فقہ شافعی سوال نمبر / 0851 *لاک ڈاؤن کی وجہ سے مردوں کے لیے گھروں میں اعتکاف کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟*
*اعتکاف کے صحیح اور درست ہونے کے لیے شرعی مسجد کا ہونا ضروری ہے مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف کرنا درست نہیں، کرونا وائرس کی وجہ سے ملک میں اکثر جگہوں پر لاک ڈاؤن ہے جس کی وجہ سے مساجد میں جمع ہونا قانوناً جرم ہے۔ اس لیے محلہ یا گاؤں میں سے اگر کوئی ایک یا دو افراد مسنون اعتکاف کرلے تو یہ سنت ادا ہوگی۔ چونکہ اعتکاف کا اہم مقصد لیلۃ القدر کی تلاش اور جستجو ہے اس لیے بقیہ تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں عبادتوں میں مشغول رہیں۔ واضح رہے کہ اگر کوئی مرد گھر میں اعتکاف کی نیت کرے تو اس کا اعتکاف درست نہیں ہوگا۔*
*علامہ خطیب شربيني رحمة الله علیه فرماتے ہیں: وَالِاعْتِكَاف سنة مُؤَكدَة وَهِي (مُسْتَحبَّة) أَي مَطْلُوبَة فِي كل وَقت فِي رَمَضَان وَغَيره بِالْإِجْمَاع ولإطلاق الْأَدِلَّة* (الاقناع في حل الفاظ ابي شجاع٢٤٦/١) *علامہ ابن نقیب رحمة الله علیه فرماتے ہیں: الاعتكافُ سُنَّةٌ في كلِّ وقتٍ، ورمضانُ آكدُ، والعشرةِ الأخيرةِ آكدُ لطلبِ ليلةِ القدرِ، ويمكنُ أنْ تكونَ في جميعِ رمضانَ، وفي العشرةِ الأخيرةِ أرْجى، وفي أوتارهِ أرْجى، وفي الحادي والثالثِ والعشرينَ أرجى، ويُكثِرُ في ليلةِ القدْرِ: "اللهمَّ إنكَ عفوٌّ تحبُ العفوَ فاعفُ عني”.* عمدة السالك وعدة الناسك/١٢٠ *علامہ ابن حجر الہیتمی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: قَوْلُ الْمَتْنِ (وَالْجَدِيدُ أَنَّهُ لَا يَصِحُّ إلَخْ) وَالْقَدِيمُ يَصِحُّ؛ لِأَنَّهُ مَكَانُ صَلَاتِهَا كَمَا أَنَّ الْمَسْجِدَ مَكَانُ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَأَجَابَ الْأَوَّلُ بِأَنَّ الصَّلَاةَ لَا تَخْتَصُّ بِمَوْضِعٍ بِخِلَافِ الِاعْتِكَافِ وَعَلَى الْقَوْلِ بِصِحَّةِ اعْتِكَافِهَا فِي بَيْتِهَا يَكُونُ الْمَسْجِدُ لَهَا أَفْضَلَ خُرُوجًا مِنْ الْخِلَافِ نِهَايَةٌ وَمُغْنِي.* (تحفة المحتاج و حواشي الشيرواني :٤٦٦/٣) *امام شیرازی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: ولا يصح الاعتكاف من الرجل إلا في المسجد لقوله تعالى: {وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ} [البقرة:187] فدل على أنه لا يكون إلا في المسجد ولا يصح الاعتكاف من المرأة إلا في المسجد لأن من صح اعتكافه في المسجد لم يصح اعتكافه في غير المسجد كالرجل*. المهذب في فقه الامام الشافعي.٣٥٠/١ *علامہ بجیرمی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: إنَّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَكِفَ فِي الْمَحَلِّ الَّذِي هَيَّأَتْهُ لِلصَّلَاةِ فِي بَيْتِهَا بِخِلَافِ الرَّجُلِ وَالْخُنْثَى۔* *شیخ عظیم آبادی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وَأَمَّا الرَّجُلُ فَلَمْ يَخْتَلِفُوا أَنَّ اعْتِكَافَهُ فِي بَيْتِهِ غَيْرُ جَائِزٍ وَإِنَّمَا شُرِعَ الِاعْتِكَافُ فِي الْمَسَاجِدِ وَكَانَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ يَقُولُ لَا يَكُونُ الِاعْتِكَافُ إِلَّا فِي الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَبَيْتِ الْمَقْدِسِ۔* (عون المعبود وحاشية ابن القيم:٩٩/٧)
فقہ شافعی سوال نمبر / 0852 *کیا عید کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے یا تنہا گھر پر پڑھ سکتے ہیں ؟*
*دراصل عید کی نماز سارے علاقہ والوں کا ایک جگہ جمع ہو کر پڑھنا مسنون ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اگر عید کی نماز مساجد یا عیدگاہ میں ادا کرنے پر حکومت کی طرف سے پابندی رہی تو اس صورت میں لوگوں کو چاہیے کہ موجودہ قانون کے مطابق بقیہ فرض نمازوں کی طرح گھروں میں چار پانچ افراد مل کر جماعت کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کریں، اگر گھر میں صرف دو لوگ ہوں یا صرف میاں بیوی ہو تب بھی عید کی نماز باجماعت ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ اور اگر امام خطبہ دے سکتا ہو تو نماز کے بعد دو خطبہ دینا سنت ہے۔ اگر کوئی عید کی نماز تنہا ادا کر رہا ہو تو اس وقت خطبہ دینامشروع نہیں ہے۔*
*امام بجیرمی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: قَوْلُهُ: سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ أَيْ فَيُكْرَهُ تَرْكُهَا …. وَتُسَنُّ جَمَاعَةً وَفُرَادَى، وَيُسْتَحَبُّ الِاجْتِمَاعُ لَهَا فی مکان واحد۔* (حاشیة البجیرمی علی شرح المنھج.423/1) *امام نووی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: تُسَنُّ صَلَاةُ الْعِيدِ جَمَاعَةً وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ لِلْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ الْمَشْهُورَةِ فَلَوْ صَلَّاهَا الْمُنْفَرِدُ فَالْمَذْهَبُ صِحَّتُهَا .* (ألمجموع شرح المھذب:19/5) *قال الامام الدميري رحمة الله عليه: إذا قلنا: يصلي المنفرد ..لا يخطب على الأصح* (النجم الوھاج:2/537) *(ﻭﺳﻦ ﺧﻄﺒﺘﺎﻥ ﺑﻌﺪﻫﻤﺎ) ﺑﻘﻴﺪ ﺯﺩﺗﻪ ﺑﻘﻮﻟﻲ (ﻟﺠﻤﺎﻋﺔ) ﻻ ﻟﻤﻨﻔرد قال الإمام سليمان الجمل ﻗﻮﻟﻪ ﻟﺠﻤﺎﻋﺔ) ﺃﻱ ﻭﻟﻮ ﺻﻠﻮا ﻓﺮاﺩﻯ ﻷﻥ اﻟﻤﻘﺼﻮﺩ اﻟﻮﻋﻆ ﻭﺃﻗﻞ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ اﺛﻨﺎﻥ ﻛﻤﺎ ﻣﺮ ﻓﻠﻮ ﻛﺎﻥ اﺛﻨﺎﻥ ﻣﺠﺘﻤﻌﺎﻥ ﺳﻦ ﻷﺣﺪﻫﻤﺎ ﺃﻥ ﻳﺨﻄﺐ ﻭﺇﻥ ﺻﻠﻰ ﻛﻞ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﻣﻨﻔﺮﺩا اﻩـ. ..* (حاشية الجمل على شرح المنهج: فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب ٢/٩٦)
فقہ شافعی سوال نمبر / 0853
*کیا کوئی اجنبی شخص کسی کی طرف سے یا داماد اپنے سسرال والوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کر سکتا ہے ؟*
*اس سلسلے میں فقہائے کرام نے یہ اصول مرتب کیا ہے کہ صدقہ فطر ہر اس شخص پر ان لوگوں کی جانب سے ادا کرنا ضروری ہے جن کا نان نفقہ اس کے ذمہ ہو جیسا کہ باپ، بیٹا وغیرہ، اگر کوئی اجنبی شخص یا داماد اپنے سسرال والوں کی طرف سے ان کی اجازت کے ساتھ صدقہ فطر نکالنے تو اس صورت میں صدقہ فطر ادا ہوجائے گا، اس کے برخلاف اگر اجازت کے بغیر نکالے تو صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا۔*
*علامہ بجیرمی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: كُلُّ مَنْ لَزِمَهُ نَفَقَةُ شَخْصٍ لَزِمَتْهُ فِطْرَتُهُ۔* (حاشیة البجیرمی علی الخطیب ٣٥٣/٢) *امام نووی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: قَالَ أَصْحَابُنَا لَوْ أَخْرَجَ إنْسَانٌ الْفِطْرَةَ عَنْ أَجْنَبِيٍّ بِغَيْرِ إذْنِهِ لَا يُجْزِئُهُ بِلَا خِلَافٍ لِأَنَّهَا عِبَادَةٌ فَلَا تَسْقُطُ عَنْ الْمُكَلَّفِ بِهَا بِغَيْرِ إذْنِهِ وَإِنْ أَذِنَ فَأَخْرَجَ عَنْهُ أَجْزَأَهُ كَمَا لَوْ قَالَ لِغَيْرِهِ اقْضِ دَيْنِي وَكَمَا لَوْ وَكَّلَهُ فِي دَفْعِ زَكَاةِ مَالِهِ…..لَوْ تَبَرَّعَ إنْسَانٌ بِالنَّفَقَةِ عَلَى أَجْنَبِيٍّ لَا يَلْزَمُهُ فِطْرَتُهُ بِلَا خِلَافٍ عِنْدَنَا۔* (ألمجموع شرح المھذب:١٣٦/٦)
فقہ شافعی سوال نمبر / 0854 *اگر کسی شخص سے دوران سفر معصیت کا ارتکاب ہوجائے تو کیا ایسی صورت میں مسافر کے لیے سفر کی رخصت باقی رہے گی یا نہیں؟*
*اگر کوئی شخص جائز اور مباح سفر پر نکلے لیکن دوران سفر کوئی گناہ کا ارتکاب ہوجائے تو ایسی صورت میں سفر کی تمام رخصتیں (قصر و جمع بین الصلاتین اور روزہ چھوڑنا اور جمعہ کا نہ پڑھنا) باقی رہے گی۔*
*علامہ نووی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: واما العاصي في سفره، وهو الذي/ يكون وسفره مباحا، لكنه يرتكب في طريقه معصية، كشرب خمر وغيره، فتباح له الرخص۔* (الاصول والضوابط: ٤٤) *علامہ سلیمان الشافعی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ﻭﺧﺮﺝ ﺑﺎﻟﻌﺎﺻﻲ ﺑﺴﻔﺮه اﻟﻌﺎﺻﻲ ﻓﻴﻪ، ﻭﻫﻮ ﻣﻦ ﻳﻘﺼﺪ ﺳﻔﺮا ﻣﺒﺎﺣﺎ ﻓﺘﻌﺮﺽ ﻟﻪ ﻓﻴﻪ ﻣﻌﺼﻴﺔ ﻓﻴﺮﺗﻜﺒﻬﺎ ﻓﻠﻪ اﻟﺘﺮﺧﺺ ﻷﻥ ﺳﺒﺐ ﺗﺮﺧﺼﻪ ﻣﺒﺎﺡ ﻗﺒﻠﻬﺎ ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ.* (حاشيةالجمل:١/٥٩٩) *علامہ خطیب شربینی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: ﻭاﺣﺘﺮﺯ ﺑﻘﻮﻟﻪ: ﺑﺴﻔﺮه ﻋﻦ اﻟﻌﺎﺻﻲ ﻓﻲ ﺳﻔﺮه ﺑﺄﻥ ﻳﻜﻮﻥ اﻟﺴﻔﺮ ﻣﺒﺎﺣﺎ ﻭﻳﻌﺼﻲ ﻓﻲ ﺳﻔﺮه ﻓﻴﺘﺮﺧﺺ؛ ﻷﻥ اﻟﺴﻔﺮ ﻣﺒﺎﺡ*. (مغني المحتاج:١/٥٢٥) *صاحب بشری کریم رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ﻭﺧﺮﺝ ﺑـاﻟﻌﺎﺻﻲ بسفره) اﻟﻌﺎﺻﻲ ﻓﻲ ﺳﻔﺮہ ﻛﺄﻥ ﺳﺎﻓﺮ ﺳﻔﺮا ﻣﺒﺎﺣﺎ، ﺛﻢ ﻓﻲ ﺃﺛﻨﺎﺋﻪ ﺳﺮﻕ ﻣﺜﻼ ﻓﻴﺘرخص.* (شرح المقدمه الحضرمي المسمى البشري الكريم: ١/٣٧١)
Fiqhe Shafi Question No.0854
If a person commits a sin during the journey, then will all the leaves granted to a traveller remain or not ?
Answer: If a person embarks on a permissible & a legitimate journey, but commits a sin during the journey, then all the leaves granted during the journey (shortening & gathering of Prayers, excuse from keeping the fast & regarding Friday Prayers) will remain.
فقہ شافعی سوال نمبر / 0855 *اگر کسی عورت کو چالیس دن کے بعد نفاس کا خون بند ہوجائے اور عورت پاکی کا غسل کرے اور روزے رکھے پھر سات دن بعد دوبارہ خون جاری ہوجائے تو اس خون کا کیا حکم ہے اور ان دنوں رکھے ہوئے روزوں کا کیا مسئلہ ہے؟*
*نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت ساٹھ دن ہے اگر کسی عورت کو ساٹھ دن مکمل ہونے سے پہلے نفاس کا خون بند ہوجائے (چاہے ایک لحظہ یا ایک دن کے بعد بند ہوجائے) اور پندرہ دن سے پہلے دوبارہ خون آنا شروع ہوجائے تو وہ خون نفاس کا خون کہلائے گا اور وہ درمیانی ایام ناپاکی کے شمار ہونگے اور اس وقت رکھے ہوئے روزے بھی درست نہیں ہوں گے لھذا ان روزوں کو دوبارہ رکھنا ضروری ہے ۔*
*قال الإمام النووي رحمه الله؛قال أصحابنا إذا انقطع دم النفساء فتارة يتجاوز التقطع ستين يوما وتارة لا يتجاوزها فإن لم يتجاوزها نظر فإن لم يبلغ مدة النقاء بين الدمين أقل الطهر وهو خمسة عشر وما فأوقات الدم نفاس وفي النقاء المتخلل قولا التلفيق أصحهما أنه نفاس. والثاني أنه دم فساد مثال هذا أن ترى ساعة دما وساعة نقاء أو يوما أو يومين أو خمسة أو عشرة أو أربعة عشر وأربعة ونحوهما من التقديرات أما إذا بلغت مدة النقاء أقل الطهر بأن رأت الدم ساعة أو يوما أو أياما عقب الولادة ثم رات النقاء خمسة عشر يوما فصاعدا ثم رأت الدم يوما وليلة فصاعدا ففي الدم العائد الوجهان اللذان ذكرهما المصنف وهما مشهوران: قال الشيخ أبو حامد والأصحاب أصحهما أن الأول نفاس والعائد حيض وما بينهما طهر لأنهما دمان تخللهما طهر كامل فلا يضم أحدهما إلى الآخر كدمي الحيض*. المجموع شرح المهذب:٥٢٨/٢ *قال الإمام النووي رحمه الله: إذا انقطع دم النفساء، فله حالان. أحدهما: أن لا يجاوز ستين، فينظر، إن لم تبلغ مدة النقاء بين الدمين أقل الطهر، بأن رأت يوما دما، ويوما نقاء، فأزمنة الدم نفاس قطعا. وفي النقاء القولان كالحيض. وإن بلغته، بأن رأت عقب الولادة دما أياما، ثم رأت النقاء خمسة عشر فصاعدا، ثم عاد الدم فالأصح أن العائد دم حيض…. الحال الثاني: أن تجاوز ستين؛ فإن بلغ زمن النقاء في الستين أقل الطهر، ثم جاوز العائد، فالعائد حيض قطعا.* (روضة الطالبين:١٧٨/١) *قال الإمام إبن جحر الهيتمي رحمه الله؛ فإذا اغتسلت فلها حكم الطاهرات في كل شيء فإذا رأته قبل مضي خمسة عشر ولم يجاوز ستين – فهو نفاس بأي صفة كان، وكذلك ما تخلله من نقاء على الأظهر*. (الفتاوى الكبرى الفقهية:٩٥/١) *قال الإمام العمراني رحمه الله؛إذا ولدت المرأة ورأت ساعة دما، وساعة طهرا، ولم تجاوز الستين. أو رأت يوما دما، ويوما طهرا، ولم تجاوز الستين.. فإن الدم نفاس.* البيان في مذهب الإمام الشافعي: ٤٠٦/١
فقہ شافعی سوال نمبر / 0856 *کسی تندرست شخص کی طرف سے فرض حج یا عمرہ کرنے کا کیا حکم ہے؟*
*کسی تندرست شخص کے لیے دوسرے کو اپنی طرف فرض ونفل حج یا عمرہ کرنے کے لیے نائب بنانا درست نہیں ہے، لھذا اس کی طرف سے حج یا عمرہ کرنے سے تندرست شخص کے ذمہ سے یہ فریضہ ساقط نہیں ہوگا۔*
*علامہ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ﻭﺗﺠﻮﺯ اﻟﻨﻴﺎﺑﺔ ﻓﻲ ﺣﺞ اﻟﻔﺮﺽ ﻓﻲ ﻣﻮﺿﻌﻴﻦ: ﺃﺣﺪﻫﻤﺎ ﻓﻲ ﺣﻖ اﻟﻤﻴﺖ ﺇﺫا ﻣﺎﺕ ﻭﻋﻠﻴﻪ ﺣﺞ ﻭاﻟﺪﻟﻴﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺑﺮﻳﺪﺓ ﻭاﻟﺜﺎﻧﻲ ﻓﻲ ﺣﻖ ﻣﻦ ﻻ ﻳﻘﺪﺭ ﻋﻠﻰ اﻟﺜﺒﻮﺕ ﻋﻠﻰ اﻟﺮاﺣﻠﺔ ﺇﻻ ﺑﻤﺸﻘﺔ ﻏﻴﺮ ﻣﻌﺘﺎﺩﺓ ﻛﺎﻟﺰﻣﻦ ﻭاﻟﺸﻴﺦ اﻟﻜﺒﻴﺮ.* (المهذب:١/٣٦٥) *علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (ﻓﺄﻣﺎ) ﺣﺞ اﻟﺘﻄﻮﻉ ﻓﻼ ﺗﺠﻮﺯ اﻻﺳﺘﻨﺎﺑﺔ ﻓﻴﻪ ﻋﻦ ﺣﻲ ﻟﻴﺲ ﺑﻣﻌﻀﻮﺏ.* (المجموع:٧/١١٤) *مزید علامہ سلیمان الشافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ﻭﺗﺠﻮﺯ للمعصوب اﻟﻨﻴﺎﺑﺔ ﻓﻲ ﻧﺴﻚ اﻟﺘﻄﻮﻉ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﻨﻴﺎﺑﺔ ﻋﻦ اﻟﻤﻴﺖ.* (حاشيةالجمل:٢/٣٨٨)
فقہ شافعی سوال نمبر / 0857 *استبراء کسے کہتے ہیں؟ اس کا طریقہ اور حکم کیا ہے؟*
*مرد کے عضو تناسل میں پیشاب کے بچے ہوئے قطروں سے مکمل طور پر پاکی حاصل کرنے کو استبراء کہتے ہیں اگر کسی شخص کو پیشاب کے بعد پوری طرح پیشاب کے قطرے نہ نکلنے کا یقین ہو تو ایسے شخص کے لیے استبراء کرنا واجب ہے ورنہ عام لوگوں کے لیے استبراء کرنا مندوب ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد بائیں ہاتھ کے انگھوٹے اور شہادت کی انگلی کو عضو تناسل کے نیچھے سے اوپر کی طرف پھیر دے جس سے بقیہ پیشاب باہر نکلے یا پیشاب کے بعد چند قدم چلنے سے یا پھر پیشاب کے بعد تھوڑا کھانسنے سے بھی پیشاب کے بقیہ قطرے نکلتے ہوں اور اطمینان حاصل ہوتا ہو تو اس پر عمل کرنے سے استبراء حاصل ہوگا۔*
*علامہ شربیني رحمة الله فرماتے ہیں۔ ﻭﻳﺴﺘﺒﺮﺉ ﻣﻦ اﻟﺒﻮﻝ ﻧﺪﺑﺎ ﻋﻨﺪ اﻧﻘﻄﺎﻋﻪ ﺑﻨﺤﻮ ﺗﻨﺤﻨﺢ ﻭﻣﺸﻲ، ﻭﺃﻛﺜﺮ ﻣﺎ ﻗﻴﻞ ﻓﻴﻪ: ﺳﺒﻌﻮﻥ ﺧﻄﻮﺓ ﻭﻧﺘﺮ ﺫﻛﺮ. ﻭﻛﻴﻔﻴﺔ اﻟﻨﺘﺮ ﺃﻥ ﻳﻤﺴﺢ ﺑﻴﺴﺮاﻩ ﻣﻦ ﺩﺑﺮﻩ ﺇﻟﻰ ﺭﺃﺱ ﺫﻛﺮﻩ، ﻭﻳﻨﺘﺮﻩ ﺑﻠﻄﻒ ﻟﻴﺨﺮﺝ ﻣﺎ ﺑﻘﻲ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ، ﻭﻳﻜﻮﻥ ﺫﻟﻚ ﺑﺎﻹﺑﻬﺎﻡ ﻭاﻟﻤﺴﺒﺤﺔ؛ ﻷﻧﻪ ﻳﺘﻤﻜﻦ ﺑﻬﻤﺎ ﻣﻦ اﻹﺣﺎﻃﺔ ﺑﺎﻟﺬﻛﺮ، ﻭﺗﻀﻊ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﺃﻃﺮاﻑ ﺃﺻﺎﺑﻊ ﻳﺪﻫﺎ اﻟﻴﺴﺮﻯ ﻋﻠﻰ ﻋﺎﻧﺘﻬﺎ. ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﻤﺠﻤﻮﻉ: ﻭاﻟﻤﺨﺘﺎﺭ ﺃﻥ ﺫﻟﻚ ﻳﺨﺘﻠﻒ ﺑﺎﺧﺘﻼﻑ اﻟﻨﺎﺱ. ﻭاﻟﻘﺼﺪ ﺃﻥ ﻳﻈﻦ ﺃﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﺒﻖ ﺑﻤﺠﺮﻯ اﻟﺒﻮﻝ ﺷﻲء ﻳﺨﺎﻑ ﺧﺮﻭﺟﻪ، ﻓﻤﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻳﺤﺼﻞ ﻫﺬا ﺑﺄﺩﻧﻰ ﻋﺼﺮ، ﻭﻣﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﺗﻜﺮﺭﻩ، ﻭﻣﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﺗﻨﺤﻨﺢ، ﻭﻣﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻻ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﺷﻲء ﻣﻦ ﻫﺬا. ﻭﻳﻨﺒﻐﻲ ﻟﻜﻞ ﺃﺣﺪ ﺃﻥ ﻻ ﻳﻨﺘﻬﻲ ﺇﻟﻰ ﺣﺪ اﻟﻮﺳﻮﺳﺔ، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻟﻢ ﻳﺠﺐ اﻻﺳﺘﺒﺮاء ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ ﺑﻪ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﻭاﻟﺒﻐﻮﻱ، ﻭﺟﺮﻯ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﻤﺼﻨﻒ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ ﻣﺴﻠﻢ ﻟﻘﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺗﻨﺰﻫﻮا ﻣﻦ اﻟﺒﻮﻝ ﻓﺈﻥ ﻋﺎﻣﺔ ﻋﺬاﺏ اﻟﻘﺒﺮ ﻣﻨﻪ ﻷﻥ اﻟﻈﺎﻫﺮ ﻣﻦ اﻧﻘﻄﺎﻉ اﻟﺒﻮﻝ ﻋﺪﻡ ﻋﻮﺩﻩ، ﻭﻳﺤﻤﻞ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﺇﺫا ﺗﺤﻘﻖ ﺃﻭ ﻏﻠﺐ ﻋﻠﻰ ﻇﻨﻪ ﺑﻤﻘﺘﻀﻰ ﻋﺎﺩﺗﻪ ﺃﻧﻪ ﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﺴﺘﺒﺮﺉ ﺧﺮﺝ ﻣﻨﻪ ﺷﻲء۔* (مغني المحتاج:١/١٥٩) *وَ وُجُوبِهِ (الإستبراء) مَحْمُولٌ عَلَى مَا إذَا غَلَبَ عَلَى ظَنِّهِ خُرُوجُ شَيْءٍ مِنْهُ بَعْدَ الِاسْتِنْجَاءِ إنْ لَمْ يَفْعَلْهُ۔* (نهاية المحتاج:١ /١٤٢)
فقہ شافعی سوال نمبر / 0858 *پانی اگر زیادہ ہو تو اس کے ناپاک ہونے کے لیے پانی کا مزہ، رنگ اور بو بدلنا ضروری ہے، یا صرف رنگ کی تبدیلی سے پانی ناپاک ہوگا ؟ *
*پانی اصلا تو پاک ہے لیکن اگر کثیر (تقریبا دو سو لیٹر) پانی میں نجاست گرجائے اور اس کا رنگ، بو یا مزہ تینوں میں سے کوئی ایک چیز بھی تبدیل ہوجائے تو وہ پانی ناپاک ہوگا۔*
*(وَالتَّغَيُّرُ الْمُؤَثَّرُ) حِسًّا أَوْ تَقْدِيرًا (بِطَاهِرٍ أَوْ نَجِسٍ طَعْمٌ أَوْ لَوْنٌ أَوْ رِيحٌ) أَيْ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ كَافٍ.* (مغني المحتاج :ج ١٣٠/١) *ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻜﺜﻴﺮ، ﻓﻴﻨﺠﺲ ﺑﺎﻟﺘﻐﻴﺮ ﺑﺎﻟﻨﺠﺎﺳﺔ ﻟﻹﺟﻤﺎﻉ، ﺳﻮاء ﻗﻞ اﻟﺘﻐﻴﺮ ﺃﻡ ﻛﺜﺮ، ﻭﺳﻮاء ﺗﻐﻴﺮ اﻟﻄﻌﻢ ﺃﻭ اﻟﻠﻮﻥ ﺃﻭ اﻟﺮاﺋﺤﺔ، ﻭﻛﻞ ﻫﺬا ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ ﻫﺎﻫﻨﺎ.* النووي روضة الطالبين وعمدة المفتين :1/19
فقہ شافعی سوال نمبر / 0859 *شربت یا چائے میں چونٹیاں گر جائے تو اس شربت و چائے کے پینے کا کیا حکم ہے؟*
*احادیث میں مشروبات کے اندر مکھی کے گرنے سے اسے نکال کر پینے کی گنجائش دی گئی ہے فقہائے کرام اسی حکم پر قیاس کرتے ہوئے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ اگر مشروب میں گرنے والے جانور کے اندر بہنے والا خون نہ ہو جیسے چونٹی، مکھی تو وہ مشروب پاک ہے اور اسے نکال کر پی سکتے ہیں۔*
*ولو مات حيوان في ماء قليل، أو في مائع آخر؛ فإن كان كثيراً؛ نظر: إن كان حيواناً تؤكل ميتته؛كالسمك والجراد، لا ينجس ما مات فيه. وإن كان لا تؤكل ميتته؛ نظر: إن كانت له نفس سائلة؛ كالفأرة والعصفور ونحوها، نجس ما مات إلا الآدمي؛ فإن فيه قولين؛ بناء على [نجاسته بالموت]. وإن لم تكن له نفسٌ سائلة؛ كالذباب والنمل والعقرب والزنبور والخنفساء ونحوها- ففيه قولان: أصحهما وهو قول أبي حنيفة، ومالكٍ، وأكثر أهل العلم رحمهم الله: لا ينجس ما مات فيه؛ لتعذر الاحتراز عنه. وروي عن أبي هريرة أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم- قال: "إذا وقع الذباب في إناء أحدكم، فليغمسه كله، ثم ليطرحه؛ فإن في أحد جناحيه شفاءً، وفي الآخر داء”.* (البغوي، أبو محمد، التهذيب في فقه الإمام الشافعي:١٦٢/١)
فقہ شافعی سوال نمبر / 0860 *اگر کسی جگہ بارش کا پانی جمع ہوجائے تو اس پانی سے وضو یا غسل کرنے کا کیا حکم ہے؟
*بارش کا پانی پاک ہے اگر بارش کا پانی کسی جگہ جمع ہوجائے جس سے وضو یا غسل کرنا ممکن ہو تو اس پانی سے وضو اور غسل کرنا اور نجاست کو دور کرنا درست ہے۔*
*قَالَ الْمُصَنِّفُ رَحِمَهُ اللَّهُ (يَجُوزُ رَفْعُ الْحَدَثِ وَإِزَالَةُ النَّجَسِ بِالْمَاءِ الْمُطْلَقِ وَهُوَ مَا نَزَلَ مِنْ السَّمَاءِ أَوْ نَبَعَ مِنْ الْأَرْضِ فَمَا نَزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءُ الْمَطَرِ وَذَوْبُ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَالْأَصْلُ فِيهِ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ (وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ) وَوَجْهُ الدَّلَالَةِ مِنْ الْآيَةِ لِمَا اسْتَدَلَّ بِهِ الْمُصَنِّفُ هُنَا وَهُوَ جَوَازُ الطَّهَارَةِ بِمَاءِ السَّمَاءِ ظَاهِرٌ وَهَذَا الْحُكْمُ مُجْمَعٌ عَلَيْهِ .* (المجموع : ١ /٨٠،٨١)