سوال نمبر/ 0121 لنگی پہن کر امامت کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جس لباس میں آدمی نماز پڑھ سکتا ہے اس میں امامت بھی کر سکتا ہے۔
نمازیوں کے لیے حکم خداوندی ہے اچھے کپڑے پہنیں، زیب و زینت کے ساتھ جائیں، با ادب با خشوع جائیں، کہ احکم الحاکمین کا دربار ہے۔
لباس کے سلسلے میں عرف کا اعتبار کیا جائےگا۔ جس ماحول میں لنگی مہذب لباس تصور ہوتی ہو، اور اس علاقے کے عام شرفا اس کو پہنتے ہوں تو اس لباس میں نماز پڑھنا پڑھانا دونوں صحیح ہیں۔
سوال نمبر/ 0122 جمعہ کے دن نماز کے لیے سر پر تیل ڈالنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب:۔صحیح بخاری کی روایت میں جمعہ کے دن سر پر تیل ڈالنے کا ذکر ملتا ہے، امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن نماز سے پہلے غسل کرنا، ناخن کتروانا، مسواک کرنا، خوشبو لگانا اور سر پر تیل ڈالنا بھی سنت ہے۔
حدیث میں چونکہ "یدھن” کا لفظ استعمال ہوا ہے حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے لفظ "یدھن” سے مراد تیل کے ذریعہ سر کے بکھرے ہوئے بالوں کو سیدھا کرنا لکھا ہےاور اس میں جمعہ کے دن تزیین کی طرف اشارہ ہے۔(صحیح بخاری/883)
————-
قال الامام النووي:
يستحب مع الإغتسال للجمعة أن ينتظف بإزالة أظفار وشعر…… وأن يتطيب و يدهن يتسوك. (المجموع:458/4)
قال الحافظ بن حجر: قوله "ويدهن” المراد به ازالة شعث الشعر به و فيه إشارة إلى التزيين يوم الجمعة۔(فتح الباري:388/3)
سوال نمبر/ 0123 زیرِناف (ناف کے نیچے) بالوں کے نکالنے کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
جواب:۔ دراصل زیرِناف کا لفظ کنایہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے،اور بخاری روایت میں اعانة کا لفظ حدیث استعمال ہوا ہے، اور عانۃ سے مراد وہ بال جو مرد اور مرد اور عورت کی شرمگاہ کے اوپر اور اس کے ارد گرد (اطراف) ہوتے ہیں، اور ابنِ عباس بن سریج سے منقول ہے کہ عانة سے مراد وہ بال جو پیچھےکی شرمگاہ کے اردگرد نکلتے ہیں، لھذا وہ تمام بال جو اگلی یا پچھلی شرمگاہ اور اسکے ارد گرد ہوتے ہیں ان کا حلق کرنا یعنی مکمل نکالنا مستحب ہے،اس اعتبار سے ناف کے نیچے کے بال بھی صاف کئے جا سکتے ہیں اس لئے کہ وہ بال بھی شرمگاہ کے اوپر کے حصہ میں ہوتے ہیں۔
————-
والمراد بالعانة الشعر الذي فوق ذكر الرجل وحواليه وكذاك الشعر الذي حواليه فرج المرأة، ونقل عن ابي العباس بن سريج أنه الشعر النابت حول حلقه الدبر فيحصل من جميع هذا استحباب حلق جميع ما على القبل والدبر و حواليه۔(شرح مسلم 492/1)
سوال نمبر/ 0124 اگر کسی شخص کو مسلسل ہوا خارج ہوتی ہے تو کیا اس دوران وضو کرکے نماز پڑھ سکتا ہے؟
جواب:۔ اگر کسی شخص کو مسلسل ہوا خارج ہوتی ہو تو ایسے شخص کے بارے میں فقہا فرما تے ہیں کہ وہ مستحاضہ کے حکم میں ہے چنانچہ امام نووی فرماتے ہیں کہ استحاضہ کا خون یہ دائمی حدث ہے جیسے کہ سلس البول یا مذی لهذا اسکو روزہ اور نماز سے روکا نہیں جائیگا بلکہ مستحاضہ اپنے خون کو دھوئیں گی اور پٹی باندھ کر نماز کے وقت وضو کرے گی۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کسی شخص کو مسلسل ہوا خارج ہوتی ہو تو وہ نماز کا وقت ہونے کہ بعد اگر لنگوٹ یا پٹی سے ہوا رک سکتی ہے تو اسکو باندھ کر وضو کرے اور نماز پڑھے۔ نیز اگر کھڑے رہنے کے مقابلے میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں ہوا رک سکتی ہے تو بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
قال النووي رحمة الله عليه
والاستحاضة حدث دائم كسلس فلا تمنع الصوم والصلاة فتغتسل المستحاضة فرجها و تعصبه وتتوضا وقت الصلاة۔(منهاج الطالبين 1/134)
قال سليمان الجمل
والسلس بولا أو غيره كالمذي والودي والريح كالاستحاضة (الجمل 1/378)
قال الشيخ المليبارى
ولعاجز شق عليه قيام بأن لحقه به مشقة شديدة بحيث لا تحتمل عادة…صلاة قاعدا كراكب سفينة… وسلس لا يستمسك حدثه إلا بالقعود (فتح المعين 143)
سوال نمبر/ 0125 دعائے قنوت یا قنوت نازلہ میں امام کے درود (وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقه سيدنا محمد وعلی آله و صحبه وبارك وسلم) پڑھنے پر مقتدی بھی اس درود پر صلی اللہ علیہ و سلم بڑے آواز سے پڑھتے ہیں اسکا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ دعائے قنوت اور قنوت نازلہ میں امام کے درود پڑھتے وقت مقتدی بھی درود پڑھ سکتے ہیں اور آمین بھی کہ سکتے ہیں دونوں کو جمع کرنا بہتر ہے۔ مگر صلی الله علیه و سلم آہستہ پڑھنا چاہیے، اگر کوئی بڑے آواز سے پڑھے تو نماز باطل نہیں ہوگی۔
————-
علامہ دمیاطی فرماتے ہیں
و قال فى شرح البهجة للجمال الرملى: ويتخير فى الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بين إتيانه وتامينه. ولو جمع بينهما فهو أحب (إعانة الطالبين1/256)
علامه جمل فرماتے ہیں
و فى العباب لو قرأ المصلى آية فيها اسم محمد صلى الله عليه وسلم ندب له الصلاة عليه فى الأقرب بالأمير كصلى الله عليه وسلم لا اللهم صل على محمد للإختلاف فى بطلان الصلاة بنقل ركن قولي۔(الجمل 2/35)
سوال نمبر/ 0126 کیا داڑھی اور سر کے بالوں کا کالا کرنا حرام ہے؟ اگر حرام ہے تو داڑھی اور سر کے بال کالا کرنے کی صورت میں نماز درست ہوگی یا نہیں؟ نیز اگر امام ایسا کرے تو اسکے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ سر اور داڑھی کے بالوں کو کالے رنگ کے ذریعہ خضاب کرنا حرام ہے۔ نیز اس طرح کا عمل مسلسل کرنے والے کی نماز درست تو ہوگی اور امام اگراسطرح کا عمل کرے تو اسکے پیچھے نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے۔ اگر امام نے ایسا خضاب لگایا ہو جسکے ذریعے بالوں تک پانی نہیں پہنچتا ہو تو ایسی صورت میں اس کا وضو اور غسل درست نہیں ہوگا اور ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں۔
اس طرح کا ایک واقعہ صحیح مسلم میں ملتا ہے جس کے راوی حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہیں فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے وقت ابو قحافہ کو لایا گیا درحالیکہ ان کا سر اور ڈاڑھی ثمامہ درخت کے مانند سفید ہوگیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان کے بالوں کو کسی چیز کے ذریعہ تبدیل کرو اور کالے رنگ سے بچو۔(مسلم/2102)
————–
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
ویحرم خضابه بالسواد على الأصح(شرح مسلم:2/266)
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
قال اصحابنا:الصلاة وراءالفاسق صحيحة ليست محرمة.لكنها مكروهة.(المجموع:4/222 )
امام
ويحرم تجعيده اى الشعر ونشر الأسنان… والخراب بالسواد (أسنى المطالب:1/35)
امام…
ومن يكرهه المامونين. لأمر يذم شرعا (العباب:1/265)
خطيب شربيني رحمة الله عليه فرماتے ہیں
ويجب إزالة ما فى شقوق الرجلين من عين كشمع وحناء (مغني المحتاج:1/93)
سوال نمبر/ 0127 اگرکسی شخص کے ہاتھ کی انگلیاں زائد ہو (چھ یا سات) تو وضوکرتے وقت زائدانگلی کودھونے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ اگر کسی کو پانچ انگلیوں کے ساتھ ایک زائد انگلی بھی ہو تو وضو میں اصل پانچ انگلیوں کے ساتھ زائدانگلی کو بھی وضو میں دھونا واجب ہے. ورنہ وضو درست نہیں ہوگا۔
—————
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
لو کان له ید ان من جانب فتارۃ تمیز الزائدہ عن الاصلیة. وتارۃ لا، فان تمیزت وخرجت من محل الفرض امامن الساعد وامامن المرافق، وجب غسلھامع الاصلیة کالاصبع الزائدہ، والسلعة سواء جاوز طولھا الاصلیة ام لا (روضۃ الطالبین :1/52)
سوال نمبر/ 0128 اگر کسی لڑکی کی عمر تقریبا 19/ سال ہو لیکن اب تک اسے حیض نہ آیا ہو اور نہ احتلام ہوا ہو، تو کیا ایسی لڑکی پر روزے اور نمازیں فرض ہیں؟
جواب:۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی بلوغت کے لیے تین علامتیں ہیں۔(1)حیض آجائے
(2)حاملہ ہوجائے،
(3)پندرہ سال کی عمر مکمل ہوجائے۔
اس میں سے کوئی ایک علامت پائی جائے تو وہ بالغ تصور کیا جائے گا، اس لڑکی میں تیسری علامت پائی جارہی ہے، لہذا ایسی لڑکی پر نمازیں اور روزے فرض ہوں گے.
————–
ویعرف البلوغ بامور… الثالث باستکمال الخامسة عشرۃ من العمر بالسنین القمریة اذا لم یحصل الاحتلام اوالحیض (الفقہ المنھجی1/77) (تحفۃ المحتاج2/262)
سوال نمبر/ 0129 قرآني آيات کو درخت یا بیل بوٹوں یا جانوروں کی صورت و شکل میں لکھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ قرآن مجید کی آیات کو حیوانی شکل و صورت یا اسکے علاوہ کسی اور شکل یا بیل بوٹے بناکر لکھنا جائز نہیں ہے اسلئے کہ اس میں قرآنی آیتوں کی توہین ہے اور حیوانی صورت بنانا تو مطلقا حرام ہے چہ جائے کہ اسے قرآنی آیات میں ڈھالا جائے۔ لہٰذا قرآن مجید کو حیوانی و دیگر شکل میں لکھنے کے بجائے صاف صاف لکھنا مستحب ہے تاکہ ہر کوئی اسے پڑھ کر اس میں تدبر کرسکے اور اس طرح نہ لکھا جائے کہ جس سے سامنے والے کو پڑھنے اور سمجھنے میں دشواری ہو اور خود لکھنے والے کو بھی مشقت ہوتی ہو ۔
————-
علامه ابن مزجد فرماتے ہیں:۔
يندب كتابة القرأن في المصاحف مثلا وإيضاحه ونقطه وشكله ۔ (العباب :1/107)
أمام سيوطي رحمة الله عليه فرماتے ہیں:۔
يستحب كتابة القرأن وتحسين كتابته وتبيينها وإيضاحها وتحقيق الخط دون مشقة وتعليقه فيكره وكذا كتابته في الشيء الصغير۔ (الإتقان :2/415)
وايضا:۔وقال الحليمي تكره كتابة الأعشار والأخماس وأسماء السور وعدد الآيات فيه لقوله (جردوا القرأن )
وأما النقط فيجوز لأنه ليس له صورة فيتوهم لأجلها ما ليس بقرأن قرأنا وإنما هي علي هيئة المقروء فلا يضر إثباتها لمن يحتاج إليها ‘(الإتقان :2/419)
Question No/0129 What is the ruling on designing quranic verses in the form of tree or shaped into animals or designs of other forms?
Ans; Writing Quranic verses in the form of different designs or shaping into animals is not permissible because this leads to disrespect of the verses of the holy Quran and drawing pictures of animals is although forbidden(haram)than shaping the verses of holy Quran in the form of pictures is above that..Therefore, instead of writing quranic verses in the form of designs or shaping it into animals, writing the verses in precised and clear manner is recommendable(mustahab) so that everyone could read and think about it and it should not be written in a form that would make it difficult for the reader to read and understand and even becomes difficult for the writing person himself in writing it…
سوال نمبر/ 0130 قرآن مجید کے وہ نسخےجو بہت زیادہ پھٹ گئےہو یا اس قدر پرانی ہو چکے ہوکہ جنکا استعمال مشکل ہو, اسی طرح وہ دینی کتابیں یا اخبار جسمیں دینی باتیں ہوں, ان کو جلانے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔قرآن مجید یا ایسی کتابیں جن میں اللہ تعالیٰ کا نام ہو آگ سے جلانا جائز ہے اس لئے کہ جلانے میں مصحف کا اکرام ہے اور پیروں تلے آنے سے حفاظت ہے۔ چونکہ دینی کتابوں میں اکثر قرآن کی آیتیں, احادیث شریفہ، اللہ اور رسول کے نام ہوتے ہے۔ لھذا ان کا احترام ضروری ہے اور انکے پھٹنے اور بوسیدہ ہونے پر جلانا یا ایسی جگہوں پر دفن کرنا جہاں پر لوگ چلتے پھرتے نہ ہوں یا دریا میں ڈالنا جائز ہے تاکہ انکی بےحرمتی نہ ہو۔بخاری شریف کی روایت میں بھی اس کی صراحت موجود ہے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آرمینیہ اور آذربیجان کی فتح کے وقت آئے اور قراءت کے اختلاف کا تذکرہ کیا… پھر ایک مصحف تیار کیا اور ہر جانب روانہ کیا اور اس مصحف کے علاوہ تمام صحیفوں اور مصحفوں کو جلانے کا حکم دیا۔(بخاری:4987)
قال ابن القيم :۔ في هذالحديث جواز تحريق الكتب التي فيها اسم الله بالنار وأن ذلك اكرام لها وصون عن وطئتها بالاقدام (فتح الباري:11/219)
قال الشربيني: ويكره احراق خشب نقش بالقرآن الا ان قصد به صيانة القرآن فلا يكره (مغني المحتاج 1/67)
وفي فتاوي بلد الحرام الواجب بعد الفراغ من المصحف والاوراق المذكورة (ای نجد بسم الله في بداية بعض الاوراق والرسائل ) حفظها او احراقها او دفنها في ارض طيبة صيانة للايات القرانية واسماء الله سبحانه من الامتهان ۔(فتاوي بلد الحرام: رقم 1063 ص:1021)