پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0361
والد اپنی حیات میں جائیداد تقسیم کرناچاہے توکیا اسے میراث میں متعینہ حصوں کے اعتبارسے تقسیم کرناچاہیے؟یامذکرومؤنث میں برابری شرط ہے؟
جواب: اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : مردوں کے لئے حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چهوڑ جاویں (سورہ نساء. .7)
مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد والدین کے انتقال پر ان کے چهوڑے ہوئے مال کی وارث ہوتی ہے.اسی وجہ فقہاء کرام نے وراثت تقسیم کرنے اوروارثین کااپنے مورث کے مال کامالک بننے کے لیے مورث(جس کی میراث ہے ) کا مرنا شرط قراردیا ہے لہذا مورث کی زندگی میں میراث تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے البتہ باپ اپنے زندگی میں هبہ، هدیہ،یا موجودہ مال سے کسی چیز کو خرید کر دینے کے ذریعہ تقسیم کرسکتاہےاور جب زندگی میں تقسیم کرے تو بیٹا اور بیٹی کے درمیان برار دینا سنت ہے اور زندگی میں کم زیادہ دینا مکروہ ہے لہذا اگر کوئ شخص اپنی زندگی میں میراث میں مقررحصوں کے اعتبارسے کمی زیادتی کے ساتھ تقسیم کرے تو اس کی بھی گنجائش ہے
وأمّا شُرُوطُ الإرْثِ فَهِيَ أرْبَعَةٌ أيْضًا: أوَّلُها: تَحَقُّقُ مَوْتِ المُورَثِ، …..(١)
فِي كَيْفِيَّةِ العَدْلِ بَيْنَ الأوْلادِ فِي الهِبَةِ، وجْهانِ. أصَحُّهُما: أنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ الذَّكَرِ والأُنْثى. (٢)
_____________(١) مغني المحتاج (١٠/٤)
(٢) روضة الطالبين (٣٧٩/٥)
*السراج الوهاج (٣٠٨)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0362
بچے کی پیدائش پر کوئی عورت بچے کے کان میں اذان دینا چاہے تو اسکی اجازت ہے یا نہیں ؟
جواب: حضرت ابورافع رض فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت حسن رض کی پیدایش کے وقت ان کے کان میں اذان دیتے ہوے دیکھا (سنن ترمذی :1514)
حضرت حسين بن علي رضي الله عنه فرماتے ہیں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا جس کسی کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو پھر وہ اسکے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے تو اسکو ام صبیا ( ایک قسم کی بیماری) نقصان نہیں پہونچائے گی (عمل الیوم واللیلة 623)
مذکورہ حدیث سےفقہاء نے استدلال کیا ہے بچے کے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت دینا سنت ہے نیز عورت کے اذان دینے سے بھی سنت حاصل ہوگی،لہذا عورت اذان دے سکتی ہے- (المجموع 334/8)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0363
نماز پڑھنے کے لیے عورتوں کا ستر کتنا ہے اگر ستر کهلا ہوتو نماز ہوگی؟
جواب: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی بالغہ کی نماز کو ستر کے ساتھ ہی قبول کرتے ہیں (أبو داؤد 641)
الله تعالى فرماتے ہیں : اور عورتیں اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اس میں سے جوحصہ ظاہر ہوتا ہے (سورہ نور 31)
علامہ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکها ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس الاماظھرکے متعلق فرماتے ہیں کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتهیلی ہے۔ کہ یہ دونوں عضونمازمیں سترنہیں ہیں. (تفسیرابن کثیر:6/145)
چنانچہ فقہاء کرام نے اس آیت وحدیث کی روشنی میں استدلال کیا ہے کہ عورت کے لئے نماز میں ستر مکمل بدن ہے سوائے چہرے اور ہتھیلی کے. لہذاان دونوں عضو کے علاوہ بدن کا کوئ عضویابعض حصہ کهلا رہا تو نماز صحیح نہیں ہوگی ۔
(المجموع166/3)
(فتح العزيز 4 / 83)
فان انكشف شئ من العورة مع القدرة لم تصح صلاته)
(المجموع166/3)
وعورة الحرة جميع بدنها الا الوجه واليدين إلى الكوعين وظهر القدم عورة في الصلاة (فتح العزيز 4 / 83)
(المجموع166/3)
(فتح العزيز 4 / 83)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0364
حاملہ سے وطی کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت جدامہ بنت وہب الأسدية رض فرماتی ہیں کہ انهوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : میں نے یہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو غیلہ سے منع کروں یہاں تک کہ مجهے اس بات کا علم ہوگیا کہ اہل روم اور فارس غیلہ کرتے ہیں لیکن ان کی اولاد کو کوئ نقصان لاحق نہیں ہوتا ہے (مسلم 3564)
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداءً غیلہ سے منع کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن جب کسی نقصان کو اس میں نہیں پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا اور علامہ ماوردی رح نے لفظ غیلہ کاایک مطلب حاملہ سے وطی کرنابیان کیا ہے لہذاحاملہ عورت سے وطی جائزہے.
البتہ فقہاء کرام نے یہ بات نقل کی ہے کہ اگر حاملہ عورت سے وطئ کرنے میں بچے کو کسی تکلیف کا اندیشہ نہ ہو تو جائز ہے لیکن اگر تکلیف کا اندیشہ ہو تو مکروہ ہے اور اگر غالب گمان ہوتو اس صورت میں وطئ کرنا حرام ہے. (نهاية المحتاج 6/209) (الحاوي الكبير11/199) (فتاوي اللجنة الدائمة18/247)
ونَهى عَنْهُ مَعَ قَوْلِهِ فِي الغِيلَةِ: «أرَدْتُ أنْ أنْهى عَنْها ثُمَّ عَرَفْتُ أنَّ الرُّومَ لا يَضُرُّهُمْ» يُرِيدُ فِي الحَمْلِ الحادِثِ مِنهُ فَدَلَّ ذَلِكَ مِن قَوْلِهِ ومِن إقْرارِهِ عَلى أنَّهُ لا يَتَنافى فِي اجْتِماعِ الحَيْضِ والحَمْلِ (الحاوي الكبير11/199)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0365
جس شخص کوپیشاب کے قطرے وقتافوقتاگرتے رہتے ہوں۔ ایساشخص احرام کی حالت میں انڈرویریالنگوٹ پہن سکتاہے یانہیں؟
جواب: اگرکسی شخص کو پیشاب کے قطروں کے نکلنے کامرض ہوتواس کے لیے حالت احرام میں پیشاب کے قطروں کوروکنے کے لئے کسی ایسی چیزکے استعمال کی گنجائش ہے جس سے اس کے پیشاب کے قطرے اس کے جسم اوراحرام کونہ لگ سکے،لہذااگر معمولی کپڑاباندھنے سے رک سکتے ہیں توپھراس سے بڑھ کرلنگوٹ یا کوئی اورچیزاستعمال نہیں کرسکتے،اس لئے کہ اصل پیشاب کے قطروں سے احرام اوربدن کوبچاناہے،اس اعتبار سے جس چیزسے یہ مقصدحاصل ہوسکتاہے اس کوچھوڑکرکسی اورچیزکےاستعمال کی گنجائش نہیں ہوگی.
اوربقدرضرورت کسی کپڑے یالنگوٹ کواستعمال کرنے کی صورت میں نہ اس پرفدیہ واجب ہوگااورنہ وہ فعل حرام کامرتکب ہوگا.
يباح للحاجة ولا حرمة فيه ولا فدية، وهو لبس السراويل؛ لفقد الإزار والخف المقطوع لفقد النعل، وعقد خرقة على ذكر سلس لم يستمسك بغير ذلك(١)
_____________(١)شرح المقدمة الحضرمية (٦٦٧/١)
*اعانة الطالبين (٢٠٥/٢)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0366
مطلق نفل نمازوں کو باجماعت پڑهنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت انس رض فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک دعوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے بعدمجھ سے فرمایاکہ کیامیں تم کونمازنہ پڑھاوں؟ توحضرت انس فرماتے ہیں کہ میں کھڑاہوگیاتوآپ نے نمازپڑھائی.میں اوربچے آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے اورعورتیں ہمارے پیچھے کھڑی ہوگئیں. (بخاری:380)
صاحب تحفۃ الاحوزی نے اس حدیث کے ضمن میں فرمایاکہ گھروں میں نفل نمازباجماعت پڑھناجائز ہے.مذکورہ دلیل کی بناء پرفقہاء فرماتے ہیں کہ مطلق سنت اوران سنت نمازوں کوجماعت کے ساتھ اداکرناجائزہے جن میں جماعت مسنون نہیں ہے.
قال الامام النووي : وضَرْبٌ) لا تُسَنُّ لَهُ الجَماعَةُ لَكِنْ لَوْ فَعَلَ جَماعَةٌ صَحَّ.. (١)
يُسَنُّ فُرادى كانَ أحْسَنَ، فَإنَّ السُّنَّةَ أنْ لا يَكُونَ فِي جَماعَةٍ وإنْ جازَ بِالجَماعَةِ بِلا كَراهَةٍ لِاقْتِداءِ ابْنِ عَبّاسٍ بِالنَّبِيِّ – ﷺ – فِي بَيْتِ خالَتِهِ مَيْمُونَةَ فِي التَّهَجُّدِ.. (٢)
_____________(١) المجموع (٥/٤)
(٢) مغني المحتاج (٤٥٠/١)
*تحفة الأحوذي (٢٤/٢)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0367
کسی کافر کے جنازے میں شرکت اور شمشان جانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ( جب میرے والدابوطالب کاحالت کفرمیں انتقال ہوا)تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اپنے والد کی تدفین کرو مجهے کچھ نہ کہو یہاں تک کہ تم واپس آجاو پهر میں گیا اور میں نے ان کی تدفین کی ،جب میں لوٹاتومجهے غسل کاحکم دیا اور دعا دی (سنن ابی داؤد 32144)
مذکورہ حدیث کی روشنی میں فقہاء کرام نے مطلقاً جنازے میں شرکت اورتدفین کی گنجائش نقل کی ہے.موجودہ زمانہ میں چوں کہ کفارکے یہاں تدفین کاتصورنہیں ہے. بلکہ جلانے کاتصورہے اس لیے
شمشان جانے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ شریعت مطهرہ کے متصادم ہے.اس لئے .اس سے احتیاط برتناضروری ہے.
في غسل الكافر ذكرنا أن مذهبنا أن للمسلم غسله ودفنه واتباع جنازته(المجموع 5 / 120)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر(0368)
اگر کوئی شخص مسجد کے باہر کهلے آسمان کے نیچے نماز پڑھ رہا ہو تو دوران نماز آسمان کی طرف دیکهنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں کو کیا ہوا کہ نماز میں آسمان کی طرف نگاہیں اٹهاتے ہیں یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گذری یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں کو چاہئے کہ اس طرح کرنے سے باز آجائیں ورنہ ان کی آنکھیں اچک لئی جائیں گی (بخاری 750 )
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ نماز میں نگاہیں آسمان کی طرف اٹهانا مکروہ ہے،لہذابغیرضرورت آسمان کی طرف نظراٹھانے سے احتیاط کرناچاہیے.
قال الامام النووي : ويُكْرَهُ أنْ يَرْفَعَ بَصَرَهُ إلى السَّماءِ لِما رَوى أنَسٌ أنَّ النَّبِيَّ ﷺ قالَ ما بالُ أقْوامٍ يَرْفَعُونَ أبْصارَهُمْ إلى السَّماءِ فِي الصَّلاةِ – (المجموع 4/97)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0369
بہت سی جگہوں پرمرغوں اوردیگرجانوروں کے مابین کشتی کرائی جاتی ہے.اس طرح کے جانوروں کی تجارت کاکیاحکم ہے؟
جواب: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا (أبو داؤد 2562)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جانوروں کو آپس میں لڑانا حرام ہے،اس لئے کہ اس میں جانوروں کو تکلیف پہنچائی جاتی ہے، اسی وجہ سے لڑاکامرغوں اوراس قسم کےدیگرجانوروں کی بیع کوحرام قراردیا گیاہے، اس لئے کشتی میں استعمال ہونے والے جانوروں کی بیع سے احتیاط برتناضروری ہے.
فَفِي الْمُشَابَكَةِ بِالْيَدِ وَجْهَانِ، وَلَا تَجُوزُ عَلَى مُنَاطَحَةِ الشِّيَاهِ، وَمُهَارَشَةِ الدِّيَكَةِ لَا بِعِوَضٍ وَلَا بِغَيْرِهِ.(١)
_____________(١) روضة الطالبين (٣٥١/١٠)
*اسنى المطالب (١٧٧/٤)
حاشية الجمل (٩٣/٤)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0370
حالت جنابت میں بدن کے کسی حصہ کے بال نکالنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت ابو ھریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے ایک راستے پر ان سے ملاقات کی اس حال میں کہ وہ جنبی تھے، پھر آپ وہاں سے لوٹ گئے، پھر غسل کرکے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:’تم کہاں تھے اے ابو ھریرة؟’ تو حضرت ابو ھریرة رضی اللہ عنہ نے کہا:’میں جنبی تھا، مجھے یہ پسند نہیں کہ میں آپ کے پاس بغیر پاکی کہ بیٹھوں’. تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سبحان اللہ! بے شک مسلمان نجس نہیں ہوتا’۔ (بخاری 283) (مسلم 371)
امام بخاری علیہ الرحمہ نے تعلیقا حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جنبی حجامت کرسکتا ہے، اور اپنے ناخن تراش سکتا ہے اور اپنے سر کے بال منڈھا سکتا ہے اگر چہ
کہ وضو بھی نہ کرے۔( بخاري 65/1)
امام نوویؒ نے اس حدیث (بے شک مسلمان نجس نہیں ہوتا) کی شرح میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ حدیث مسلمان کی زندگی اور مرنے کے بعد پاک ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ زندہ شخص بالاجماع پاک ہے۔ ( شرح مسلم 66/4)
جب یہ ثابت ہوگئی کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا تو اس کا پسینہ، لعاب اور آنسوں بھی پاک ہوں گے، چاہے وہ حالت جنابت ہی میں کیوں نہ ہو،ان دلائل کی بنیاد پر حالت جنابت میں بدن کے کسی حصہ کے بال اورناخن نکالنے کی اجازت ہوگی۔اورنکالنے پرگناہ بھی نہیں ہوگا
لیکن ائمہ شوافع میں امام غزالیؒ اور امام خطیب شربینیؒ نے فرمایا ہے کہ حالت جنابت میں بدن کے کسی حصہ کے بال نہ نکالنا بہتر ہے
إيصال الماء إلى جَمِيع) أجزاء (الشّعْر) ظاهرا وباطنا وإن كثف ويجب نقض الضفائر إن لم يصل الماء إلى باطِنها إلّا بِالنَّقْضِ لَكِن يُعْفى عَن باطِن الشّعْر المَعْقُود ولا يجب غسل الشّعْر النّابِت فِي العين أو الأنف وإن كانَ يجب غسله من النَّجاسَة لغلظها… (١)
_____________(١)الإقناع (٦٩/١)
*اسنى المطالب مع حاشية (٧٠/١)
امام نوویؒ نے اس حدیث (بے شک مسلمان نجس نہیں ہوتا) کی شرح میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ حدیث مسلمان کی زندگی اور مرنے کے بعد پاک ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ زندہ شخص بالاجماع پاک ہے۔ ( شرح مسلم 66/4)
جب یہ ثابت ہوگئی کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا تو اس کا پسینہ، لعاب اور آنسوں بھی پاک ہوں گے، چاہے وہ حالت جنابت ہی میں کیوں نہ ہو،ان دلائل کی بنیاد پر حالت جنابت میں بدن کے کسی حصہ کے بال اورناخن نکالنے کی اجازت ہوگی۔اورنکالنے پرگناہ بھی نہیں ہوگا
لیکن ائمہ شوافع میں امام غزالیؒ اور امام خطیب شربینیؒ نے فرمایا ہے کہ حالت جنابت میں بدن کے کسی حصہ کے بال نہ نکالنا بہتر ہے ۔( الاقناع (70/1) (وحاشية مع اسني المطالب 70/1)