جمعرات _8 _جولائی _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0981
مکان دکان یا سواری میں برکت طور پر لگائی ہوئی قرآنی آیات کی تختی کو بغیر وضو کے چھونے اور اٹھانے کا کیا مسئلہ ہے؟
مکان و دکان یا سواری وغیرہ میں برکت کے طور پر قرآنی آیات لکھی ہوئی تختی یا کارڈ کو بغیر وضو کے چھونا یا اٹھانا جائز ہے، اس لیے کہ وہ مصحف کے حکم میں نہیں ہے۔
وأمّا إذا حَمَلَ كِتابَ فِقْهٍ وفِيهِ آياتٌ مِن القُرْآنِ أوْ كِتابَ حَدِيثٍ فِيهِ أيات أو دراهم أو ثوب أو عمامة طرز بآيات أو طعام نُقِشَ عَلَيْهِ آياتٌ فَوَجْهانِ مَشْهُورانِ ذَكَرَ المُصَنِّفُ دَلِيلَهُما أصَحُّهُما بِالِاتِّفاقِ جَوازُهُ (المجموع:٦٨/٢)
قال الإمام الرافعي رحمة الله عليه: وأما ما أثبت فيه شيئًا من القرآن لا للدراسة، كالدراهم الأحديةِ والعِمامَةِ المُطَرَّزَةِ بآيات القرآن، والحيطان المَنقُوشَةِ به وكتب الفقه والأصول والتفسير ففيه وجهان: وأصحهما: أنه لا مانع، لما روي: "أنَّهُ -ﷺ- كَتَبَ كِتابًا إلى هِرَقْلَ وكانَ فِيهِ ﴿تَعالَوْا إلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وبَيْنَكُمْ﴾ الآية ولم يأمر الحامل بالمحافظة على الطهارة، ولأن هذه الأشياء لا يقصد بإثبات القرآن فيها قراءته، فلا تجري عليها أحكام القرآن. (١الشرح الكبير:١٧٥/١)
قال الإمام زكريا الأنصاري رحمه الله: يَجُوزُ مَسُّ وحَمْلُ (ما كُتِبَ) مِن القُرْآنِ (لِغَيْرِ دِراسَةٍ كالتَّمائِمِ) جَمْعِ تَمِيمَةٍ أيْ عَوْذَةٍ وهِيَ ما يُعَلَّقُ عَلى الصَّغِيرِ (وما) كُتِبَ مِنهُ (عَلى الدَّراهِمِ) والدَّنانِيرِ (والثِّيابِ) لِما فِي الصَّحِيحَيْنِ «أنَّهُ – ﷺ – كَتَبَ كِتابًا إلى هِرَقْلَ وفِيهِ ﴿يا أهْلَ الكِتابِ تَعالَوْا إلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وبَيْنَكُمْ﴾ [آل عمران ٦٤] الآيَةَ ولَمْ يَأْمُرْ حامِلَها بِالمُحافَظَةِ عَلى الطَّهارَةِ» ولِأنَّ هَذِهِ الأشْياءَ لا تُقْصَدُ بِإثْباتِ القُرْآنِ فِيها قِراءَتُهُ فَلا يَجْرِي عَلَيْها أحْكامُ القُرْآنِ. (اسنى المطالب:١٣٩/١)
پیر _12 _جولائی _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0982
کیا قربانی کے لیے پہلے عقیقہ ہونا ضروری ہے؟
قربانی ایک الگ سنت ہے اور عقیقہ ایک مستقل الگ سنت ہے۔چوں کہ عید اور اس کے بعد تین دنوں میں قربانی افضل عمل ہے۔لہذا ان دنوں میں عقیقہ نہ ہونے کے باوجود قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے
اي للمسلم قادر حر كله او بعضه والمراد بالقادر من ملك زائدا عما يحتاجه يوم العيد وليلته وايام التشريق مايحصل به الأضحية. (حاشية الجمل:٢٠٤/٨)
وإنَّما تُسَنُّ لِمُسْلِمٍ قادِرٍ حُرٍّ كُلِّهِ أوْ بَعْضِهِ۔ (نهاية المحتاج: ١١١/٨)
بدھ _14 _جولائی _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سؤال نمبر / 0983
بعض جگہوں پر قربانی کے گوشت میں فقراءکا حصہ فقیروں کو دینے کے بجائے اس علاقے کے لوگ خود استعمال کرتے ہیں اور اس گوشت کی رقم فقراء کو دیتے ہیں کیا یہ طریقہ درست ہے یا کچا گوشت کا کچھ حصہ فقراء کو دینا ضروری ہے؟
قربانی کے جانور میں سے فقراء کو کچا گوشت کچھ نہ کچھ دینا ضروری ہے فقیروں کا حصہ محلہ والے کھائے اور اسکی رقم فقراء کو أداء کریں تو درست نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ فقراء سے مراد وہ لوگ جن کی آمدنی ان کی جائز ضرورتوں سے کم ہے۔
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمة الله عليه: والأصَحُّ وُجُوبُ التَّصَدُّقِ بِبَعْضِها) ولَوْ جُزْءًا يَسِيرًا مِن لَحْمِها بِحَيْثُ يَنْطَلِقُ عَلَيْهِ الِاسْمُ عَلى الفُقَراءِ، ولَوْ واحِدًا …ويُشْتَرَطُ فِي اللَّحْمِ أنْ يَكُونَ نِيئًا لِيَتَصَرَّفَ فِيهِ مَن يَأْخُذُهُ بِما شاءَ مِن بَيْعٍ وغَيْرِهِ كَما فِي الكَفّاراتِ، فَلا يَكْفِي جَعْلُهُ طَعامًا ودُعاءُ الفُقَراءِ إلَيْهِ۔ (مغني المحتاج:١٧٥/٦)
واتَّفَقَ أصْحابُنا عَلى أنَّهُ يَجُوزُ أنْ يَصْرِفَ القَدْرَ الَّذِي لا بُدَّ مِن التَّصَدُّقِ بِهِ إلى مِسْكِينٍ واحِدٍ …..وكَذا صَرَّحَ بِهِ الرُّويانِيُّ فَقالَ لا يَجُوزُ أنْ يَدْعُوَ الفُقَراءَ لِيَأْكُلُوهُ مَطْبُوخًا لِأنَّ حَقَّهُمْ فِي تَمَلُّكِهِ قال وان دفع مطبوخا لم يجز بَلْ يُفَرِّقْهُ نِيئًا (المجموع:٣٠٨/٨)
جمعرات _29 _جولائی _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0984
کسی جگہ سیلاب کی وجہ سے پانی ناقابل استعمال ہوجائے اور وضو کے لیے پانی اور تیمم کے لیے مٹی بھی میسر نہ ہو تو اب نماز ادا کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
اگر کسی جگہ ایسی صورتحال ہو کہ پانی اور مٹی بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو فاقدالطھورین کہتے ہیں، لہذا ایسے شخص کے لیے نماز کا وقت ہونے پر بغیر وضو کے ہی نماز پڑھنا ضروری ہے اور پانی ملنے کے بعد وضو کرکےان نمازوں کو دوبارہ پڑھنا بھی ضروری ہے۔
فَإذا لَمْ يَجِدْ المُكَلَّفُ ماءً ولا تُرابًا بِأنْ حُبِسَ فِي مَوْضِعٍ نَجِسٍ أوْ كانَ فِي أرْضٍ ذاتِ وحْلٍ ولم يجد ماء يخففه بِهِ أوْ ما أشْبَهَ ذَلِكَ فَفِيهِ أرْبَعَةُ أقْوالٍ حَكاها أصْحابُنا الخُراسانِيُّونَ (أحَدُها) يَجِبُ عَلَيْهِ أنْ يُصَلِّيَ فِي الحالِ عَلى حَسَبِ حالِهِ ويَجِبُ عَلَيْهِ الإعادَةُ إذا وجَدَ ماءً أوْ ترابا في موضع يسقط الفرض بِالتَّيَمُّمِ وهَذا القَوْلُ هُوَ الصَّحِيحُ الَّذِي قَطَعَ بِهِ كَثِيرُونَ مِن الأصْحابِ أوْ أكْثَرُهُمْ وصَحَّحَهُ الباقُونَ وهُوَ المَنصُوصُ فِي الكُتُبِ الجَدِيدَةِ۔ (المجموع:٣٠٣/٢)
ہفتہ _31 _جولائی _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سؤال نمبر / 0985
میت کے پاس تدفین سے پہلے قرآن کریم تلاوت کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
انتقال کے بعد سب سے اہم کام تجہیز و تکفین کا ہے. تجہیز و تکفین کے کام کو روک کر قرآن کریم کی تلاوت کرنا منع ہے ہاں اگر رات کے وقت میت ہوئی ہو اور تدفین صبح کے وقت ہو تو ایسے وقت میں تدفین سے پہلے قرآن کرین کی تلاوت کرنا مسنون ہے۔
قال الإمام سليمان الجمل رحمه الله: وكَأنَّ مَعْنى لا يُقْرَأُ عَلى المَيِّتِ أيْ: قَبْلَ دَفْنِهِ لِاشْتِغالِ أهْلِهِ بِتَجْهِيزِهِ الَّذِي هُوَ أهَمُّ ويُؤْخَذُ مِن العِلَّةِ أنَّهُمْ لَوْ لَمْ يَشْتَغِلُوا بِتَجْهِيزِهِ كَأنْ كانَ الوَقْتُ لَيْلًا سُنَّتْ القِراءَةُ عَلَيْهِ۔ (حاشية الجمل:١٢٢/٣)
قال الإمام الرملي رحمه الله: ويُقْرَأُ عِنْدَهُ) سُورَةُ (يس) نَدْبًا لِخَبَرِ «أقْرَءُوا عَلى مَوْتاكُمْ يس» أيْ مَن حَضَرَهُ مُقَدِّماتُ المَوْتِ؛ لِأنَّ المَيِّتَ لا يُقْرَأُ عَلَيْهِ، … فحيث قيل يُطْلَبُ القِراءَةُ عَلى المَيِّتِ كانَتْ يس أفْضَلُ مِن غَيْرِها أخْذًا بِظاهِرِ هَذا الخَبَرِ، وكانَ مَعْنى لا يُقْرَأُ عَلى المَيِّتِ: أيْ قَبْلَ دَفْنِهِ، إذْ المَطْلُوبُ الآنَ الِاشْتِغالُ بِتَجْهِيزِهِ۔ (نهاية المحتاج:٢٧٧/٢)
بدھ _4 _اگست _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/0986
قضاء حاجت یعنی پیشاب یا پاخانہ کو روک کر جماعت سے نماز میں شریک ہونا کیسا ہے؟
اگر کسی کو پیشاب یا پاخانہ کی حاجت ہو تو پہلےاس سے فارغ ہوجائے پھر جماعت سے نماز میں شریک ہوجائے اس لیے کہ پیشاب اور پاخانہ کو روک کر جماعت سے نماز میں شریک ہونا مکروہ ہے۔ ہاں اگر نماز قضاء ہونے کا اندیشہ ہو تو پہلے نماز پڑھے گا پھر قضائے حاجت سے فارغ ہوگا
قال الإمام الرملي رحمة الله عليه : وتكره الصلاة حاقنا بالنون اي البول أو حاقبا بالباء الموحدة أي بالغائط بأن يدافع ذلك… وإن خاف فوت الجماعة حيث كان الوقت متسعا. نهاية المحتاج:٣٦,٣٧/٢
منگل _27 _جولائی _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر 0987
زمینی و آسمانی یا سمندری آفات کی وجہ سے غیر مسلم بھائیوں کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے توانھیں زکوٰۃ کی رقم سے مدد کر سکتے ہیں؟
اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ غیر مسلم کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے البتہ نفلی صدقات دے سکتے ہیں لہذا نفلی صدقات وغیرہ سے ان کی مدد کرنا بہتر ہے۔
قال الإمام النووي الشافعي رحمه الله: ولا يجوز دفعها إلى كافر لقوله صلي الله عليه وسلم «أمرت أن آخذ الصدقة من اغنيائكم وأردها علي فقرائكم») (الشرح) هذا الحديث رواه البخار ومُسْلِمٌ مِن رِوايَةِ ابْنُ عَبّاسٍ ﵄ أنَّ النَّبِيَّ ﷺ قالَ لِمُعاذٍ ﵁ «أعْلِمْهُمْ أنَّ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِن أغْنِيائِهِمْ وتُرَدُّ فِي فُقَرائِهِمْ» وسَبَقَ بَيانُهُ فِي فَصْلِ نَقْلِ الزَّكاةِ وغيره ولايجوز دفع شئ مِن الزَّكَواتِ إلى كافِرٍ سَواءٌ زَكاةُ الفِطْرِ وزَكاةُ المالِ وهَذا لا خِلافَ فِيهِ عِنْدَنا قالَ ابْنُ المُنْذِرِ: أجْمَعَتْ الأُمَّةُ أنَّهُ لا يُجْزِئُ دَفْعُ زَكاةِ المالِ إلى الذِّمِّي۔(١)
قال الإمام العمراني الشافعي رحمه الله: قال الصيمري: ولا بأس بصدقة التطوع على المسلم والكافر والذمي والحربي، (٢)
قال ابن قدامة الحنبلي رحمه الله: لا نَعْلَمُ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ خِلافًا فِي أَنَّ زَكَاةَ الأَمْوَالِ لا تُعْطَى لِكَافِرٍ . قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ : أَجْمَعَ كُلُّ مَنْ نَحْفَظُ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الذِّمِّيَّ لا يُعْطَى مِنْ زَكَاةِ الأَمْوَالِ شَيْئًا . وَلأَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لِمُعَاذٍ : أَعْلِمْهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ , وَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِهِمْ . فَخَصَّهُمْ بِصَرْفِهَا إلَى فُقَرَائِهِمْ (يعني : فقراء المسلمين) , كَمَا خَصَّهُمْ بِوُجُوبِهَا عَلَى أَغْنِيَائِهِمْ ” انتهى .وإذا كان الكافر من المؤلفة قلوبهم جاز إعطاؤه من الزكاة قال الله تعالى: إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ * .(٣) (1)المجموع:٢١٨/٦) (٢) البيان :٤٦٣/٣) (٣) المغني:١٠٦/٤)
منگل _27 _جولائی _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0988
سیلاب زدہ علاقوں میں قربانی کے کچھ جانور پانی میں بہہ گیے اور کچھ جانور اب بھی باقی ہیں تو اب ان جانوروں کا کیا مسئلہ ہے؟
قربانی کے لیے خریدے ہوئے جانور اگربہہ کر گئے ہیں تو جانور خرید کر قربانی نہ کرنے والوں پر کچھ تاوان نہیں۔ البتہ جو جانور اب باقی ہیں چونکہ قربانی کا وقت ختم ہوگیا ہے اب اس کی مرضی ہے چاہیے تو اس جانور کو صدقہ کرے یا خود ذبح کرکے کھائے کوئی حرج نہیں۔
قال الإمام الرافعي رحمه الله: إذا ضَلَّ هدْيُهُ أو أضحيتهُ المتطَوَّعُ بها لم يلزمْهُ شَيْءٌ قال النووي: لكن يستحب ذبحها إذا وجدها، والتصدق بها. ممن نص عليه القاضي أبو حامد. فإن ذبحها بعد أيام التشريق، كانت شاة لحم يتصدق بها. (الشرح الكبير:١٠٣/١٢)
قال شيخ الأسلام زكريا الأنصاري رحمه الله: فإن ذبح المتطوع بالأضحية بعد فوات الوقت فهي صدقة إن تصدق بها فيثاب ثواب الصدقة لا الأضحية وإن ضحي بها في سنة أخري وقعت عنها لا عن الأولي۔ (أسنى المطالب:٤٥٩/٢)
جمعہ _6 _اگست _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0989
پیشاب پاخانہ کی نلکی کے ساتھ نماز پڑھنے کا کیا مسئلہ ہے؟
اگر کسی مریض کو پیشاب و پاخانہ کے لئے ٹیوپ لگائی گئی ہو تو اس حالت میں نماز ادا کرنا فرض ہے اور ایسے مریض کا حکم مستحاضہ عورت کی طرح ہے اگر عین نماز کے وقت ٹیوپ کو نکالنا ممکن ہو تو نکال کر نماز پڑھے گا اگر ممکن نہ ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ نماز کے وقت ٹیوب کو خالی کرے گا یا ٹیوپ کو بدل سکتا ہو تو تبدیل کرے گا یا عین نماز کے وقت پیشاب و پاخانہ نکلنے والے ٹیوپ کی نالی کو کسی چیز سے باندھے گا تاکہ نماز کی حالت میں گندگی باہر نہ آئے اور ایسا شخص نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد ہی وضو کرے اور وضو کے فوراً بعد نماز پڑھے گا اور کہ ہر فرض نماز کے لئے نیا وضو کرے گا
قال الإمام النووي رحمة الله عليه : حُكْمُ سَلِسِ البَوْلِ وسَلِسِ المَذْيِ حُكْمُ المُسْتَحاضَةِ فِي وُجُوبِ غَسْلِ النَّجاسَةِ وحَشْوِ رَأْسِ الذَّكَرِ والشَّدِّ بِخِرْقَةٍ والوُضُوءِ لِكُلِّ فَرِيضَةٍ والمُبادَرَةِ بِالفَرِيضَةِ بَعْدَ الوُضُوءِ …..اما مَن اسْتَطْلَقَ سَبِيلَهُ فَدامَ خُرُوجُ البَوْلِ والغائِطِ والرِّيحِ مِنهُ فَحُكْمُهُ حُكْمُ المُسْتَحاضَةِ فِي كُلِّ ما ذَكَرْناهُ (المجموع: ٥٠٠/٢)
يخرج منك من الغائط الى الكيس قليلا أو كثيرا ويجب عليك الوضوء لكل صلاة كمن به سلس البول وكالمستحاضة ويعفى عنك بالنسبة لحملك الكيس في الصلاة وبه نجاسة وعن خروج البراز منك الى الكيس وأنت في الصلاة. (فتاوى اللجنة الدائمة:٤١٣/٥)
اتوار _8 _اگست _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0990
نو مولود بچے کا نام رکھنے کا حق کس کو ہے؟
بچہ پیدا ہونے کے بعد نام رکھنے کا حق اس کے باپ اور اس کے دادا کو ہی حاصل ہے اگرچہ کہ باپ یا دادا تنگدستی کی وجہ سے اس کا خرچہ برادشت نہ کررہا ہو تب بھی باپ یا دادا کو ہی یہ حق حاصل ہے۔
وينبغي أن التسمية حق من له عليه الولاية من الأب وإن لم تجب عليه نفقته لفقره ثم الجد (إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين:٢/٣٨٢)
ويَنْبَغِي أنَّ التَّسْمِيَةَ حَقُّ مَن لَهُ عَلَيْهِ الوِلايَةُ مِن الأبِ وإنْ لَمْ تَجِبْ عَلَيْهِ نَفَقَتُهُ لِفَقْرِهِ ثُمَّ الجَدُّ (تحفة المحتاج في شرح المنهاج مع حواشي الشرواني والعبادي ٩/٣٧٢)