بھٹكل خلیفہ جامع مسجد عربی خطبہ – 02-09-2022
مولانا خواجہ معین الدین اكرمی صاحب مدنی
مولانا خواجہ معین الدین اكرمی صاحب مدنی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
فقہ شافعی سوال نمبر /1102
غیروں کے پولا نامی تھوار کے موقع پر جانوروں کو سجا کر مندر کے قریب لے جایا جاتے ہیں کیا اس طرح کرنا یا ان جانوروں کو صرف دیکھنے کے لیے جانا جائز ہے؟
پولا غیروں کا ایک مذہبی تہوار ہے، جسمیں جانوروں کو سجا کر اس کی پوجا کی جاتی ہے، اس طرح کے تہوار کو دیکھنے جانا یا کسی بھی طرح سے ان کے کاموں میں معاونت کرنا اس سے غیروں کی مشابہت لازم آئے گی۔ لھذا ایسے تمام کاموں سے شریعت نے سختی سے بچنے کا حکم دیا جس سے کفار کی ادنی مشابہت ہو تو ایسے تمام کاموں سے بچنا بےحد ضروری ہے۔
علامہ ابن حجر ھیثمیؒ فرماتے ہیں: ومِن أقْبَحِ البِدَعِ مُوافَقَةُ المُسْلِمِينَ النَّصارى فِي أعْيادِهِمْ بِالتَّشَبُّهِ بِأكْلِهِمْ والهَدِيَّةِ لَهُمْ وقَبُولِ هَدِيَّتِهِمْ فِيهِ وأكْثَرُ النّاسِ اعْتِناءً بِذَلِكَ المِصْرِيُّونَ وقَدْ قالَ ﷺ مَن تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنهُمْ۔ (الفتاوى الفقهية الكبرى: ٢١٦/٤)
علامہ ابن القیم جوزیؒ فرماتے ہیں: وأمّا التَّهْنِئَةُ بِشَعائِرِ الكُفْرِ المُخْتَصَّةِ بِهِ فَحَرامٌ بِالِاتِّفاقِ مِثْلَ أنْ يُهَنِّئَهُمْ بِأعْيادِهِمْ وصَوْمِهِمْ، فَيَقُولَ: عِيدٌ مُبارَكٌ عَلَيْكَ، أوْ تَهْنَأُ بِهَذا العِيدِ، ونَحْوَهُ، فَهَذا إنْ سَلِمَ قائِلُهُ مِنَ الكُفْرِ فَهُوَ مِنَ المُحَرَّماتِ (احکام اھل الذمة: ٤٤١/١)
امام نوویؒ فرماتے ہیں: وتحرم تهنئتهم وتعزيتهم اتباع لا ابتداع: ١/٢٣٢ (٥) المجموع
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
فقہ شافعی سوال نمبر / 1100
دعا کرتے وقت ہاتھ کی دونوں ہتھیلیوں کو ایک دوسرے سے ملا کر رکھنا ہے یا دونوں کے درمیان میں فاصلہ رکھنا ہے؟
دعا کے ہاتھ کی دونوں ہتھلیوں کو ایک دوسرے سے ملا کر رکھنا اور فاصلہ رکھنا دونوں طریقہ سنت ہے۔
علامہ شروانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں وتَحْصُلُ السُّنَّةُ بِرَفْعِهِما سَواءٌ كانَتا مُتَفَرِّقَتَيْنِ أمْ مُلْتَصِقَتَيْنِ وسَواءٌ كانَتْ الأصابِعُ والرّاحَةُ مُسْتَوِيَتَيْنِ أمْ الأصابِعُ أعْلى۔ (حاشية الشرواني: ٢/ ٦٧)
حاشية الجمل: ٢/ ٧١ نهاية المحتاج: ١/ ٥٠٦ بشري الكريم: ١/ ١٨٢ الحواشي المدنية: ١/ ٤٥٠
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)
فقہ شافعی سوال نمبر / 1099
دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کا کیا مسئلہ ہے؟
دعا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت کی دلیل ہے۔ دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے اور رسول اللہ ﷺ سے بھی جن جن موقعوں پر دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانا ثابت ہے (فرض اور سنت نمازوں کے بعد، دعائے قنوت و قنوت نازلہ، میت کی تدفین کے بعد، وغیرہ ) ان تمام موقعوں پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا مستحب ہے.
علامہ نووی رحمة اللہ عليه لکھتے ہیں : فَرْعٌ فِي اسْتِحْبابِ رَفْعِ اليَدَيْنِ فِي الدُّعاءِ خارِجَ الصَّلاةِ وبَيانِ جُمْلَةٍ مِن الأحادِيثِ الوارِدَةِ فِيهِ: اعْلَمْ أنَّهُ مُسْتَحَبٌّ لِما سَنَذْكُرُهُ إنْ شاءَ اللَّهُ تَعالى عَنْ أنَس أنَّ النَّبِيَّ صَلّى اللَّهُ تعالي عَلَيْهِ وسَلَّمَ اسْتَسْقى ورَفَعَ يَدَيْهِ وما فِي السَّماءِ قَزَعَةٌ فَثارَ سَحابٌ أمْثالُ الجِبالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ مِن مِنبَرِهِ حَتّى رَأيْتُ المَطَرَ يَتَحادَرُ مِن لِحْيَتِهِ ” رَواهُ البُخارِيُّ ومُسْلِمٌ ورَوَيا بِمَعْناهُ عَنْ أنَسٍ مِن طُرُقٍ كَثِيرَةٍ……. وفِي المَسْألَةِ أحادِيثُ كَثِيرَةٌ غَيْرُ ما ذَكَرْتُهُ وفِيما ذَكَرْتُهُ كِفايَةٌ والمَقْصُودُ أنْ يُعْلَمَ أنَّ مَن ادَّعى حَصْرَ المَواضِعِ الَّتِي ورَدَتْ الأحادِيثُ بِالرَّفْعِ فِيها فَهُوَ غالِطٌ غَلَطًا فاحِشًا واَللَّهُ تَعالى أعْلَمُ. (المجموع شرح المهذب: ٤٦٩/٣)
والصحيح: سن رفع يديه في القنوت؛ للاتباع رواه البيهقي بإسناد جيد، وكذا في كل دعاء (فتح الرحمن بشرح زبد بن رسلان :٢٨٥) بحر للمذهب :٢٠٣/٢ غاية البيان بشرح زبد ابن رسلان:١٣٥ بشري الكريم :١٩٤/١
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)
مولانا زكریا برماور ندوی صاحب