فقہ شافعی سوال نمبر/ 0213 اگر کوئی ایسی عورت عمره جانا چاہتی ہو جس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو بلکہ اس کی بہن اور بہنوئی ہو اور قافلہ میں مستورات كا ايک گروپ بھی ہو، تو كيا اس عورت كے لئے انكے ساتھ جانا جائز ہے يا نہیں؟
جواب:۔ تنہاعورت كے لئے فرض حج یا عمرہ کا سفر کرنا اس شرط کے ساتھ جائز ہے جب راستہ پر امن ہو اور عورت پر فرض حج یا عمرہ کا سفر واجب ہونے كے لئے شوہر، محرم يا ثقہ عورتوں كا ہونا ضرورى ہے، لہذا ایسی عورت کے لیے حج یا عمره فرض ہے چونكہ اسكے ساتھ ثقہ عورتوں کا گروپ بھی ہے اس اعتبار سے اس عورت كے لئے يہ سفر واجب ہے۔
امام خطيب الشربيني رحمة الله عليه: و في المرأة أن يخرج معها زوج أو محرم أو نسوة ثقات………وكذا يجوز لها الخروج وحدها إذا أمنت. (صحيح البخاري/٣٩٥٩) (مغني المحتاج/٢٣٣\٢)
Fiqhe Shafi Question No/0213 If a woman, who does not have any mahram, wishes to perform umrah but her sister and brother-in-law are with her and there is a group of women in the caravan then is it permissible for her to go along with them?
Ans; It is permissible for a woman to travel the journey of hajj or umrah alone with the condition that the route must be safe and the presence of husband or mahram or a group of women is compulsory… since the woman has a group of women with her, hajj or umrah is permissible.
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0254 بہت سے حضرات حالت احرام میں سلیپر کے علاوہ چمڑے کے ایسے چپل پہنتے ہیں جس میں پیر کا پچھلا حصہ کھلا رہتا ہے ۔ ایسے چپل پہننے کی گنجائش ہے یا نہیں؟
جواب:۔ حالت احرام میں ایسے چپل پہننا جائز ہے جو پیر کو ڈھانک رہے ہوں لیکن پیر کا پچھلا حصہ اور اُنگلیاں کھلی ہوئ ہوں اس لئے کہ یہ چپل پیروں کو چھپانے میں عام چپلوں کی طرح ہی ہے البتہ اگر وہ چپل ٹخنوں سے نیچے تک کا حصہ چھپائے ہوئے ہوں ایڑیاں مکمل طور پر چھپ گئ ہوں تو ایسے چپلوں کا استعمال صرف اس وقت جائز ہے جب کہ عام چپل میسر نہ ہوں اگر عام چپلوں کے ہوتے ہوئے بھی استعمال کرے تو دم لازم ھوگا.
قال ابن حجر الهيتمي. فالحاصل ان ما ظهر منه العقب ورؤوس الاصابع یحل مطلقا.لانہ کالنعلین سواء ومایسترالاصابع فقط او العقب فقط لا يحل الا مع فقد الاوليين.[تحفة المحتاج.٦٥/٢
Fiqhe Shafi Question No/254 Many people in the state of Ehram tend to wear a kind of leather sandals (other than slippers ) that leave the back part of their foot uncovered. Is it permissible to use these kind of footwear?
Ans; It is permissible to wear slippers that cover the foot but leave the fingers and back part of the foot uncovered because these footwears are similar to the common footwears that covers the foot.. However if the footwear covers the area below ankle and the entire heel is covered completely then it is permissible to wear such footwears only if normal slippers are not available.. Inspite of availablity of normal footwears, if he uses these kind of footwears then atonement (dam) will be obligatory on him…
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0630 اگر کسی نے فرض حج یا عمرہ نہ کیا ہو اور اس کے پاس صرف اتنی رقم ہو جس سے یا تو فرض حج یا عمرہ ممکن ہے، یا پھر دعوتی واصلاحی سرگرمیوں میں لگایا جاسکتا ہو تو ایسی صورت میں اسے کیا کرنا چاہے؟
جواب:۔ اگر کسی شخص پر فرض عمرہ باقی ہو، اور عمرہ کے بقدر اس کے پاس رقم موجود ہو تو اسے ایک مرتبہ فرض عمرہ کرنا ضروری ہے , نیز اگر وہ کسی دینی و دعوتی سرگرمیوں میں اس رقم کو لگانا چاہتا ہے، تو اس کو پہلے فرض عمره ادا کرنا ہوگا، اس لئے کہ امربالمعروف ونہی عن المنکر فرض کفایہ ہے اور عمرہ زندگی میں ایک مرتبہ فرض عین ہے اس کے ادا نہ کرنے پر اس پر قضاء واجب ہوتی ہے اگر فرض عین اور فرض کفایہ دونوں ایک ساتھ پیش آئیں تو فرض عین کو ادا کرنا افضل ہے۔
ومن فروض الكفاية……… و الامر بالمعروف و النهي عن المنكر. (نهايه المحتاج ٨/٣٨) من حج حجة ادی فرضه….. وكذا العمره فرض في الاظهر لقوله تعالى (واتموا الحج والعمرة لله) (مغني المحتاج ٢/٦٤١) ان فرض العين افضل لشدة اعتنائه الشارع به يقصد حصوله من كل مكلف في الأغلب۔ (حاشية البناني ١/١٨٤) (الموسوعة الفقهيه ٣٢/٩٧) (الحاوي الكبير :٤/٢٣) (المهذب:١/٦٤٣)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0629 اگر کسی شخص کا متعینہ تاریخ پر سفر حج طے ہوا لیکن اس تاریخ کو آفت سماوی کی وجہ سے سفر کینسل ہوجائے اور سفر کرنے میں جانی ومالی نقصان کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں سفر حج کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ اگر کسی کا متعینہ تاریخ پر سفر حج طے ہو لیکن اس دن آفت سماوی کی وجہ سے اس کا سفر کینسل ہوجائے اور سفر کرنے میں جانی ومالی نقصان کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اس پر سفر حج واجب نہیں ہے کیونکہ سفر حج کے لئے راستے کا پُرامن ہونا بھی ضروری ہے۔
الثالث. امن الطريق امنا لائقا بالسفر من سبع وعدو وسواء في البر والبحر والجو۔ (الفقه الشافعي الميسر1/379) الخامس. الإستطاعة الأمنية. أمن الطريق ولو ظنا علي نفسه وماله في كل مكان بحسب ما يليق به والمراد هو الأمن العام فلو خاف علي نفسه أو زوجه أوماله سبعا أو عدوا أو رصديا ولا طريق له سواه لم يجب الحج عليه لحصول الضرر. (موسوعة الفقه الإسلامي3 /98) الامر الثالث: الطريق. فيشترط أمن فيه ولو ظنا لائق بالسفر وإن لم يلق بالحضر علي النفس والبضع والمال ولو يسيرا. فلو خاف علي شيئ منها لم يلزمه نسك لتضره۔ (أسني المطالب2/ 292)