جمعرات _3 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0891
*بالکل باریک یا چست کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟*
*نماز کے لیے ستر فرض ہے اور ستر ایسا ہونا ضروری ہے جس سے بدن کا رنگ یا ساخت نظر نہ آئے، اگر کپڑا اتنا باریک اور فٹ ہو جس سے بدن کا رنگ نظر آتا ہو تو ایسے کپڑے پر نماز درست نہیں ہوگی، اس لیے کہ اس سے ستر کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ اگر کپڑا اتنا چُست (فِٹ) ہے جس سے بدن کی ساخت نظر آئے تو ایسے کپڑوں پر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔*
*قال الإمام الغمراوي رحمة الله عليه: وَشَرطه أَي السَّاتِر مَا أَي جرم منع إِدْرَاك لون الْبشرَة لَا حجمها فَتَصِح الصَّلَاة فِي الثِّيَاب الضيقة لَكِنَّهَا مَكْرُوهَة للْمَرْأَة وَخلاف الأولى للرجل.* (السراج الوهاج/٥٢) *قال الإمام خطيب الشربيني رحمه الله (وَشَرْطُهُ) أَيْ: السَّاتِرِ (مَا) أَيْ: جَزَمَ (مَنَعَ إدْرَاكَ لَوْنِ الْبَشَرَةِ) لَا حَجْمِهَا فَلَا يَكْفِي ثَوْبٌ رَقِيقٌ وَلَا مُهَلْهَلٌ لَا يَمْنَعُ إدْرَاكَ اللَّوْنِ وَلَا زُجَاجٌ يَحْكِي اللَّوْنَ لِأَنَّ مَقْصُودَ السَّتْرِ لَا يَحْصُلُ بِذَلِكَ. أَمَّا إدْرَاكُ الْحَجْمِ فَلَا يَضُرُّ لَكِنَّهُ لِلْمَرْأَةِ مَكْرُوهٌ وَلِلرَّجُلِ خِلَافُ الْأُولَى.* (مغني المحتاج: ١ / ٣٩۸)
اتوار _6 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0892
*مسبوق شخص امام کے سلام پھیرنے کے فورا بعد کھڑے ہوگا یا دونوں سلام مکمل ہونے کا انتظار کرے گا؟*
*مسبوق کے لیے مستحب یہ ہے کہ امام کے دونوں سلام سے فارغ ہونے کے بعد کھڑا ہو، اگر کوئی شخص امام کی پہلی سلام کے بعد کھڑا ہوجائے تو نماز درست ہوگی۔ البتہ امام کے السلام علیکم مکمل کرنے سے پہلے امام سے الگ ہونے کی نیت کے بغیر کھڑا ہوجائے تو نماز باطل ہوجائے گی۔*
*اتَّفَقَ أَصْحَابُنَا عَلَى أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ لِلْمَسْبُوقِ أَنْ لَا يَقُومَ لِيَأْتِيَ بِمَا بَقِيَ عَلَيْهِ إلَّا بَعْدَ فَرَاغِ الْإِمَامِ مِنْ التَّسْلِيمَتَيْنِ وَمِمَّنْ صَرَّحَ بِهِ الْبَغَوِيّ وَالْمُتَوَلِّي وَآخَرُونَ وَنَصَّ عَلَيْهِ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي مُخْتَصَرِ البويطي فقال ومن سبقه الامام بشئ مِنْ الصَّلَاةِ فَلَا يَقُومُ لِقَضَاءِ مَا عَلَيْهِ إلَّا بَعْدَ فَرَاغِ الْإِمَامِ مِنْ التَّسْلِيمَتَيْنِ قَالَ اصحابنا فان قام بعد فراغه من قوله السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فِي الْأُولَى جَازَ لِأَنَّهُ خَرَجَ مِنْ الصَّلَاةِ فَإِنْ قَامَ قَبْلَ شُرُوعِ الْإِمَامِ فِي التَّسْلِيمَتَيْنِ بَطَلَتْ صَلَاتُهُ إلَّا أَنْ يَنْوِيَ مفارقة الامام فيجئ فِيهِ الْخِلَافُ فِيمَنْ نَوَى الْمُفَارَقَةَ وَلَوْ قَامَ بَعْدَ شُرُوعِهِ فِي السَّلَامِ قَبْلَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ قَوْلِهِ عَلَيْكُمْ فَهُوَ كَمَا لَوْ قَامَ.* (المجموع:٤٨٣/٣)
منگل _8 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0893
*قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے لیے جدید آلات (قبلہ نما) کا استعمال کرتے ہوئے اس پر اعتماد کرنے کا کیا حکم ہے؟*
*نماز درست ہونے کے لیے قبلہ کی طرف رخ کرنا شرط ہے اور آج کل نماز کے لیے قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے لیے جو جدید آلات استعمال ہوتے ہیں ان آلات کا استعمال کرتے ہوئے قبلہ کی سمت معلوم کرنا اور اس پر اعتماد کرنا بھی جائز ہے۔*
*علامہ شیرازی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: ﻓﺼﻞ اﺳﺘﻘﺒﺎﻝ اﻟﻘﺒﻠﺔ ﺷﺮﻁ ﻟﺼﻼﺓ…* (مغني المحتاج: ٣٣٠/١) *علامہ سلیمان رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ﻭﻳﺠﻮﺯ اﻻﻋﺘﻤﺎﺩ ﻋﻠﻰ ﺑﻴﺖ اﻹﺑﺮﺓ ﻓﻲ ﺩﺧﻮﻝ اﻟﻮﻗﺖ ﻭاﻟﻘﺒﻠﺔ ﻹﻓﺎﺩﺗﻬﺎ اﻟﻈﻦ۔* (حاشية الجمل:٣٢٢/١)
جمعرات _10 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0894
*اگر کوئی پہلی رکعت میں بغیر توجیہ کے سورہ فاتحہ شروع کردے پھر فاتحہ ختم ہونے سے پہلے توجیہ پڑھے تو اس نمازکا کیا مسئلہ ہے؟*
*فرض اور نفل ہر نماز کے شروع میں سورہ فاتحہ شروع کرنے سے پہلے ہر ایک کے لیے توجیہ پڑھنا مستحب ہے۔ چاہے منفرد ہو یا امام لیکن شرط یہ ہے کہ ابھی سورہ فاتحہ شروع نہ کیا ہو اگر سورہ فاتحہ شروع کرچکا ہو تو توجیہ کی سنت فوت ہوجائے گی لھذا وہ توجیہ نہ پڑھے، چاہے بھول کر ہی توجیہ پڑھنا چھوڑ دیا ہو۔ یاد رہے اگر کوئی توجیہ پڑھے تب بھی نماز باطل نہیں ہوگی *
*قال الإمام النووي رحمة الله عليه: ثُمَّ يَقُولُ: (وَجَّهْتُ وَجْهِيَ. . .) إِلَى آخِرِهِ، وَمَنْ تَرَكَ دُعَاءَ الِاسْتِفْتَاحِ عَمْدًا أَوْ سَهْوًا حَتَّى شَرَعَ فِي التَّعَوُّذِ لَمْ يَعُدْ إِلَيْهِ، وَلَا يَتَدَارَكْهُ فِي بَاقِي الرَّكَعَاتِ، وَلَوْ أَدْرَكَ مَسْبُوقٌ الْإِمَامَ فِي التَّشَهُّدِ الْأَخِيرِ وَكَبَّرَ وَقَعَدَ فَسَلَّمَ الْإِمَامُ لِأَوَّلِ قُعُودِهِ قَامَ، وَلَا يَأْتِي بِدُعَاءِ الِاسْتِفْتَاحِ لِفَوَاتِ مَحَلِّهِ.* (روضة الطالبين:٢٤٠/١) *قُلْتُ: ذَكَرَ الشَّيْخُ أَبُو حَامِدٍ فِي تَعْلِيقِهِ: أَنَّهُ إِذَا تَرَكَ دُعَاءَ الِاسْتِفْتَاحِ، وَتَعَوَّذَ، عَادَ إِلَيْهِ مِنَ التَّعَوُّذِ، وَالْمَعْرُوفُ فِي الْمَذْهَبِ: أَنَّهُ لَا يَأْتِي بِهِ كَمَا تَقَدَّمَ. لَكِنْ لَوْ خَالَفَ فَأَتَى بِهِ، لَمْ تَبْطُلْ صَلَاتُهُ؛ لِأَنَّهُ ذِكْرٌ…* (روضة الطالبين) *قال الإمام أصحاب الفقه المنهجي رحمة الله عليه: تستحب قراءة التوجه في افتتاح المفروضة والنافلة، للمنفرد وللإمام والمأموم، بشرط أن لا يبدأ بقراءة الفاتحة بعد، فإن بدأ بها- وقد علمت أن البسملة جزء منها- أو بالتعوذ، فاتت سنية قراءة التوجه، فلا ينبغي أن يعود إليه ولو كان ناسياً.* (الفقه المنهجي: 1/149)
جمعہ _11 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0895
*فجر کی اذان میں اگر الصلاة خير من النوم کا جملہ چھوٹ جائے تو کیا اذان دوبارہ دینا ہوگا؟*
*فجر کی اذان میں الصلاة خير من النوم کہنا سنت ہے، اگر کسی اذان دینے والے شخص سے فجر کی اذان میں الصلاة خير من النوم کا جملہ چھوٹ جائے تو اذان درست ہوگی البتہ اذان ختم ہونے سے پہلے یاد آجائے تو الصلاة خير من النوم کہہ کر بقیہ اذان مکمل کرے، اذان ختم ہونے کے بعد یاد آجائے تو دوبارہ دینے کی ضرورت نہیں*
*قال الإمام النووي رحمة الله عليه: وَأَمَّا التثويب في الصبح فَفِيهِ طَرِيقَانِ الصَّحِيحُ الَّذِي قَطَعَ بِهِ الْمُصَنِّفُ وَالْجُمْهُورُ أَنَّهُ مَسْنُونٌ قَطْعًا لِحَدِيثِ أَبِي مَحْذُورَةَ ….. وَالْمَذْهَبُ أَنَّهُ مَشْرُوعٌ فعلى هذا هو سُنَّةٌ لَوْ تَرَكَهُ صَحَّ الْأَذَانُ وَفَاتَهُ الْفَضِيلَةُ هَكَذَا قَطَعَ بِهِ الْأَصْحَابُ۔*. (المجموع شرح المهذب:٩٢/٣) *قال الإمام ابن حجر الهيتمي رحمة الله عليه: قَوْلُهُ م روَأَتَى بِالْمَتْرُوكِ أَيْ حَيْثُ لَمْ يَطُلْ الْفَصْلُ بِمَا أَتَى بِهِ مِنْ غَيْرِ الْمُنْتَظِمِ بَيْنَ الْمُنْتَظِمِ وَمَا كَمُلَ بِهِ۔*. (تحفة المحتاج في شرح المنهاج وحواشي الشرواني والعبادي:٤٧٠/١). *قال الإمام الرافعي رحمة الله عليه: قوله أتى بالمتروك) أي ولو ترك بعض الكلمات من خلاله اتى به واعاد ما بعده.* (فتح العزيز بشرح الوجيز الشرح الكبير للرافعي:١٨٤/٣)
ہفتہ _12 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0896
*صفر کے مہینے کو بعض لوگ منحوس کہتے ہیں اور بہت کچھ باتیں عوام میں گردش کرتی ہے شریعت کی نظر میں اس کی کیا حقیقت ہے؟*
*صفر المظفر کے تعلق سے زمانے جاہلیت میں لوگوں کے درمیان بہت سی غلط باتیں اور غلط عقائد پائے جاتے تھے لیکن اسلام نے ان باطل نظریات کی مکمل تردید اور نفی کی ہے۔ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں لھذا آج بھی اس مہینے کے تعلق سے جو باطل عقیدے اور توہمات مشہور ہیں اور جس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ان میں سے چند اعمال مندرجہ ذیل ہیں:*
*مخصوص طریقہ پر خاص عقیدے کے ساتھ اسی مہینے میں مطلقاً نفل نمازیں پڑھنا۔*
*ماہ صفر میں نکاح اور ختنہ کرنے کو منحوس سمجھنا۔*
*ماہ صفر کے آخری بدھ کو کسی خاص عقیدے سے روزہ رکھنا۔*
*صفر مہینے کے آخری بدھ کو کسی خاص نیت سے خوشیاں منانا اور مٹھائیاں تقسیم کرنا*
*یہ تمام چیزیں زمانہ جاہلیت میں پائے جانے والی ماہ صفر کی خرافات ہیں ان اعمال کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں*
*لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ ، وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ.* (صحیح البخاری:٥٧٠٧) *صاحب منار القاری فرماتے ہیں: ﻳﺪﻝ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻣﺮاﺩﻩ اﻟﻨﻔﻲ ﻭﺇﺑﻄﺎﻝ ﻫﺬﻩ اﻷﻣﻮﺭ اﻟﺘﻲ ﻛﺎﻧﺖ ﻓﻲ اﻟﺠﺎﻫﻠﻴﺔ. ﻗﻠﺖ: ﻭاﻟﻨﻔﻲ ﻫﻨﺎ ﻳﺘﻀﻤﻦ ﻣﻌﻨﻰ اﻟﻨﻬﻲ ﻭﺯﻳﺎﺩﺓ ﻷﻧﻪ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﻌﻨﺎﻩ: ﻻ ﺗﻌﺘﻘﺪﻭا ﻫﺬﻩ اﻻﻋﺘﻘﺎﺩاﺕ اﻟﻮﻫﻤﻴﺔ، ﻷﻥ ﻫﺬﻩ اﻷﺷﻴﺎء اﻟﺘﻲ ﺗﻌﺘﻘﺪﻭﻧﻬﺎ ﺑﺎﻃﻠﺔ ﻻ ﻭﺟﻮﺩ. ﻟﻬﺎ ﻓﻲ اﻟﻮاﻗﻊ، ﻭﻻ ﺃﺳﺎﺱ ﻟﻬﺎ ﻣﻦ اﻟﺼﺤﺔ* (منار القاري:٥/٢٢٣) *فتاوی اللجنۃ الدائمہ میں ہے: ﻫﺬﻩ اﻟﻨﺎﻓﻠﺔ اﻟﻤﺬﻛﻮﺭﺓ ﻓﻲ اﻟﺴﺆاﻝ ﻻ ﻧﻌﻠﻢ ﻟﻬﺎ ﺃﺻﻼ ﻣﻦ اﻟﻜﺘﺎﺏ ﻭﻻ ﻣﻦ اﻟﺴﻨﺔ، ﻭﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﻟﺪﻳﻨﺎ ﺃﻥ ﺃﺣﺪا ﻣﻦ ﺳﻠﻒ ﻫﺬﻩ اﻷﻣﺔ ﻭﺻﺎﻟﺤﻲ ﺧﻠﻔﻬﺎ ﻋﻤﻞ ﺑﻬﺬﻩ اﻟﻨﺎﻓﻠﺔ، ﺑﻞ ﻫﻲ ﺑﺪﻋﺔ ﻣﻨﻜﺮﺓ، ﻭﻗﺪ ﺛﺒﺖ ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: «ﻣﻦ ﻋﻤﻞ ﻋﻤﻼ ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻴﻪ ﺃﻣﺮﻧﺎ ﻓﻬﻮ ﺭﺩ (¬2) » ﻭﻗﺎﻝ: «ﻣﻦ ﺃﺣﺪﺙ ﻓﻲ ﺃﻣﺮﻧﺎ ﻫﺬا ﻣﺎ ﻟﻴﺲ ﻣﻨﻪ ﻓﻬﻮ ﺭﺩ* (فتاوى اللجنة الدائمة:٢/٤٩٧) *فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: ﻣﺎ ﺫﻛﺮ ﻣﻦ ﻋﺪﻡ اﻟﺘﺰﻭﺝ ﺃﻭ اﻟﺨﺘﺎﻥ ﻭﻧﺤﻮ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ ﺷﻬﺮ ﺻﻔﺮ ﻧﻮﻉ ﻣﻦ اﻟﺘﺸﺎﺅﻡ ﻣﻦ ﻫﺬا اﻝﺷﻬﺮ، ﻭاﻟﺘﺸﺎﺅﻡ ﻣﻦ اﻟﺸﻬﻮﺭ ﺃﻭ اﻷﻳﺎﻡ ﺃﻭ اﻟﻄﻴﻮﺭ ﻭﻧﺤﻮﻫﺎ ﻣﻦ اﻟﺤﻴﻮاﻧﺎﺕ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ؛ ﻟﻤﺎ ﺭﻭاﻩ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻭﻣﺴﻠﻢ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: «ﻻ ﻋﺪﻭﻯ ﻭﻻ ﻃﻴﺮﺓ ﻭﻻ ﻫﺎﻣﺔ ﻭﻻ ﺻﻔﺮ (¬1) » ﻭاﻟﺘﺸﺎﺅﻡ ﺑﺷﻬﺮ ﺻﻔﺮ ﻣﻦ ﺟﻨﺲ اﻟﻄﻴﺮﺓ اﻟﻤﻨﻬﻲ ﻋﻨﻬﺎ، ﻭﻫﻮ ﻣﻦ ﻋﻤﻞ اﻟﺠﺎﻫﻠﻴﺔ ﻭﻗﺪ ﺃﺑﻄﻠﻪ اﻹﺳﻼﻡ.* (فتاوى اللجنة الدائمة:١/٦٥٨) إمداد المفتين:٢١٤ فتاوی رشیدیہ، کتاب العلم:۱۷۱
جمعرات _17 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0897
*کسی کو رات میں ایک سے زائد احتلام ہوجائے تو ایک ہی غسل کافی ہے، یا ہر بار غسل کرنا ہوگا؟*
*کسی شخص کو اگر متعدد مرتبہ فرض غسل کی ضرورت پیش آئے تو آخیر میں ایک مرتبہ غسل لینا کافی ہے۔ اگر غسل لینے کے بعد دوبارہ احتلام ہوجائے یا جماع کرے یا جماع کے بغیر صرف شہوت ابھرنے سے منی خارج ہوجائے تو دوبارہ غسل کرنا فرض ہے۔*
*قال الإمام النووي رحمة الله عليه في المجموع: وَكَذَا لَوْ أَجْنَبَ مَرَّاتٍ بجماع امرأة واحدة ونسوة أَوْ احْتِلَامٍ أَوْ بِالْمَجْمُوعِ كَفَاهُ غُسْلٌ بِالْإِجْمَاعِ سواء كَانَ الْجِمَاعُ مُبَاحًا أَوْ زِنًا وَمِمَّنْ نَقَلَ الاجماع فيه أبو محمد بن حزم* (المجموع. ١ / ٤٧٢) البخاري: ٥٢١٥، مسلم: ٣٠٩
اتوار _20 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0898
*سجدہ سھو کب تک کر سکتے ہیں؟سلام کے بعد سجدہ سھو کرنے کا کیامسئلہ ہے؟*
*سجدہ سھو سے پہلے اگر عمدا کوئی سلام پھیرے تو سجدہ سھو کا وقت فوت ہوگیا . اگر کوئی بھول کر سلام پھیرے اور زیادہ وقت گزر جائے تو سجدہ فوت ہوگیا اب سجدہ سھو نہ کرے لیکن سہوا سلام کے بعد جلدی ہی یاد آئے تو وہ سہو کی نیت سے دو سجدے کرسکتا ہے البتہ سجدوں کے بعد دوبارہ سلام پھیرے.*
*قال الإمام ابن حجر الهيتمي رحمه الله : ومحل سجود السهو بين التشهد والسلام ويفوت بالسلام عامدًا وكذا ناسيًا إن طال الفصل، فإن قصر عاد إلى السجود.* (المنهاج القويم/ ١٣٢) *قال الإمام أصحاب الفقه المنهجي حفظهم الله : فلو سلَّم المصلي قبل السجود عامداً أو ناسياً وطال الفصل؛ فات السجود، وإلا بأن قصر الفصل فله أن يتدارك السجود بأن يسجد مرتين بنية السهو ثم يسلِّم مرة أخرى.* (الفقه المنهجي :١٧٣/١) فتح الوهاب:1/64 أسنى المطالب :١٩٨/١
منگل _22 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0899
*شہد کی مکھی کو مارنے کا کیا حکم ہے ؟*
*شہد کی مکھی کو بلا وجہ مارنا جائز نہیں، ہاں اگر شہد کی مکھی تکلیف دے تو مارنے کی گنجائش ہے۔*
*قال الإمام النووي رحمه الله في المجموع: قَالَ أَصْحَابُنَا وَلَا يَجُوزُ قَتْلُ النَّحْلِ وَالنَّمْلِ وَالْخَطَّافِ وَالضُّفْدَعِ*. (المجموع:٧ / ٣١٦) *قال الإمام الرافعي رحمة الله عليه:ولا يَجْوزُ قَتْلُ النَّحْلِ، والنمل، والخطاف، والضفدع، لورود النَّهْي عن قتلها.* (شرح الكبير:٣ / ٤٩٤) *قال الزركشي رحمة الله عليه هو محمول على ما إذا لم يؤذ فإن أذى جاز إلحقاها بالفواسق الخمس وذكر الأزهري في "التهذيب”: أن المراد بالنمل المنهي عن قتله في الحديث الطويل التي تكون في الحشرات وهي لا تؤذي، واستفدنا من هذا التفسير أن النمل الطويل الذي يقال له السليماني إذا دخل البيوت وأذى جاز قتلها. انتهى* (حاشية الشرح الكبير ط العلمية:٣/٤٩٤) *قُلْت لِلشَّافِعِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَفَرَأَيْت مَا ظَفِرَ الْمُسْلِمُونَ بِهِ مِنْ ذَوَاتِ الْأَرْوَاحِ مِنْ أَمْوَالِ الْمُشْرِكِينَ مِنْ الْخَيْلِ وَالنَّحْلِ وَغَيْرِهَا مِنْ الْمَاشِيَةِ فَقَدَرُوا عَلَى إتْلَافِهِ قَبْلَ أَنْ يَغْنَمُوهُ أَوْ غَنِمُوهُ فَأَدْرَكَهُمْ الْعَدُوُّ فَخَافُوا أَنْ يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُمْ وَيَقْوَوْا بِهِ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَيَجُوزُ لَهُمْ إتْلَافُهُ بِذَبْحٍ أَوْ عَقْرٍ أَوْ تَحْرِيقٍ أَوْ تَغْرِيقٍ فِي شَيْءٍ مِنْ الْأَحْوَالِ؟ قَالَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى لَا يَحِلُّ عِنْدِي أَنْ يَقْصِدَ قَصْدَهُ بِشَيْءٍ يُتْلِفُهُ إذَا كَانَ لَا رَاكِبَ عَلَيْهِ.* (الأم للشافعي:٤ / ٢٧٣، ٢٧٤)
منگل _22 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0900
*اگر کوئی شخص رکوع کرنے پر قادر نہ ہو لیکن کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر ہو تو ایسا شخص نماز کیسے ادا کرے گا؟*
*نماز کے صحیح ہونے کے لیے کھڑا ہونا شرط ہے ہاں اگر کوئی شخص پوری نماز کھڑے ہوکر پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو یعنی رکوع اور سجدہ کرنے میں تکلیف ہو تو ایسا شخص نماز کھڑے ہو کر ہی پڑھے گا۔ البتہ صرف رکوع اور سجدہ کے لیے کرسی پر بیٹھ کر بقیہ نماز کھڑے ہوکر ادا کرے گا ۔*
*ﻭﻟﻮ ﻋﺠﺰ ﻋﻦ ﺭﻛﻮﻉ ﻭﺳﺠﻮﺩ) ﺩﻭﻥ ﻗﻴﺎﻡ. (ﻗﺎﻡ) ﻭﺟﻮﺑﺎ. (ﻭﻓﻌﻞ ﻣﺎ ﺃﻣﻜﻨﻪ) ﻓﻲ اﻧﺤﻨﺎﺋﻪ ﻟﻬﻤﺎ ﺑﺼﻠﺒﻪ۔* (حاشيه الجمل:١٩١/١) *(ﻭﻟﻮ ﺃﻣﻜﻨﻪ) اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻣﺘﻜﺌﺎ ﻋﻠﻰ ﺷﻲء ﺃﻭ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻴﻪ ﻟﺰﻣﻪ ﺫﻟﻚ؛ ﻷﻧﻪ ﻣﻴﺴﻮﺭﻩ. ﺃﻭ ﺃﻣﻜﻨﻪ (اﻟﻘﻴﺎﻡ ﺩﻭﻥ اﻟﺮﻛﻮﻉ ﻭاﻟﺴﺠﻮﺩ) ﻟﻌﻠﺔ ﺑﻈﻬﺮﻩ ﻣﺜﻼ ﺗﻤﻨﻊ اﻻﻧﺤﻨﺎء (ﻗﺎﻡ) ﻭﺟﻮﺑﺎ (ﻭﻓﻌﻠﻬﻤﺎ ﺑﻘﺪﺭ ﺇﻣﻜﺎﻧﻪ) ﻓﻲ اﻻﻧﺤﻨﺎء ﻟﻬﻤﺎ ﺑﺎﻟﺼﻠﺐ، ﻟﻘﻮﻟﻪ -ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ- ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﺇﺫا ﺃﻣﺮﺗﻜﻢ ﺑﺄﻣﺮ ﻓﺄﺗﻮا ﻣﻨﻪ ﻣﺎ اﺳﺘﻄﻌﺘﻢ ﻓﺈﻥ ﻋﺠﺰ ﻓﺒﺎﻟﺮﻗﺒﺔ ﻭاﻟﺮﺃﺱ، ﻓﺈﻥ ﻋﺠﺰ ﺃﻭﻣﺄ ﺇﻟﻴﻬﻤﺎ.* (مغني المحتاج:٣٤٩/١) ▪️ المجموع. ٢٥٨/٣ ▪️ المهذب. ١٩١/١ ▪️ النجم الوهاج. ٩٩/٢