حائضہ عورت کے لئے خطبہ سننے کے لیے عیدگاہ جاناجائز ہے یانہیں؟
جواب: حضرت ام عطيه رضي الله عنها فرماتي ہیں کہ رسول الله صلي الله وعليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بلوغت سے قریب اور پردہ والی عورتوں اور حائضه عورتوں کو عید میں نکالاگیا، پھر (حکم دیاگیاکہ)
حائضہ عورتیں مصلي (نمازپڑھنے کی جگہ ) سے دور رہیں۔ (تاکہ جگہ کشادہ ہوجاے) اورخیر کے کاموں اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر رہیں ( بخاري: 974)
مذکورہ حدیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ حائضہ عورت کے لئے خطبہ وغیرہ سننے کے لئے عید گاہ جانا جائز ہے.
البتہ نمازپڑھنے کی جگہ سے ہٹ کر ایک طرف بیٹھ کرخطبہ سننابہتر ہے.تاکہ تبا سالاگ ھنے والوں کوجگہ تنگ نہ ہوجاے. ( بحر المذهب 231/2)
وذوات الخدور والحيض، قالت أم عطيه ﵂: أما الحيض فكن يعتزلن المصلى ويشهدن الذكر ودعوة المسلمين، والعواتق: جمع عاتق وهي التي قاربت الإدراك، وقيل: هي المدركة ولأنه موضع ريبة واجتماع فاستحب إخراجهن لتكثير الجمع . بحر المذهب(٣/٢٣١)
سلام کرتے وقت السلام علیکم کے بعدورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ کا اضافہ کرنےکا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور فرمایا (السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ومغفرتہ )تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اس کے لئے چالیس نیکیاں ہیں (أبو داؤد 5196)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئ شخص سلام کا جواب دینے میں ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرته کا اضافہ کرتا ہے تو بہتر ہے (اس کے لئے السلام علیکم کہنے پر دس ورحمۃ اللہ پر دس وبرکاتہ پر دس، اور مغفرتہ پر دس اسے کل چالیس نیکیاں ملے گی سنن ابی داؤد کی اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے فقہائےکرام نے سلام میں مذکورہ الفاظ کااضافہ کرنا مشروع اور افضل لکھا ہے ۔ واللہ تعالی اعلم (إعانة الطالبين )
( قوله : وزيادة الخ) اي والافضل زيادة ورحمة الله وبركاته ومغفرته لما تقدم آنفا عن النووي . اعانة الطالبين(٤/٢٨٨)
غائبانہ نماز میں بیک وقت متعدد میت کی نیت کرکے نماز پڑهنا درست ہے یا نہیں؟
جواب: غائبانہ نماز میں بیک وقت متعدد میت کی نیت کرکے نماز پڑهنا درست ہے بلکہ مسنون ہے اس لئے کہ غائبانہ نماز میں میت کی تعیین شرط نہیں ہے (مغني المحتاج 2/28)
بعض لوگوں کے منہ سے دوران نیند رال نکلتی ہے اسکا کیا حکم ہے پاک ہے یا ناپاک؟
جواب: بعض لوگوں کے منہ سے دوران نیند رال نکلتی ہے اگر وہ رال معدہ سے نکلے یعنی اگر وہ پیلی اوربدبودار ہو توناپاک ہے،اس کے برعکس اگر معدہ سے نہ نکلے بلکہ منہ سے نکلے یااس بات میں شک ہو کہ معدہ سے نکلی ہے یا منہ سے تو یہ رال پاک ہے لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہے جس کی ہمیشہ معدہ سے رال نکلتی ہے تو فقہاء فرماتے ہیں کہ وہ معاف ہے اگر چہ زیادہ ہو.البتہ اسے بھی دھونامستحب ہے لیکن جسکی ہمیشہ رال نہیں نکلتی تو معاف نہیں ہے بلکہ دھونا ضروری ہے – (حاشية الجمل 274/1)
جو حضرات کشتی میں نوکری کرتے ہیں کیا وہ قصر کرسکتے ہیں اور ان کے حق میں جمعہ کاکیاحکم ہے؟
جواب: اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : جب تم زمین میں سفر کرو تو پر کوئ حرج نہیں ہے کہ تم نماز کو قصر اداء کرو (سورہ نساء 101)
فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ طویل سفر میں قصر کرنا جائز ہے چاہے وہ سفر سمندری سفرہو یازمینی سفرہو، اگر سمندری سفرکرنے والوں کا کسی جگہ چار دن سے زیادہ ٹهرنے کا قصد ہو یاعام طورپر جہاز کسی ساحل پرچار دن سے زیادہ لنگرانداز ہوتا ہوتو قصر جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس صورت میں وہ مسافرنہیں رہے گا،اور مسافر پر جمعہ ضروری نہیں ہے (البيان 2/450) (البيان 2/543)
وإذا كان ملاح في سفينة له، وكان فيها أهله، وماله، وولده، وهو يسافر في البحر، أحببت له ألا يقصر؛ لأنه في وطنه، وموضع إقامته، فإن قصر الصلاة جاز؛ لأنه مسافر). البيان(٢/٤٤٩)
اگرکسی شخص کے بال سرکی حدسے نکلے ہوے ہوں تووضومیں ان بالوں پرمسح درست ہوگایا نہیں؟
جواب: اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : "اپنے سروں کا مسح کرو” (سوره مائدة :6)
اس آیت کی روشنی میں فقہاء نے وضومیں سر یا ان بالوں کا مسح واجب قرار دیا ہے. جو سرکی حد میں ہیں .لہذا اگرکسی کے بال طویل ہونے کی وجہ سے آگے یاپیچھے سے سرکی حدسے باہرنکلے ہوں اوروہ شخص سرپرمسح کے بجاے صرف سرکی حدکے باہران بالوں پرمسح کرے تووضودرست نہیں ہوگا. (مغني المحتاج 1/176)
اگرکتاکسی گھریامسجدمیں داخل ہوکرفورانکل جاے توکیااس جگہ کوپاک کرناضروری ہے یانہیں؟
جواب: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈالے تو اسے سات مرتبہ دهوئے جس میں ایک مرتبہ مٹی کااستعمال کیاجاے (سنن ابی داود:71)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال کرزبان سے پانی پیے یازبان سے کسی چیزکوچاٹے توسات مرتبہ دھوناضروری ہے جس میں ایک مرتبہ مٹی کے پانی سے دھوناضروری ہے.اس سے پتہ چلاکہ کتے کی نجاست کی بنیاد اوراعتباراس کے تراورگیلے ہونے پرہے.لہذااگر کسی کے گهر میں داخل ہوتو دیکها جائے گا اگر کتا اور گهر کی زمین دونوں خشک ہوتو اس صورت میں گهر کو دهویا نہیں جائے گا اور اگر دونوں میں سے کوئی بھی تر ہوتو ایسی صورت میں زمین کو پاک کرنا ضروری ہے.البتہ پانی بہالیاجاے توبہترہے.
فهكذا لو ماس الكلب ثوبا رطبا او ماس ببدنه الرطب ثوبا يا بسا اووطئ برطبة رجله على ارض او بساط كان كالولوغ في وجوب غسله سبعا فيهن مرة بالتراب . الحاوي الكبير (١/٣١٥)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0378 احرام کی حالت میں پردہ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:۔ احرام کی حالت میں عورتوں کو چہرے کو کهلا رکهنا ضروری ہے لہذا اگرکوئی عورت اس حالت میں پردہ کرنا چاہے توایسی ٹوپی وغیرہ پہن کراس پرنقاب اس طرح لٹکاے کہ وہ چہرے کو نہ لگے .نیز اس حالت میں کوئی فدیہ بهی واجب نہیں ہوگا۔ (روضة الطالبین وعمدة المفتين 3 / 127)
Fiqhe Shafi Question No/0378 What is the method of veiling oneself in the state of Ihram?
Ans; It is necessary for women to keep their faces uncovered in the state of Ihram.. Therefore if a woman wishes to veil herself in this state then she must wear a cap to which she must attach a veil in such a way that it should not touch her face and she doesn’t have to pay fidya in this state..
مور اور اس جیسے جانور جو کهائے نہیں جاتے ان کے انڈے کهانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: مور اور اس جیسے جانور جو کهائے نہیں جاتے راجح قول کے مطابق کے انڈے کهانا جائز ہے اس لئے کہ وہ پاک ہے اور ان کے کهانے میں کسی قسم کی گهن محسوس نہیں ہوتی ہے
وإذا قلنا بطهارة ببض مالا يؤكل لحمه جاز أكله بلا خلاف لأنه غير مستقذر (المجموع 2 / 556)
کیا نماز میں چهینکنے کے بعد الحمد للہ اوراس کےجواب میں یرحمک اللہ کہنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
جواب: مسلم شریف اور طبرانی کی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ اگرکوئی نماز میں چھینک آنے پرالحمدللہ کہے تواس سے نمازباطل نہیں ہوگی. لیکن جواب میں یرحمک اللہ کہنادرست نہیں ہے.اس لیے کہ بات کرنے سے نماز ٹوٹ ہوجاتی ہے چوں کہ نماز میں چهینک کا جواب یرحمک اللہ کہنا سامنے والے سے بات کرنا کی طرح ہے البتہ اگر کوئی يرحمه اللہ کہے تو نماز باطل نہیں ہوگی۔واضح رہے سورہ فاتحہ کے دوران الحمدللّٰہ اور اسکے جواب میں یرحمہ اللہ نہیں کہنا چاہیے ورنہ سورہ فاتحہ دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا
(مسلم :537) (طبرانی :4532) (تحفة المحتاج مع حواشي الشرواني 2 / 148) (نهاية المحتاج 2 / 47)
(و لا تبطل بالذكر والدعاء)…..(الا ان يخاطب)…..(كَقَوْلِهِ لِعاطِسٍ رَحِمَك اللَّهُ) لِأنَّهُ مِن كَلامِ الآدَمِيِّينَ حِينَئِذٍ كَعَلَيْك السَّلامُ بِخِلافِ رحمه الله وعَلَيْهِ لِأنَّهُ دُعاءٌ ويُسَنُّ لِمُصَلٍّ عَطَسَ أوْ سُلِّمَ عَلَيْهِ أنْ يَحْمَدَ بِحَيْثُ يَسْمَعُ نَفْسَهُ.
تحفة المحتاج:١/٢٣١,٢٣٢
والتَّشْمِيتُ بِقَوْلِهِ يَرْحَمُهُ اللَّهُ لِانْتِفاءِ الخِطابِ، ويُسَنُّ لِمَن عَطَسَ أنْ يَحْمَدَهُ ويُسْمِعَ نَفْسَهُ خِلافًا لِما فِي الإحْياءِ وغَيْرِهِ.
نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج ٢/٤٧