اتوار _19 _مئی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0731
اگر عشاء کی نماز چھوٹ جائے تو کیا تراویح کی جماعت میں عشاء کی نماز پڑھ سکتے ہیں اور اس کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:۔ اگر کسی کی عشاء کی جماعت فوت ہوجائے تو افضل یہ ہے کہ وہ الگ سے پڑھ لے لیکن اگر کوئی شخص تراویح کی نماز میں امام کی اقتدا میں عشاء کی نماز پڑھے تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، اور جب دو رکعت کے بعد امام سلام پھیرے تو وہ شخص بقیہ دو رکعت کے لیے کھڑا ہوگا، اولی یہ ہے کہ باقی دو رکعت منفرد ہی ادا کرے لیکن اگر وہ بقیہ دو رکعت بھی تراویح کے امام کے ساتھ ادا کرنا چاہے تو امام کی سلام کے بعد کھڑا ہوکر انتظار کرے گا اور جب امام تراویح کی دو رکعت شروع کرے تو دل میں اقتداء کی نیت کرکے باقی دو رکعت امام کے ساتھ مکمل کرلے۔
وَتَصِحُّ صَلَاةُ الْعِشَاءِ خَلْفَ مَنْ يُصَلِّي التَّرَاوِيحَ كَمَا لَوْ اقْتَدَى فِي الظُّهْرِ بِالصُّبْحِ. فَإِذَا سَلَّمَ الْإِمَامُ قَامَ إلَى بَاقِي صَلَاتِهِ وَالْأَوْلَى أَنْ يُتِمَّهَا مُنْفَرِدًا، فَإِنْ اقْتَدَى بِهِ ثَانِيًا فِي رَكْعَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ مِنْ التَّرَاوِيحِ جَازَ كَمُنْفَرِدٍ اقْتَدَى فِي أَثْنَاءِ صَلَاتِهِ بِغَيْرِهِ.١ وَتَصِحُّ الْعِشَاءُ خَلْفَ مَنْ يُصَلِّي التَّرَاوِيحَ إلَخْ) تَحْصُلُ لَهُ فَضِيلَةُ الْجَمَاعَةِ بِصَلَاتِهِ الْعِشَاءَ، أَوْ نَحْوَهَا خَلْفَ التَّرَاوِيحِ وَعَكْسُهُ وَبِصَلَاةِ الصُّبْحِ، أَوْ نَحْوِهَا ٢ وَلَوْ صَلَّى الْعِشَاءَ خَلْفَ التَّرَاوِيحِ جَازَ فَإِذَا سَلَّمَ الْإِمَامُ قَامَ إلَى رَكْعَتَيْهِ الْبَاقِيَتَيْنِ وَالْأَوْلَى أَنْ يُتِمَّهَا مُنْفَرِدًا فَلَوْ قَامَ الْإِمَامُ إلَى أُخْرَيَيْنِ مِنْ التَّرَاوِيحِ فَنَوَى الِاقْتِدَاءَ بِهِ ثَانِيًا فِي رَكْعَتَيْهِ فَفِي جَوَازِهِ الْقَوْلَانِ فِيمَنْ أَحْرَمَ مُنْفَرِدًا ثُمَّ نَوَى الِاقْتِدَاءَ الْأَصَحُّ الصِّحَّةُ۳. (ﺗﺼﺢ ﻗﺪﻭﺓ اﻟﻤﺆﺩﻱ ﺑﺎﻟﻘﺎﺿﻲ، ﻭاﻟﻤﻔﺘﺮﺽ ﺑﺎﻟﻤﻨﺘﻔﻞ ﻭﻓﻲ اﻟﻈﻬﺮ ﺑﺎﻟﻌﺼﺮ ﻭﺑﺎﻟﻌﻜﻮﺱ) ﺃﻱ ﺑﻌﻜﺲ ﻛﻞ ﻣﻤﺎ ﺫﻛﺮ ﻧﻈﺮا ﻻﺗﻔﺎﻕ اﻟﻔﻌﻞ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺗﻴﻦ، ﻭﺇﻥ ﺗﺨﺎﻟﻔﺖ اﻟﻨﻴﺔ، ﻭاﻻﻧﻔﺮاﺩ ﻫﻨﺎ ﺃﻓﻀﻞ، ﻭﻋﺒﺮ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﺑـ’ﺄﻭﻟﻰ’ ﺧﺮﻭﺟﺎ ﻣﻦ اﻟﺨﻼﻑ ١) تحفة المحتاج. ٣٣٥/٢٢) اسني المطالب. ٢٢٧/١٣) المجموع ٢٧٠/٤٤)تحفة المحتاج:. ٢/٢٣٢
جمعہ _24 _مئی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0732
کیا تراویح کی نماز میں تراویح کی نیت ہر دو دو رکعت کے لیے کی جائے گی یا مطلقا بیس رکعت کے لیے ایک ہی مرتبہ نیت کی جائے گی؟
جواب:۔ تراویح کی نماز میں ہر دو دو رکعت کے لیے تراویح کی نیت کی جائے گی مطلقا بیس رکعت کی یا چار رکعت کی نیت کرنا درست نہیں، اگر کسی نے چار رکعت ایک ہی سلام کے ساتھ مکمل کی تو نماز درست نہیں ہوگی.
وَلَا تَصِحُّ بِنِيَّةٍ مُطْلَقَةٍ كَمَا فِي الرَّوْضَةِ بَلْ يَنْوِي رَكْعَتَيْنِ مِنْ التَّرَاوِيحِ أَوْ مِنْ قِيَامِ رَمَضَانَ. (تحفة المحتاج:٢٤١/٢) لاتَصِحُّ بِنِيَّةٍ مُطْلَقَةٍ بَلْ يَنْوِي سُنَّةَ التَّرَاوِيحِ أَوْ صَلَاةَ التَّرَاوِيحِ أَوْ قِيَامَ رَمَضَانَ فَيَنْوِي فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ مِنْ صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ۔ (المجموع :٢٣/٤) وينوي الشخص في كل ركعتين منها سنة التراويح أو قيام رمضان. ولو صلى أربع ركعات منها بتسليمة واحدة لم تصح. (فتح القريب :٧٢/١ ) بل (ينوي بإحرام كل ركعتين التراويح، أو قيام رمضان) ليتميز بذلك عن غيرها وأفاد كلامه ما صرح به أصله أنه يسلم من ركعتين (اسنى المطالب :٢٠١/١ ) * النجم الوهاج :٣١٠/٢ * روضة الطالبين :٣٣٤/١
جمعہ _31 _مئی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0733
وتر یا نماز فجر میں امام دعائے قنوت شروع کرے اور مقتدیوں میں سے کوئی دعائے قنوت چھوڑ کر سجدہ چلاجائے تو کیا ایسے شخص کے لیے دعا قنوت کے لیے واپس کھڑے ہونا ضروری ہے؟
جواب:۔ امام دعائے قنوت شروع کرنے پر سجدہ کی طرف جانے والے مقتدی کے لیے واپس اعتدال میں آکر امام کی متابعت ضروری ہے اس لیے کہ امام سے پہلے سجدہ کی طرف جانا اور سجدہ کرنا قابل اعتبار نہیں ہے۔
علامہ زین الدین ملیباری رحمة الله عليه فرماتے ہیں: قال شيخنا في شرح المنهاج: وبذلك يعلم أن من سجد سهوا أو جهلا وإمامه في القنوت لا يعتد له بما فعله فيلزمه العود للاعتدال۔ (فتح المعین: 1/136) علامہ ابن حجر رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
وَبِمَا تَقَرَّرَ يُعْلَمُ أَنَّ مَنْ سَجَدَ سَهْوًا أَوْ جَهْلًا وَإِمَامُهُ فِي الْقُنُوتِ لَا يُعْتَدُّ لَهُ بِمَا فَعَلَهُ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَقَعْ عَنْ رُؤْيَةٍ فَيَلْزَمُهُ الْعَوْدُ لِلِاعْتِدَالِ (تحفة المحتاج:2/181)
جمعہ _31 _مئی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0732
روزوں کا فدیہ ایک ساتھ رمضان کے شروع ہی میں نکالنا جائز ہے یا روزانہ دنوں کی ترتیب سے فدیہ دینا ہوگا؟
جواب:۔ رمضان کے روزوں کا فدیہ پورا ایک ساتھ آخیر میں نکالنا جائز ہے ہاں اگر کوئی ہر دن کا فدیہ اسی دن دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے، البتہ شروع رمضان میں تمام روزوں کا فدیہ دینے سے فدیہ ادا نہیں ہوگا.
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اتفق أصحابنا على أنه لا يجوز للشيخ العاجز والمريض الذي لا يُرجى برؤه تعجيل الفدية قبل دخول رمضان، ويجوز بعد طلوع فجر كل يوم، وهل يجوز قبل الفجر في رمضان؟ قطع الدارمي بالجواز، وهو الصواب”۔ (المجموع:260/6) علامہ خطیب شربینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "وليس لهم -أي الهرم والمريض- ولا للحامل ولاللمرضع تعجيل فدية يومين فأكثر، كما لا يجوز تعجيل الزكاة لعامين، بخلاف ما لو عجل من ذكر فدية يوم فيه أو في ليلته فإنه جائز”. (مغنی المحتاج:176/2) علامہ باعشن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لو أخر نحو الهرم الفدية عن السنة الأولى، لم يجب شيء للتأخير؛ لأنّ وجوبها على التراخي”.(شرح مقدمة الحضرمیة:578) وفي [فتاوى الرملي الشافعي رحمه الله] "يتخير –أي الشيخ الهرم- في إخراجها بين تأخيرها، وبين إخراج فدية كل يوم فيه أو بعد فراغه، ولا يجوز تعجيل شيء منها لما فيه من تقديمها على وجوبه؛ لأنه فطرة”. (فتاوی رملی :2/74)
جمعرات _6 _جون _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0735
اگر عورت کو روزہ کی حالت میں حیض شروع ہوجانے سے روزہ ٹوٹ جائے تو اس عورت کے لیے غروب تک کھانے پینے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ عورت کو روزہ کی حالت میں حیض شروع ہوجانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کے لیے غروب تک کھانے پینے اور دیگر روزہ ٹوٹنے والی چیزوں کے کرنے کی گنجائش ہے۔
ولو طرأ الحيض أو النفاس أو الكفر قبل الغروب بطل وإن أسلم في الحال وطهرت النفساء ۔( الأنوار:٣٠٧) ﺃﻣﺎ اﻹﻣﺴﺎﻙ ﺗﺸﺒﻬﺎ ﺑﺎﻟﺼﺎﺋﻤﻴﻦ ﻓﻮاﺟﺐ ﻋﻠﻰ ﻛﻞ ﻣﺘﻌﺪ ﺑﺎﻹﻓﻄﺎﺭ ﻓﻲ ﺷﻬﺮ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻭﻻ ﻳﺠﺐ ﻓﻲ ﻏﻴﺮ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻭﻻ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﺃﺑﻴﺢ ﻟﻪ اﻟﻔﻄﺮ ﺇﺑﺎﺣﺔ ﺣﻘﻴﻘﻴﺔ۔ (الوسيط،542/2) مسئلة المسافر الظاهر سفره له إظهار فطره بجامع ظهور العذر كالحائض… (كتاب المجموع لمهمات المسائل من الفروع للسيد طه بن عمر العلوی الحضرمی: ١٥٣)
جمعرات _6 _جون _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0736
تراویح میں قرآن مجید کب ختم کرنا مستحب ہے ؟
جوب:۔ تراویح میں مکمل قرآن مجید کو تجوید کی رعایت اور اطمینان کے ساتھ سے پڑھ کر ختم کرنا سنت ہے۔ جس کے لیے ہر دن ایک پارہ یا ابتداء میں کچھ دن سوا پارہ اس کے بعد ایک ایک پارہ تلاوت کی ترتیب بنانا بھی سنت ہے۔ تاکہ انتیس رمضان کو ختم قرآن مجید مکمل ہوجائے۔ لیکن اگر کسی جگہ تجوید کی رعایت اور اطمینان کے ساتھ، نیز مقتدیوں کی رضامندی سے ہر دن ایک پارہ کے بجائے دیڑھ پارہ یا زیادہ دنوں تک سوا پارہ پڑھا جائے اور ۲۹/رمضان کے بجائے ۲۷/ ۲۸ رمضان کو مکمل قرآن مجید کا ختم کیا جائے تو یہ عمل بھی خلاف سنت نہیں ہوگا۔
وأما القراءة فالمختار الذي قاله الأكثرون وأطبق الناس على العمل به أن تقرأ الختمة بكمالها في التراويح جميع الشهر، فيقرأ في كل ليلة نحو جزء من ثلاثين جزءا، ويستحب أن يرتل القراءة ويبينها، وليحذر من التطويل عليهم بقراءة أكثر من جزء۔ (الأذكار : ١٨٤/١) ولیحذرمن التطویل علیھم محلہ فی غیر امام الجمع المحصورالذی لم یتعلق بعینہ حق ورضوا بالتطویل۔ (الفتوحات الربانية: ٤/ ٢٠٧) ﻓﺈﻥ اﻟﺴﻨﺔ ﻓﻴﻬﺎ اﻟﺼﻼﺓ ﺑﺟﻤﻴﻊ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻓﻴﺠﺰﺋﻪ ﻋﻠﻰ اﻟﻠﻴﺎﻟﻲ ﺑﺤﻴﺚ ﻳﻜﻮﻥ ﺁﺧﺮ اﻟﺨﺘﻤﺔ ﻣﻨﻄﺒﻘﺎ ﻋﻠﻰ ﺁﺧﺮ ﻟﻴﻠﺔ ﻓﻲ اﻟﺸﻬﺮ۔ (نهاية الزين :٦٤/١)
جمعرات _6 _جون _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0737
اگر کوئی شخص کسی دوسری جگہ عید منا کر انڈیا آیا تو کیا اب یہاں بھی عید منائے گا اور عید کی نماز پڑھے گا؟
جواب:۔ جس طرح فرض نمازوں کا اعادہ سنت ہے اسی طرح جن نمازوں میں جماعت سنت ہے ان نمازوں کا اعادہ بھی سنت ہے۔ لہذا عید کی نماز کا اعادہ بھی سنت ہے۔ تو جو شخص دبئی سے عید منا کر انڈیا آئے تو اس کے لیے دوبارہ عید کی نماز ادا کرنا مستحب ہوگا ۔
علامہ خطیب شربینی فرماتے ہیں وَالنَّافِلَةُ الَّتِي لَا تُسَنُّ الْجَمَاعَةُ فِيهَا. أَمَّا مَا تُسَنُّ فِيهَا فَالْقِيَاسُ كَمَا فِي الْمُهِمَّاتِ أَنَّهَا كَالْفَرْضِ فِي سَنِّ الْإِعَادَةِ، وَأَمَّا صَلَاةُ الْجُمُعَةِ فَلَا تُعَادُ لِأَنَّهَا لَا تُقَامُ مَرَّةً بَعْدَ أُخْرَى فَإِنْ فُرِضَ الْجَوَازُ لِعُسْرِ الِاجْتِمَاعِ فَالْقِيَاسُ كَمَا فِي الْمُهِمَّاتِ أَنَّهَا كَغَيْرِهَا، وَكَذَا لَوْ صَلَّى بِمَكَانٍ ثُمَّ سَافَرَ إلَى مَكَانٍ آخَرَ فَوَجَدَهُمْ يُصَلُّونَهَا كَانَ الْحُكْمُ كَذَلِكَ، (١) ِ أَنَّ مَا تُسَنُّ فِيهِ الْجَمَاعَةُ مِنْهَا كَالْفَرْضِ فِي سَنّ الْإِعَادَةِ (٢) بخلاف ما تسن فيه الجماعة من النوافل فإنه تسن إعادته كالفرض (٣) 1۔مغنى المحتاج ١/٤٧٢ 2۔ اسنی المطالب ١/٢١٣ 3۔المنهاج القويم ١/١٤٨
پیر _17 _جون _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0738
جو جانور تکلیف نہیں دیتے انھیں جان سے مارنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ جانور اللہ کی مخلوق ہے اور مخلوق پر رحم کرنا اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے لہذا وہ جانور جو انسان کے لیےتکلیف دہ نہ ہو ان کی تعظیم کے پیش نظر انہیں بلاوجہ مارنا جائز نہیں اس لیے کہ ان کو تکلیف پہنچانے سے حقوق اللہ اور حقوق العباد (جانور کے مالک کاحق) دونوں متاثر ہوتے ہیں لہذا بلاوجہ ان جانوروں کو مارنا جائز نہیں۔ البتہ ماکول اللحم (جن کا گوشت کھایا جاتا ہو) ان جانوروں کو ذبح کرنے اور غیر ماکول اللحم تکلیف دہ جانور کو تکلیف سے بچنے کے لیے مارنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علامہ خطیب شربینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں (وَيَحْرُمُ إتْلَافُ الْحَيَوَانِ) الْمُحْتَرَمِ لِلنَّهْيِ عَنْ ذَبْحِ الْحَيَوَانِ إلَّا لِأَكْلِهِ، وَخَالَفَ الْأَشْجَارَ؛ لِأَنَّ لِلْحَيَوَانِ حُرْمَتَيْنِ: حَقُّ مَالِكِهِ، وَحَقُّ اللَّهِ تَعَالَى. فَإِذَا سَقَطَتْ حُرْمَةُ الْمَالِكِ لِكُفْرِهِ بَقِيَتْ حُرْمَةُ الْخَالِقِ فِي بَقَائِهِ، وَلِذَلِكَ يُمْنَعُ مَالِكُ الْحَيَوَانِ مِنْ إجَاعَتِهِ وَعَطَشِهِ بِخِلَافِ الْأَشْجَارِ (إلَّا) حَيَوَانًا مَأْكُولًا فَيُذْبَحُ لِلْأَكْلِ خَاصَّةً لِمَفْهُومِ الْخَبَرِ الْمَارِّ، أَوْ (مَا يُقَاتِلُونَا عَلَيْهِ) أَوْ خِفْنَا أَنْ يَرْكَبُوهُ لِلْغَدْرِ كَالْخَيْلِ فَيَجُوزُ إتْلَافُهُ (لِدَفْعِهِمْ أَوْ ظَفَرٍ بِهِمْ) ؛ لِأَنَّهَا كَالْآلَةِ لِلْقِتَال۔ غنى المحتاج: ٣٧/٦ امام نووی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: قَالَ الشَّافِعِيُّ وَالْأَصْحَابُ مَا نُهِيَ عَنْ قَتْلِهِ حَرُمَ أَكْلُهُ لِأَنَّهُ لَوْ حَلَّ أَكْلُهُ لَمْ يُنْهَ عَنْ قَتْلِهِ كَمَا لَوْ لَمْ يُنْهَ عَنْ قَتْلِ الْمَأْكُولِ فَمِنْ ذَلِكَ النَّمْلُ وَالنَّحْلُ فَهُمَا حَرَامٌ وَكَذَلِكَ الْخُطَّافُ وَالصُّرَدُ وَالْهُدْهُدُ وَالثَّلَاثَةُ حَرَامٌ عَلَى الْمَذْهَب۔ (ِالمجموع :٢٢/٩) علامہ بجیرمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَحَرُمَ) إتْلَافٌ (لِحَيَوَانٍ مُحْتَرَمٍ) ؛ لِحُرْمَتِهِ وَلِلنَّهْيِ عَنْ ذَبْحِ الْحَيَوَانِ لِغَيْرِ مَأْكَلِهِ (إلَّا لِحَاجَةٍ) كَخَيْلٍ يُقَاتِلُونَ عَلَيْهَا فَيَجُوزُ إتْلَافُهَا لِدَفْعِهِمْ أَوْ لِلظَّفَرِ بِهِم۔ (حاشية البجيرمي:٢٥٦/٤)
جمعرات _20 _جون _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0739
حاجی حالت احرام میں ہوائی جہاز میں ٹھنڈک سے اور کان میں آواز آنے سے بچنے کے لئے دونوں کانوں میں روئی کا پھایہ لگا سکتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح ناک کے نتھنوں میں پھایا لگا سکتا ہے یا نہیں؟ احرام کی حالت میں خوشبودار چیز اور سلے ہوئے کپڑے پہننا جائز نہیں ہے البتہ بغیر خوشبو والی چیزیں اور بغیر سلے کپڑے جیسے چادر، رومال، دستی، روئی وغیرہ کا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، لہذا اگر کوئی شخص ٹھنڈک سے بچنے یا شور سے محفوظ رہنے کے لیے ناک یا کان میں روئی لگانا درست ہے، اس لیے کہ ان کا شمار سلی ہوئی یا بنی ہوئی چیزوں میں نہیں ہوتا.
📚علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں. فلو ارتدى بالقميص أو القباء أو التحف بهما أو اتزر بالسراويل فلا فدية كما لو اتزر بإزار لفقه من رقاع أو أدخل رجليه في ساق الخف ويلحق به لبس السراويل في إحدى رجليه شرح م ر.. (تحفة المحتاج:١٦١/٤) مغني المحتاج:٢٩٣/٢ نهاية المحتاج:٣٣١/٣
ہفتہ _22 _جون _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0740
اگر کسی جانور کو عورت ذبح کرے تو اس جانور کا کیا حکم ہے ؟
📝 اگر عورت جانور کو ذبح کرنے پر قادر ہو تو اس کے لیے ذبح کرنا شرعا جائز ہے اور اس سے جانور بھی حلال ہوگا، لیکن اس کے لیے اولی یہ ہے کہ کسی مرد کو اپنا وکیل بنائے اور مرد ذبح کرے۔
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ امْرَأَةً ذَبَحَتْ شَاةً بِحَجَرٍ، «فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَأَمَرَ بِأَكْلِهَا» (رواه البخاري/5504) علامہ خطیب شربینی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: أَمَّا الْمَرْأَةُ فَالسُّنَّةُ لَهَا أَنْ تُوَكِّلَ كَمَا فِي الْمَجْمُوعِ، وَالْخُنْثَى مِثْلُهَا قَالَ الْأَذْرَعِيُّ: وَالظَّاهِرُ اسْتِحْبَابُ التَّوْكِيلِ لِكُلِّ مَنْ ضَعُفَ عَنْ الذَّبْحِ مِنْ الرِّجَالِ لِمَرَضٍ أَوْ غَيْرِهِ، وَإِنْ أَمْكَنَهُ الْإِتْيَانُ، وَيَتَأَكَّدُ اسْتِحْبَابُهُ لِلْأَعْمَى وَكُلِّ مَنْ تُكْرَهُ ذَكَاتُهُ (وَإِلَّا) أَيْ وَإِنْ لَمْ يَذْبَحْ الْأُضْحِيَّةَ بِنَفْسِهِ لِعُذْرٍ أَوْ غَيْرِهِ (فَلْيَشْهَدْهَا) لِمَا رَوَى الْحَاكِمُ، وَقَالَ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ «أَنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ لِفَاطِمَةَ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا -: قُومِي إلَى أُضْحِيَّتِكِ فَاشْهَدِيهَا، فَإِنَّهُ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ مِنْ دَمِهَا يُغْفَرُ لَكِ مَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوبِكِ» .(مغنی المحتاج ٦/١٢٥) (وَ) يُسَنُّ (أَنْ يَذْبَحَهَا) أَيْ الْأُضْحِيَّةُ رَجُلٌ (بِنَفْسِهِ) إنْ أَحْسَنَ الذَّبْحَ اقْتِدَاءً بِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَأَصْحَابِهِ وَلِأَنَّهَا قُرْبَةٌ فَنُدِبَتْ مُبَاشَرَتُهَا وَكَذَلِكَ الْهَدْيُ، وَأَفْهَمَ كَلَامُهُ جَوَازَ الِاسْتِنَابَةِ وَالْأَوْلَى كَوْنُ التَّائِبِ فَقِيهًا مُسْلِمًا وَيُكْرَهُ اسْتِنَابَةُ كَافِرٍ وَصَبِيٍّ لَا حَائِضٍ (وَإِلَّا فَيَشْهَدُهَا) «لِأَنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَمَرَ فَاطِمَةَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا – بِذَلِكَ» رَوَاهُ الْحَاكِمُ وَصَحَّحَ إسْنَادَهُ. أَمَّا الْأُنْثَى وَالْخُنْثَى فَتَوْكِيلُهُمَا أَفْضَلُ(قَوْلُهُ فَتَوْكِيلُهُمَا أَفْضَلُ) أَيْ لِضَعْفِهِمَا لِأَنَّ ذَلِكَ مِنْ وَظَائِفِ الرِّجَالِ. (نهاية المحتاج :٨/١٣٢) وَأَمَّا ذَبِيحَةُ الْأَخْرَسِ فَتَحِلُّ وَإِنْ لَمْ تُفْهَمْ إشَارَتُهُ كَالْمَجْنُونِ. فَرْعٌ: قَالَ فِي الْمَجْمُوعِ قَالَ أَصْحَابُنَا: أَوْلَى النَّاسِ بِالذَّكَاةِ الرَّجُلُ الْعَاقِلُ الْمُسْلِمُ، ثُمَّ الْمَرْأَةُ الْمُسْلِمَةُ، ثُمَّ الصَّبِيُّ الْمُسْلِمُ، ثُمَّ الْكِتَابِيُّ، ثُمَّ الْمَجْنُونُ وَالسَّكْرَانُ. انْتَهَى. قَالَ شَيْخُنَا: وَالصَّبِيُّ غَيْرُ الْمُمَيِّزِ فِي مَعْنَى الْأَخِيرَيْنِ. (مغنی المحتاج :٦/٩٨)