْرِكَ شَيْئًا مِنَ۔ (روضة الطالبين: ١/٣٤١)
علامہ اسنوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ثم بماذا تدرك فضيلة التحرم؟ وجوه: أظهرها: بأن يشهد تكبيرة [الإمام] (٢) ويشتغل عقيبها بالأحرام، فإن أخر لم يدركها. والثاني: بإدراك الركوع الأول. والثالث: بإدراك شئ من القيام. والرابع: إن اشتغل بأسباب الصلاة كالطهارة وغيرها كفاه إدراك الركوع. (المهمات في شرح الروضة والرافعي:٣/٢٨٩)
علامہ ابن رفعہ رحمة الله عليه فرماتے ہیں: الأصحاب فيه على خمسة أوجه:أحدها-وهو ما صححه الرافعي، ومجلي: أن يشاهد تكبيرة الإحرام، ويشتغل عقيبها بعقد الصلاة؛ فإن أخر، لم يدركها. والثاني: أن يشرع في الاقتداء به قبل شروعه في القراءة للفاتحة، حكاه القاضي الحسين. والثالث: أن يدركها من أدرك قيام الركعة الأولى. والرابع- وهو ما اختاره في «الكافي»-: أنه يدركها من أدرك الإمام في الركوع. والخامس: يدركها من أدرك الركوع إن لم يشتغل بأمور الدنيا، واشتغل بأسباب الصلاة؛ مثل: الطهارة، ونحوها، وإن اشتغل بأمور الدنيا؛ فلا يكون مدركًا لها ما لم يدرك القيام. (كفاية النبيه في شرح التنبيه: ٣/٥٨٥)
بدھ _7 _جولائی _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0980
اگر کوئی شخص کھانسی کی بیماری کا عادی ہو تو ایسے شخص کی نماز کا کیا نماز مسئلہ ہے؟
اگر نماز میں کسی بیماری یا عذر کی بناء پر بہت زیادہ کھانسی ہو رہی ہو تو اس کی وجہ سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ نماز درست ہوگی
علامہ کمال الدین الدمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: أما السعال والعطاس.. الصواب عدم الإبطال بكثرتهما لانه لا يمكن الاحتراز من ذلك و لا ينقطع به نظم الصلاۃ۔
علامہ خطیب شربینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: أمّا إذا كَثُرَ التَّنَحْنُحُ ونَحْوُهُ لِلْغَلَبَةِ كَأنْ ظَهَرَ مِنهُ حَرْفانِ مِن ذَلِكَ وكَثُرَ، فَإنَّ صَلاتَهُ تَبْطُلُ كَما قالاهُ فِي الضَّحِكِ والسُّعالِ……. وصَوَّبَ الإسْنَوِيُّ عَدَمَ البُطْلانِ فِي التَّنَحْنُحِ والسُّعالِ والعُطاسِ لِلْغَلَبَةِ، وإنْ كَثُرَتْ إذْ لا يُمْكِنُ الِاحْتِرازُ عَنْها. اهـ.ويَنْبَغِي أنْ يَكُونَ مَحَلُّ الأوَّلِ ما إذا لَمْ يَصِرْ السُّعالُ أوْ نَحْوُهُ مَرَضًا مُلازِمًا لَهُ. أمّا إذا صارَ السُّعالُ ونَحْوُهُ كَذَلِكَ، فَإنَّهُ لا يَضُرُّ كَمَن بِهِ سَلَسُ بَوْلٍ ونَحْوُهُ بَلْ أوْلى۔ (مغنی المحتاج:٣٣٦/١)