منگل _3 _جولائی _2018AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0611
اگر کوئی شخص چاہے منفرد ہو یا امام بھول کر تیسری یا چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ پڑھ لے تو سجدہ سھو کرنا ہے یا نہیں؟
جواب:۔ تین اور چار رکعت والی نماز میں ابتدائی دو رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنا بالاتفاق مسنون ہے۔ البتہ تیسری اور چوتھی رکعت میں سورت پڑھنے کے بارے میں مفتی بہ قول سنت نہ ہونے کا ہے البتہ کوئی پڑھ لے تو جائز ہے اس لئے کہ بسا اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بیان جوازکے لئے پڑھنا ثابت ہے لہذا اگر کوئی تیسری یا چوتھی رکعت کے قیام میں کوئی سورت پڑھ لے تو سجدہ سہو سنت نہیں ہے اس لئے کہ سجدہ سہو کے اسباب میں یہ صورت داخل نہیں ہے۔ہاں اگر سورت کو اس کے محل سے منتقل کرکے سجدہ رکوع یا تشہد میں پڑھ لے تو سجدہ سہو کرنا سنت ہے۔
وَقَوْلُهُ سَمِعْنَا الْآيَةَ أَحْيَانًا أَيْ فِي نَادِرٍ مِنْ الْأَوْقَاتِ وَهَذَا مَحْمُولٌ عَلَى أَنَّهُ لِغَلَبَةِ الِاسْتِغْرَاقِ فِي التَّدَبُّرِ يَحْصُلُ الْجَهْرُ بِالْآيَةِ مِنْ غَيْرِ قَصْدٍ أَوْ أَنَّهُ فَعَلَهُ لِبَيَانِ جَوَازِ الْجَهْرِ وَأَنَّهُ لا تبطل الصلاة ولا يقضي سُجُودَ سَهْوٍ أَوْ لِيُعْلِمَهُمْ أَنَّهُ يَقْرَأُ أَوْ أَنَّهُ يَقْرَأُ السُّورَةَ الْفُلَانِيۃ المجموع 3/386 أَمَّا الْأَحْكَامُ فَهَلْ يُسَنُّ قِرَاءَةُ السُّورَةِ فِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ وَالرَّابِعَةِ فِيهِ قَوْلَانِ مَشْهُورَانِ (أَحَدُهُمَا) وَهُوَ قَوْلُهُ فِي الْقَدِيمِ لَا يُسْتَحَبُّ قَالَ الْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ وَنَقَلَهُ الْبُوَيْطِيُّ وَالْمُزَنِيُّ عَنْ الشَّافِعِيّ
(وَالثَّانِي) يُسْتَحَبُّ وَهُوَ نَصُّهُ فِي الْأُمِّ وَنَقَلَهُ الشَّيْخُ أَبُو حَامِدٍ وَصَاحِبُ الْحَاوِي عَنْ الْإِمْلَاءِ أَيْضًا وَاخْتَلَفَ الْأَصْحَابُ فِي الْأَصَحِّ مِنْهُمَا فَقَالَ أَكْثَرُ الْعِرَاقِيِّينَ الاصح الاستحباب ممن صحه الشَّيْخُ أَبُو حَامِدٍ وَالْمَحَامِلِيُّ وَصَاحِبُ الْعُدَّةِ وَالشَّيْخُ نَصْرُ الْمَقْدِسِيُّ وَالشَّاشِيُّ وَصَحَّحَتْ طَائِفَةٌ عَدَمَ الِاسْتِحْبَابِ وَهُوَ الْأَصَحُّ وَبِهِ أَفْتَى الْأَكْثَرُونَ (المجموع 386 /387) إلا إن قرأ* الفاتحة أو السورة *في غير محل للقراءة [كالركوع]* وجلوس التشهد………. *فيسجد لذلك* وإن لم يبطل عمده…… *سواء فعله سهوا أو عمدا* بشرى الكريم 237 وقضية كلام المصنف أن التسبيح ونحوه من كل مندوب قولي مختص بمحل لا يسجد لنقله إلى غير محله واعتمده بعضهم لکن اعتمدہ الاسنوی وغیرہ انہ لافرقال منهاج القويم: ١٣٠
اتوار _8 _جولائی _2018AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0612
*کسی حائضہ اور جنبی شخص کے لئے قرآن مجید پڑھے بغیر صرف اسے دیکھنے اور اس میں غور و فکرکرنے کا شرعا کیا حکم ہے؟*
*کسی حائضہ اور جنبی شخص کے لئے قرآن مجید کی تلاوت کے بغیر صرف قرآن کو دیکھنا اور اس کے معنی میں تدبر کرنا شرعا درست ہے۔ اسی طرح حائضہ اور جنوبی شخص کے سامنے کسی دوسرے کا قرآن مجید کی تلاوت کرنا بھی درست ہے۔*
*ﻭﻫﻜﺬا ﻟﻮ ﻧﻈﺮا ﻓﻲ اﻟﻤﺼﺤﻒ ﺃﻭ ﻗﺮﺉ ﻋﻠﻴﻬﻤﺎ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻛﺎﻥ ﺟﺎﺋﺰا ﻟﻬﻤﺎ "* (الماوردي في الحاوي الكبير : 149/1) *ﻭﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﻨﻈﺮ ﻓﻲ اﻟﻤﺼﺤﻒ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺗﻼﻭﺓ، ﻭﺃﻥ ﻳﻘﺮﺃ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﻫﻮ ﺳﺎﻛﺖ؛ ﻷﻧﻪ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ اﻟﺤﺎﻟﺔ ﻻ ﻳﻨﺴﺐ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﺮاءﺓ.* (الفقه الاسلامي وادلته للزحيلي 1/539)
پیر _9 _جولائی _2018AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0613
بسا اوقات عین نماز کے وقت اس قدر شدید بارش شروع ہوجاتی ہے کہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا دشوار ہوجاتا ہے تو کیا ایسی صورت میں جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے ؟
جواب:۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے سخت ٹھنڈی اور ہوا کے وقت نماز کے لئے آذان دئی اور کہا کہ اپنے گھروں میں نماز اداء کرو ۔ پھر فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم موذن کو حکم دیا کرتے تھے کہ جب سخت ٹھنڈی یا ہوا چلے تو کہا کرو کہ آپنے گھروں میں نماز پڑھو۔
(بخاری:666) اس حدیث کی روشنی میں فقہاء فرماتے ہیں کہ دن یا رات میں ایسی سخت بارش ہو یا رات کی تاریکی میں تیز ہوا چل رہی ہو یا شدید کیچڑ ہو کہ جماعت کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنا دشوار ہو تو ان اعذار کی بناء پر جماعت کے چھوڑنے کی اجازت ہے۔ البتہ اگر سواری کا معقول نظم ہو جس سے بآسانی جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لئے پہنچنا ممکن ہو تو جماعت ترک نہیں کرنی چاہیے۔
(في حديث عمرو بن العاص) عبارة لما روي عنه أنه قال: احتلمت في ليلة باردة في غزوة ذات السلاسل فأشفقت أي خفت أن أغتسل فأهلك فتيممت وصليت بأصحابي الصبح فذكروا ذلك للنبي – صلى الله عليه وسلم – فقال: «يا عمرو صليت بأصحابك وأنت جنب فأخبرته الذي منعني من الاغتسال وقلت: إني سمعت الله يقول: {ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما} [ النساء: 29] فضحك -صلى الله عليه وسلم- ولم يقل شيئا» . اهـ قال حج، قوله – صلى الله عليه وسلم – لعمرو: صليت صريح في تقريره على إمامته ﻳﺠﻮﺯ ﺗﺮﻙ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻟﻠﻌﺬﺭ، ﺳﻮاء ﻗﻠﻨﺎ: ﺇﻥ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻓﺮﺽ ﻋﻠﻰ اﻟﻜﻔﺎﻳﺔ، ﺃﻭ ﺳﻨﺔ. ﻭاﻟﻌﺬﺭ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﺿﺮﺑﺎﻥ: ﻋﺎﻡ، ﻭﺧﺎﺹ. ﻓﺄﻣﺎ اﻟﻌﺎﻡ: ﻓﻤﺜﻞ: اﻟﻤﻄﺮ، ﻭاﻟﺮﻳﺢ ﻓﻲ اﻟﻠﻴﻠﺔ اﻟﻤﻈﻠﻤﺔ (البيان 2/368) ﺃﻥ اﻟﻤﻄﺮ ﻭﺣﺪﻩ ﻋﺬﺭ ﺳﻮاء ﻛﺎﻥ ﻟﻴﻼ ﺃﻭ ﻧﻬﺎﺭا ﻭﻓﻲ الوﺣﻞ ﻭﺟﻬﺎﻥ (اﻟﺼﺤﻴﺢ) اﻟﺬﻱ ﻗﻄﻊ ﺑﻪ اﻟﻤﺼﻨﻒ ﻭاﻟﺠﻤﻬﻮﺭ ﺃﻧﻪ ﻋﺬﺭ ﻭﺣﺪﻩ ﺳﻮاء ﻛﺎﻥ ﺑﺎﻟﻠﻴﻞ ﺃﻭ اﻟﻨﻬﺎﺭ (المجموع4/204) ﻗﺎﻝ اﻟﻤﺼﻨﻒ رحمة الله عليه ﻭﺗﺴﻘﻂ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﺑﺎﻟﻌﺬﺭ ﻭﻫﻮ ﺃﺷﻴﺎء ﻣﻨﻬﺎ اﻟﻤﻄﺮ ﻭالوﺣﻞ ﻭاﻟﺮﻳﺢ اﻟﺸﺪﻳﺪﺓ ﻓﻲ اﻟﻠﻴﻠﺔ اﻟﻤﻈﻠﻤﺔ ﻭاﻟﺪﻟﻴﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﺎ ﺭﻭﻯ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ ﻗﺎﻝ ” ﻛﻨﺎ ﺇﺫا ﻛﻨﺎ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﺳﻔﺮ ﻭﻛﺎﻧﺖ ﻟﻴﻠﺔ ﻣﻈﻠﻤﺔ ﺃﻭ ﻣﻄﻴﺮﺓ ﻧﺎﺩﻯ ﻣﻨﺎﺩﻳﻪ اﻥ ﺻﻠﻮا ﻓﻲ ﺭﺣﺎﻟﻜﻢ۔ (المجموع 4/203)
منگل _10 _جولائی _2018AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0614
اگر مرض یا سردی کی وجہ سے کوئی شخص تیمم کرکے امامت کرے تو اس کی اقتداء میں وضو کرکے نمازپڑھنے والوں کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟
جواب:۔ اگر کوئی امام کسی عذر یا مرض کی بناء پر تیمم کرکے ایسے لوگوں کو نماز پڑھانے جو وضو یا تیمم کرکے نماز ادا کر رہے ہیں تو ایسی صورت میں مقتدیوں کی نماز درست ہوجائے گی۔
ويجوز أن يصلي المتوضئ خلف المتيمم. وقال علي بن أبي طالب رضي الله عنه
(إنه لا يجوز ذلك) دليلنا:حديث عمرو بن العاص الذي ذكرناه في (التيمم) (البيان 2/403) قال المصنف رحمة الله عليه: ويجوز للمتوضئ ان يصلى خلف المتيمم لانه اتى عن طهارته ببدل فهو كمن غسل الرجل (المجموع : 263/4)
بدھ _11 _جولائی _2018AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0615
امام کی سلام کے بعد کسی مسبوق شخص کو ہاتھ کے اشارہ سے امام بنا کر اس کی اقتداء نماز پڑھنے کا شرعا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ کسی بھی مسبوق شخص کو جب وہ اپنی بقیہ نماز ادا کر رہا ہو تو ایسے شخص کی اقتداء میں نماز ادا کرنا درست ہے۔ لیکن اس طرح کرنا مکروہ ہے۔ البتہ مکروہ ہونے کی وجہ سے جماعت کا پورا ثواب بھی نہیں ملے گا۔ اگر دو یا اس سے زیادہ لوگ ہوں تو مسبوق کی اقتداء کے بجائے الگ سے جماعت بناکر نماز ادا کرنا زیادہ بہتر ہے۔
وخرج بمقتد ما لو انقطعت القدوة كأن سلم الإمام فقام مسبوق فاقتدى به آخر أو مسبوقون فاقتدى بعضهم ببعض فتصح في غير الجمعة على الأصح لكن مع الكراهة. نهاية المحتاج: ١٦٨/٢ (قوله لكن مع الكراهة) ظاهر في الصورتين وعليه فلا ثواب فيها من حيث الجماعة حاشية الشبراملسي ١٦٧/٢
اتوار _15 _جولائی _2018AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0616
اگر کوئی نماز سے پہلے مسواک کرنا بھول جائے اور دوران نماز یاد آجاۓ تو کیا وہ مسواک کرسکتا ہے؟
جواب :۔اگر کوئی شخص نماز سے پہلے مسواک کرنا بھول جائے اور دوران نماز یاد آنے پر مسواک کرنا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ نماز میں عمل کثیر یعنی زیادہ حرکت نہ ہو۔
لو تركه اولها سن له تداركه اثنائها بفعل قليل كما يسن له دفع المار بين يديه.(تحفة المحتاج:1/77)
پیر _16 _جولائی _2018AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0617
وضو کرتے وقت وضو ٹوٹ جائے تو جن اعضاء کا وضو ہوچکا ہو ان کو دوبارہ دھونا ضروری ہوگا یا بقیہ وضو مکمل کرے گا؟
جواب:۔ وضو کے دوران اگر کسی کو حدث لاحق ہوجائے یعنی وضو ٹوٹ جائے تو وضو کو شروع سے کرنا ضروری ہے بقیہ اعضاء کو دھونے سے وضو مکمل نہیں ہوگا۔
واذا وضأ الرجل وجهه ويديه ثم احدث إستأنف الوضوء۔ (كتاب الام ٦٩/٢) طهارة بعض الاعضاء إذا انتقضت هل ينتقض الباقي؟ ان قلنا ينتقض إستأنف الوضوء۔ (المجموع ٥٨٩/١)
منگل _17 _جولائی _2018AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0618
اگر بائع (بیچنےوالا) سامان بیچتے وقت مشتری(خریدنے والا) سے یہ کہے کہ یہ چیز میں تم کو بیچ رہا ہوں اس شرط پر کہ تم مجھے اپنی فلاں چیز بیچ دو تو اس طرح کی خرید و فروخت کا کیا مسئلہ حکم ہے؟
جواب : اگر خرید و فروخت کرتے وقت کوئی ایسی شرط رکھی جائی جس کا خرید و فروخت سے تعلق نہ ہو(مثلا: بیچنے والا خریدنے والے سے یہ کہے میں تمھیں یہ چیز بیچ رہاہوں بشرط یہ کہ تم مجھے اپنی فلاں چیز بیچ دو گی یا اس طرح کی کوئی اور شرط رکھے) تو ایسا کرنا درست نہیں ہے
وان شرط في البيع شرطا يقتضيه العقد كالتسليم …………..لم يفسد العقد وان شرط ما فيه مصلحة للعاقد كخيار الثلاث ……لم يفسد العقد ……
وان شرط ما سوى ذلك مما ينافي موجب العقد وليس فيه مصلحة كبيع الدابة بشرط أن يركبها أو بيع الدار بشرط أن يسكنها شهرا لم يصح العقد…. (التنبيه في الفقه الشافعي ص 90)
اتوار _22 _جولائی _2018AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0619
اگر کوئی شخص سفر میں ہو یا کسی دینی کام کے لیے دوسرے مقام پر گیا ہوا ہو تو اس شخص کےلئے قر بانی کا کیا حکم ہے؟اور ایسا شخص اپنی قربانی کس جگہ کرے گا؟
جواب:۔ اگر کوئی شخص سفر میں ہو یا کسی دینی کام کے لیے دوسری جگہ گیا ہوا ہو اور اس جگہ پر قربانی کرسکتا ہو تو اس مسافر یا مبلغ کےلئے قربانی کرنا سنت موکدہ ہے اور قربانی کرنے کےلئے جگہ متعین نہیں ہے، البتہ اپنے شہر میں قربانی کرنا افضل ہے ۔
أنها سنة مؤكدة وليست بواجبة علي مقيم ولا مسافر ……… وكان ذبحها في بلده أفضل وفي غير بلده جائز۔ (الحاوي الكبير جلد75/15-115)
اتوار _22 _جولائی _2018AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0620
کیا گونگے جانور کی قربانی کرنا جائز ہے؟
جواب:۔ اگر کوئی جانور گونگا ہو اس طور پر کہ کبھی اس کی آواز سنی نہیں گئی ہو تو اس جانور کی قربانی کرنا جائز ہے۔فقہاءکرام نے مزید اس بات کی وضاحت کی ہے کہ قربانی کے جانور کا گونگا ہونے سے اس کی خوبصورتی پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا نیر قربانی سے جانور کا گوشت ہڈی وغیرہ مقصود ہے، جانور کا بات کرنا ضروری نہیں۔
أربع لا تجزئ في الأضاحي : العوراء البين عورها، والمريضة البين مرضها، والعرجاء البين عرجها، والعجفاء التي لا تنقي…..
لأن المقصود من الأضحية اللحم أو نحو۔. (مغني المحتاج/ كتاب الاضحيه/جلد ٧)