فقہ شافعی سوال نمبر/ 0761 اگر کوئی مرد احرام باندھتے وقت بنیان نکالنا بھول جائے پھر کچھ دیر بعد یاد آجائے اور نکال دے تو کیا اس صورت میں کیا فدیہ لازم ہوگا؟ احرام کی حالت میں اگر کوئی شخص بنیان نکالنا بھول گیا ہو تو ایسے شخص پر بھول کی وجہ سے کوئی فدیہ لازم نہیں ہوگا اس لیے کہ نسیان یعنی بھول معاف ہے۔ البتہ یاد آنے پر نکالنا ضروری ہے ۔ وان لبس او تطيب او دهن راسه او لحيته ناسيا او جاهلا بالتحريم فلا فدية عليه۔ (البیان ۱۸۷/٤) (سنن ابن ماجہ :٢٩٢/٢٠٤٣ )
سوال نمبر / 0762 تمتع کرنے والا حاجی عمرہ سے فارغ ہوجائے اور ابھی حج کے دن شروع نہیں ہوئے ہوں تو کیا اس عمرہ کے بعد اس کے لیے تمتع کا دم دینا کافی ہوگا؟ حج تمتع کرنے والا عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد جب حج کا احرام باندھے تو اس وقت اس پر دم تمتع واجب ہوتا ہے۔ البتہ عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد اس کے لیے دم دینا جائز ہے، عمرہ سے پہلے جائز نہیں ہے۔ نیز یوم النحر (١٠/ ذوالحجہ) کو دم دینا افضل ہے۔ (ووقت وجوب الدم احرامه بالحج)….. ولا تتأقت إراقته بوقت،….. (والأفضل: ذبحه يوم النحر، (ويجوز قبل الإحرام) بالحج بعد التحلل من العمرة في الازهر، ولا يجوز قبل التحلل منها في الاصح. (كنز الراغبين:١/٥٦١) (ووقت وجوب الدم) عليه (احرامه بالحج) لانه حينئذٍ يصير متمتعاً بالعمرة الى الحج ، والأصح جواز ذبحه اذا فرغ من العمرة، ولا يتأقت ذبحه بوقتٍ كسائر دماء الجبرانات (و) لكن (الافضل وذبحه يوم النحر). (نهاية المحتاج:٣/٣٢٧)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0763 اگر کسی کے ذمہ قرض ہو تو اس کے لیے قربانی کرنا بہتر ہے یا قرض اداء کرنا افضل ہے؟ قرض کی ادائیگی ایک واجب عمل ہے اور قربانی ایک مسنون عمل ہے۔ لہذا اگر کسی پر قرض ہو اور قرض کی ادائیگی کا وقت ہوگیا ہو نیز اس کے پاس موجود رقم اگر قربانی کے لیے خرچ کرے تو قرض کی ادائیگی کے لیے دوسری رقم موجود نہ ہو تو اس صورت میں قربانی کرنا درست نہیں ہے۔بلکہ اس رقم سے قرض ادا کرنا ضروری ہے۔ ہاں اگر قرض کی ادائیگی کا کوئی معقول نظم موجود ہو یا قرض متعینہ وقت کے اندر ادا کرنا ممکن ہو تو پھر قرض کی اس رقم سے قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اس کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ پہلے قربانی کرے پھر جتنی جلد ہوسکے قرض کی رقم ادا کرے۔ (ﻭﺗﺤﺮﻡ) اﻟﺼﺪﻗﺔ (ﺑﻤﺎ ﻳﺤﺘﺎﺟﻪ) ﻣﻦ ﻧﻔﻘﺔ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ (ﻟﻤﻤﻮﻧﻪ) ﻣﻦ ﻧﻔﺴﻪ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﻫﻮ ﺃﻋﻢ ﻣﻦ ﻗﻮﻟﻪ ﻟﻨﻔﻘﺔ ﻣﻦ ﺗﻠﺰﻣﻪ ﻧﻔﻘﺘﻪ (ﺃﻭ ﻟﺪﻳﻦ ﻻ ﻳﻈﻦ ﻟﻪ ﻭﻓﺎء) ﻟﻮ ﺗﺼﺪﻕ ﺑﻪ؛ ﻷﻥ اﻟﻮاﺟﺐ ﻣﻘﺪﻡ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺴﻨﻮﻥ، ﻓﺈﻥ ﻇﻦ ﻭﻓﺎءﻩ ﻣﻦ ﺟﻬﺔ ﺃﺧﺮﻯ ﻓﻼ ﺑﺄﺱ ﺑﺎﻟﺘﺼﺪﻕ ﺑﻪ۔ (حاشية الجمل 4/113) ﺃﻣﺎ ﺇﺫا ﻇﻦ ﻭﻓﺎءﻫ ﻣﻦ ﺟﻬﺔ ﻇﺎﻫﺮﺓ ﻭﻟﻮ ﻋﻨﺪ ﺣﻠﻮﻝ اﻟﻤﺆﺟﻞ .. ﻓﻼ ﺑﺄﺱ ﺑﺎﻟﺘﺼﺪﻕ، ﺑﻞ ﻗﺪ ﻳﺴﻦ (شرح المقدمة الحضرمية:1/538)
Fiqhe Shafi Question No :0763 If a person owes money as debt then Is it better for him to perform animal sacrifice or is it afzal to pay off the debt?? Answer; Repayment of debt is a compulsory act (wajib) and animal sacrifice is a sunnah act.. Therefore if a person is indebted and the given time for repayment has ended and the amount he has is sufficient to perform either of the both acts that is, if he performs animal sacrifice he shall have no money to repay the debt then in this situation slaughtering the animal is not valid.. Rather he should pay off his debt by this amount..However if there is a reasonable step to repay the debt or it is possible for him to repay the debt within the determined period then there is nothing wrong with performing animal sacrifice.. Rather it is sunnah for him to perform animal sacrice first and then repay the debt as soon as possible…
فقہ شافعی سوال نمبر / 0764 ایک حاجی حج کے فورا بعد سفر کرنا چاہتا ہے کیا وہ طواف زیارت کے ساتھ ہی طواف وداع کی نیت کر سکتا ہے؟ طواف زیارت اور طواف وداع دونوں مستقل اور الگ الگ طواف ہیں٬ اس ليے طواف زیارت کے ساتھ طواف کی نیت کرنا کافی نہیں ہوگا، لہذا دونوں کو الگ الگ کرنا چاہیے۔ طواف الوداع لا یدخل تحت طواف آخر، حتی لو اخر طواف الإفاضة وفعله بعد ایام منی و اراد السفر عقبه … لم یکفه (البیان :2/549) *مغنی المحتاج:1/676
فقہ شافعی سوال نمبر / 0765 گناہ کبیرہ بار بار کرنے والا شخص اگر سلام کرے تو اسے جواب دینے کا کیا مسئلہ ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ فلاں شخص نے آپ کو سلام عرض کیا ہے، تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ وہ شخص نئی باتیں گڑھتا ہے اگر وہ ایسا ہى باتیں گڑھنے والا ہو تو میری طرف سے جواب نہ دینا۔ (سنن ترمذي:٢١٥٢) ایسا شخص جو بدعتی ہو، یا گناہ کبیرہ بار بار کرتا ہو اور توبہ بھی نہ کرتا ہو اگر کسی کو سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دینا واجب اور ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ایسے لوگوں کے سلام کا جواب نہ دینا سنت ہے۔ ويلزمهم الرّد الا على فاسق بل يسن تركه على مجاهر بفسقه ومرتكب ذنب عظيم لم يتب منه و مبتدع إلا لعذر او خوف مفسدة. (تحفة المحتاج:٤/١٨٩) و في استحباب السلام على الفاسق ( المجاهر بنفسه) ووجوب الرد على المجنون والسكران اذا سلم وجهان. (العزيز شرح الوجيز:١١/٣٧٦) فرع:في استحباب السلام على الفاسق المجاهر بفسقه والمبتدع ومن ارتكب ذنباً عظيماً ولم يتب منه وجهان، اصحهما: لا. (عمدة المحتاج:١٤/٣٤)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0766 اگر کوئی شخص السلام علیکم کے علاوہ صرف سلام مسنون یا سلام و تسلیم جیسے الفاظ کے ذریعہ کسی کو سلام کرے تو کیا اس طرح سلام کرنا درست ہے اور اس طرح سلام کرنے والے کو جواب دینا ضروری ہے ؟ سلام کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آدمی پورا پورا سلام یعنی السلام علیکم ورحمة الله وبركاته اور اس کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته کہے ہاں اگر کوئی شخص سلام مسنون یا سلام تسلیم اس جیسے الفاظ کے ذریعہ سلام کرے تو اس طرح سلام کرسکتا ہے اور مخاطب کو اس کا جواب دینا بھی واجب ہوگا اس لیے کہ یہ الفاظ عجمی زبان میں سلام کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ قلت: الصواب صحة سلامة بالعجمية إن كان المخاطب يفهمها ، سواء قدر على العربية أم لا ، ويجب الرد ، لأنه يسمى تحية وسلاماً۔ (روضة الطالبين.كتاب السير :١٨٧/٤)
فقہ شافعی سوال نمبر / 0767 دوران نماز اگر کسی امام کا وضو ٹوٹ جائے تو مقتدی حضرات باقی نماز کیسے مکمل کریں ؟ نماز کے دوران اگر کسی امام کا وضو ٹوٹ جائے تو اب مقتدیوں کے لیے اپنی نماز مکمل کرنے کے سلسلے میں دو طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ مقتدی اس امام سے الگ ہونے کی نیت کریگا اور اپنی بقیہ نماز مکمل کرے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسی وقت مقتدیوں میں سے کوئی ایک امامت کے لیے آگے بڑھے گا اور بقیہ نماز کی امامت کرے گا اور نماز مکمل کریگا۔ إذا بطلت صلاة الامام بحدث ونحوه ….. فانه يفارقه ولا يضر الماموم هذه المفارقة إذَا خَرَجَ الامام عن الصلاة بحديث تَعَمَّدَهُ أَوْ سَبَقَهُ أَوْ نَسِيَهُ أَوْ بِسَبَبٍ آخَرَ أَوْ بِلَا سَبَبٍ فَفِي جَوَازِ الِاسْتِخْلَافِ قَوْلَانِ مَشْهُورَانِ (الصَّحِيحُ) الْجَدِيدُ جَوَازُهُ۔ (المجموع:213/4)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0768 سیلاب کی وجہ سے بہت سی جگہوں (کیرلا، آسام و غیرہ) پر بعض قیمتی اشیاء (سونا،چاندی، وغیرہ) ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں، اب اگر یہ کسی کے ہاتھ لگ جائے تو کیا اس کا حکم لقطہ کی طرح ہوگا؟ اور اس کا مصرف کیا ہوگا؟ ہوا اور سیلاب وغیرہ کی وجہ سے جو اشیاء ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجائے، تو وہ لقطہ کے حکم میں نہیں ہوگی، اس لیے کہ لقطہ میں مالک سے گرنے یا غفلت کی وجہ سے ضائع ہونا شرط ہے، لھذا ہوا اور سیلاب وغیرہ کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی اشیاء پر مال ضائع کا حکم ہوگا، اور وہ مال لقطہ کے حکم میں نہیں ہوگا، اور مال ضائع کا حکم یہ ہے کہ اس مال کو امام وقت یا حاکم و قاضی کے حوالے کیا جائے گا یا اگر بیت المال کا نظام ہو تو اسی بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور ان دونوں کے مفقود ہونے کی صورت میں وہ خود اس مال کی حفاظت کرے گا یہاں تک کہ اس مال کا مالک مل جائے، اور اگر مالک ملنا دشوار ہو تو ان چیزوں کو رفاہی و ملی تنظیموں کے حوالے کیا جائے گا، تاکہ وہ مسلمانوں کے عمومی مصالح پر خرچ کیا جائے۔ قال الإمام النووي رحمه الله يشترط في اللقطة ثلاثة شروط غير ماسبق، أحدها: أن تكون شيئا ضاع من مالكه لسقوط أو غفلة ونحوهما ، فأما إذا ألقت الريح ثوبا في حجره، أو ألقى إليه هارب كيسا ولم يعرف من هو، فهو مال ضائع يحفظ ولايتملك. (روضة الطالبين:٤ / ٤٦٨) قال الإمام جمال الدين الأهدل رحمه الله: وما ألقاه نحو ريح أو هارب لايعرفه بنحو حجره أو داره، مال ضائع لالقطة، أمره للإمام يحفظه أو ثمنه إن رأى بيعه، أو يقترضه لبيت المال إلى ظهور مالكه إن توقعه، وإلا صرفه لمصارف بيت المال، وحيث لاحاكم أو كان جائرا … فعل من هو بيده فيه ذلك كما مر نظيره، ولمن هو بيده تملكه حيث كان له حق في بيت المال، و إلا فليس له ذلك. (عمدة المفتي والمستفتي:١ / ٧٢١)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0769 *نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی سورہ پڑھنا کیسا ہے؟ *جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی سورہ نہ پڑھنا بہتر ہے اگر کوئی سورہ فاتحہ کے بعد سورہ پڑھے تو نماز پر کوئی اثر نہیں ہوگا البتہ اگرمقتدی کی سورہ فاتحہ امام سے پہلے ختم ہوجائے اور سورہ پڑھنے کا موقع ہو تو خاموش رہنے کے بجائے کوئی مختصر سورہ پڑھنا مسنون ہے۔* أما قراءة السورة.. فلا تستحب في الأصح بل نقل الإمام فيه الإجماع وقيل: تستحب سورة قصيرة. (النجم الوهاج:٤٥/٣) وينبغي أن المأموم إذا فرغ من الفاتحة قبل امامه تسن له السورة لأنها أولى من وقوفه ساكنا. (إعانة الطالبين:١٩٦/٢) وفي القراءة السورة وجهان: أحدهما: يقرأ سورة قصيرة لأن كل صلاة قرأ فيها الفاتحة قرأ فيها السورة كسائر الصلوات.والثاني: أنه لا يقرأ لأنها مبنية على الحذف والاختصار۔ (المهذب للشيرازى:٢٤٧/١)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0770 شرابی شخص اگر نشہ کی حالت میں اگر کوئی سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دینے کا کیا حکم ہے؟ نشے کی حالت میں اگر کوئی سلام کرے تو اصح قول کے مطابق شرابی کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے۔ البتہ جواب دینا جائز ہے اذا سلم مجنون او سكران هل يجب الرد عليهما ؟ فيه وجهان اصحهما انه لا يجب (المجموع: ٥٠٧/٤)