بدھ _21 _اکتوبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0901
*کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا کیا مسئلہ ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے؟*
*کھانے کے بعد انگلیوں کو صاف کرنا یعنی چاٹنا سنت ہے۔ انگلیوں کو چاٹنے کے سلسلے میں فقہائے کرام نے ایک طریقہ یہ بھی بیان کیا ہے پہلے درمیان والی انگلی (بڑی انگلی) پھر اس کے ساتھ والی (شہادت کی انگلی) اور اخیر میں انگوٹھا چانٹے۔*
*علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ﻭﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺔ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻣﺮ ﺑﻠﻌﻖ اﻷﺻﺎﺑﻊ ﻭاﻟﺼﺤﻔﺔ ﻭﻗﺎﻝ اﻧﻜﻢ ﻻﺗﺪﺭﻭﻥ ﻓﻲ ﺃﻳﻪ اﻟﺒﺮﻛﺔ ﻭﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺔ ﺇﺫا ﻭﻗﻌﺖ ﻟﻘﻤﺔ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﻓﻠﻴﺄﺧﺬﻫﺎ ﻓﻠﻴﻤﻂ ﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﺑﻬﺎ ﻣﻦ ﺃﺫﻯ ﻭﻟﻴﺄﻛﻠﻬﺎ ﻭﻻﻳﺪﻋﻬﺎ ﻟﻠﺸﻴﻄﺎﻥ ﻭﻻﻳﻤﺴﺢ ﻳﺪﻩ ﺑﺎﻟﻤﻨﺪﻳﻞ ﺣﺘﻰ ﻳﻠﻌﻖ ﺃﺻﺎﺑﻌﻪ ﻓﺈﻧﻪ ﻻ ﻳﺪﺭﻱ ﻓﻲ ﺃﻱ ﻃﻌﺎﻣﻪ اﻟﺒﺮﻛﺔ* (شرح النووی: ٢٠٣/١٣) *عن محمد بن كعب بن عجرة، عن أبيه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكل بأصابعه الثلاث: بالإبهام، والتي تليها، والوسطى، ثم رأيته يلعق أصابعه الثلاث قبل أن يمسحها، ويلعق الوسطى، ثم التي تليها، ثم الإبهام* (المعجم الاوسط:١٨٠/٢) *علامہ نووی رحمة الله فرماتے ہیں: ﻭﻳﺴﺘﺤﺐ ﺃﻥ ﻳﻠﻌﻖ اﻟﻘﺼﻌﺔ، ﻭﺃﻥ ﻳﻠﻌﻖ ﺃﺻﺎﺑﻌﻪ، ﻭﺃﻥ ﻳﺄﻛﻞ اﻟﻠﻘﻤﺔ اﻟﺴﺎﻗﻄﺔ ﻣﺎ ﻟﻢ ﺗﺘﻨﺠﺲ ﻭ ﻳﺘﻌﺬﺭ ﺗﻄﻬﻴﺮﻫﺎ* (روضةالطالبين:٣٤١/٧)
منگل _8 _جون _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0902
غیر مسلم پچہ کی پیدائش پر کان میں اذان دینے کا کیا مسئلہ ہے؟
مسلمان بچہ کی طرح غیر مسلم بچہ کی پیدائش کے وقت بھی کان میں اذان دینا سنت ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم خود مطالبہ کرے تو اذان دینے میں کوئی حرج نہیں۔
وظاھر اطلاق المصنف۔فعل الاذان۔ وان کان المولود کافرا وھو قریب لان المقصود ان اول مایقرع سمعه ذکراللہ ودفع الشیطان عنہ وربما یکون دفعہ عنہ مؤدیا لبقائه علی الفطرۃ حتی یکون ذلك سببا لھدایته بعد بلوغه۔ (حاشیۃ الجمل:8/231) بجیرمی علی الخطیب:4/345 اسنی المطالب:2/473
منگل _29 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0903
*تکبیر تحریمہ کے وقت اللہ اکبر زبان سے نہ کہے صرف ہاتھ اٹھا کر باندھے تو کیا نماز درست ہوگی؟*
*تکبیر تحریمہ یعنی نماز شروع کرتے وقت اللہ اکبر کہنا ہے تکبیر تحریمہ نماز کا ایک رکن ہے، نماز میں اگر کوئی رکن چھوڑ جائے تو نماز درست نہیں، لھذا تکبیر تحریمہ کہنے والے پر واجب ہے کہ وہ اتنی بلند آواز سے تکبیر تحریمہ کہے جسے وہ خود سن سکے۔*
*قال شيخ الإسلام زكريا الأنصاري رحمه الله: ثُمَّ الرُّكْنُ (الثَّانِي تَكْبِيرَةُ الْإِحْرَامِ) فِي الْقِيَامِ، أَوْ بَدَلِهِ لِخَبَرِ الْمُسِيءِ صَلَاتَهُ…(وَيَجِبُ أَنْ يُكَبِّرَ قَائِمًا) حَيْثُ يَلْزَمُهُ الْقِيَامُ لِظَاهِرِ الْخَبَرِ السَّابِقِ (وَ) أَنْ (يُسْمِعَ نَفْسَهُ) إذَا كَانَ صَحِيحَ السَّمْعِ لَا عَارِضَ عِنْدَهُ مِنْ لَغَطٍ.* (أسنى المطالب:١ / ١٤٣، ١٤٤) *قال الإمام الدمياطي رحمه الله: قوله تكبير تحرم) قال البجيرمي: وفي البحر وجه أنها – أي تكبيرة الإحرام – شرط لأنه لا يدخل إلا بعد تمامها، فليست داخل الماهية…. (ويجب إسماعه) أي التكبير، (نفسه) إن كان صحيح السمع، ولا عارض من نحو لغط.* (إعانة الطالبين:١ / ١٥٣، ١٥٧) *قال الإمام سعيد باعشن رحمه الله (الثاني) من الأركان (أن يقول: الله أكبر)؛ …(ويشترط إسماع نفسه) جميع حروف (التكبير) حيث لا مانع من نحو لغط*. (بشرى الكريم. ١٩٨، ١٩٩) *قال الإمام النووي رحمه الله علیہ: فَتَكْبِيرَةُ الْإِحْرَامِ رُكْنٌ مِنْ أَرْكَانِ الصَّلَاةِ لَا تَصِحُّ إلَّا بِهَا هَذَا مَذْهَبُنَا*. (المجموع:٣ / ٢٨٩، ٢٩٠)
بدھ _30 _ستمبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0904
*دعاء قنوت بھول کر اگر کوئی سجدہ کے لیے جانے لگے پھر اسے یاد آئے تو ایسا شخص دعائے قنوت کے لیے واپس لوٹ سکتا ہے؟ اس سے نماز پر کیا اثر پڑے گا؟*
*اگر کوئی دعائے قنوت کو چھوڑ کر سجدہ کے لیے جھک جائے پھر اگر اسکو سجدہ میں جانے کے بعد یاد آجائے تو اب دعاۓ قنوت کی سنیت فوت ہوجائے گی اور وہ سجدے میں جانے کے بعد دعائے قنوت کے لیے واپس نہیں لوٹے گا، اور اگر سجدے میں جانے کے بعد واپس لوٹتا ہے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔*
*اگر اعضاء سجود یعنی گھٹنے اور ہاتھ زمین پر رکھنے سے پہلے ہی یاد آجائے یا ہاتھ اور گھٹنے بھی زمین پر رکھ دیا لیکن ابھی پیشانی زمین پر رکھنا باقی ہے تب یاد آجائے کہ دعائے قنوت نہیں پڑھی ہے تو اس وقت بھی وہ دعائے قنوت کے لئے واپس لوٹ سکتا ہے۔ البتہ ایسی صورت میں وہ سلام سے پہلے سجدہ سہو بھی کرے گا۔ والله أعلم*
*قال الإمام الرملي رحمة الله عليه:وَلَوْ) (نَسِيَ) إمَامٌ أَوْ مُنْفَرِدٌ (قُنُوتًا فَذَكَرَهُ فِي سُجُودِهِ) (لَمْ يَعُدْ لَهُ) لِتَلَبُّسِهِ بِفَرْضٍ، فَإِنْ عَادَ لَهُ عَامِدًا عَالِمًا بِتَحْرِيمِهِ بَطَلَتْ صَلَاتُهُ (أَوْ) ذَكَرَهُ (قَبْلَهُ) أَيْ قَبْلَ تَمَامِ سُجُودِهِ بِأَنْ لَمْ يُكْمِلْ وَضْعَ أَعْضَائِهِ السَّبْعَةِ (عَادَ) أَيْ جَازَ لَهُ الْعَوْدُ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَتَلَبَّسْ بِفَرْضٍ وَإِنْ دَلَّ ظَاهِرُ عِبَارَةِ الرَّوْضِ عَلَى امْتِنَاعِ الْعَوْدِ بَعْدَ وَضْعِ الْجَبْهَةِ فَقَطْ (وَيَسْجُدُ لِلسَّهْوِ إنْ بَلَغَ) هَوِيُّهُ (حَدَّ الرَّاكِعِ) أَيْ أَقَلَّهُ لِتَغْيِيرِهِ نَظْمَهَا بِزِيَادَةِ رُكُوعٍ سَهْوًا تَبْطُلُ بِتَعَمُّدِهِ.* (نهاية المحتاج مع حاشية الشبراملسي: ٢ / ٧٨) *قال الإمام الخطیب الشربيني رحمة الله عليه: ولو نسي قنوتا فذكره فى سجوده لم يعد له لتلبسه بفرض أو قبله بأن لم يضع جميع أعضاء السجود حتى لو وضع لجبهته فقط أو مع بعض أعضاء السجود عاد اى جاز له العود لعدم التلبس بالفرض ويسجد للسهو أن بلغ حد الركوع اى أقل الركوع فى هويه لأنه زاد ركوعا سهوا والعمد به مبطل بخلاف ما إذا لم يبلغه فلا يسجد.* (مغني المحتاج:١ / ٤٣٣) *قال الإمام الدميري رحمة الله عليه: قال: ولو نسي قنوتًا فذكره في سجوده لم يعد له) لتلبسه بفرض. قال:(أو قبله عاد)؛ لعدم التلبس به. قال (ويسجد للسهو إن بلغ حد الراكع) لأنه زاد ركوع* (النجم الوهاج:٢ / ٢٥٧)
پیر _12 _اکتوبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0905
*اگر کوئی سورہ فاتحہ کو تجوید کی رعایت کے ساتھ نہ پڑھے تو ان کی نماز کا کیا حکم ہے؟*
*نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اور یہ نماز کا ایک رکن ہے۔ ہر ایک کے لیے سورہ فاتحہ کو تجوید کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے اگر کوئی حرکات یا حروف کو بدل کر پڑھے اور اس سے معنی بدل جائے تو نماز درست نہیں ہوگی اور اگر حرف یا حرکات کو بدل کر پڑھنے سے اس لفظ کے معنی نہ بدلے تو نماز درست ہوگی۔*
علامہ خطیب شربین رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ﻭﻟﻮ ﺃﺑﺪﻝ ﺿﺎﺩا) ﻣﻨﻬﺎ: ﺃﻱ ﺃﺗﻰ ﺑﺪﻟﻬﺎ (ﺑﻈﺎء ﻟﻢ ﺗﺼﺢ) ﻗﺮاءﺗﻪ ﻟﺘﻠﻚ اﻟﻜﻠﻤﺔ (ﻓﻲ اﻷﺻﺢ) ﻟﺘﻐﻴﻴﺮﻩ اﻟﻨﻈﻢ ﻭاﺧﺘﻼﻑ اﻟﻤﻌﻨﻰ،.. (مغني المحتاج:٣٥٥/١) ﻭﻫﻲ ﺭﻛﻦ ﻓﻲ ﻛﻞ ﺭﻛﻌﺔ ﻣﻦ اﻟﺼﻼﺓ، ﺃﻳﺎ ﻛﺎﻥ ﻧﻮﻋﻬﺎ….ﻭﻻ ﺑﺪ ﻓﻲ ﻗﺮاءﺓ اﻟﻔﺎﺗﺤﺔ ﻣﻦ ﻣﺮاﻋﺎﺓ اﻟﺸﺮﻭﻁ اﻟﺘﺎﻟﻴﺔ:) (ا) ﺃﻥ ﻳﺮﺗﺐ اﻟﻘﺮاءﺓ ﺣﺴﺐ ﺗﺮﺗﻴﺒهااﻟﻮاﺭﺩ، ﻣﺮاﻋﻴﺎ ﻣﺨﺎﺭﺝ اﻟﺤﺮﻭﻑ، ﻭﺇﺑﺮاﺯ اﻟﺸﺪاﺕ ﻓﻴﻬﺎ.(ب) ﺃﻥ ﻻ ﻳﻠﺤﻦ ﻓﻴﻬﺎ ﻟﺤﻨﺎ ﻳﻐﻴﺮ اﻟﻤﻌﻨﻰ، ﻓﺈﻥ ﻟﺤﻦ ﻟﺤﻨﺎ ﻻ ﻳﺆﺛﺮ ﻋﻠﻰ ﺳﻼﻣﺔ اﻟﻤﻌﻨﻰ ﻟﻢ ﺗﺒﻄﻞ. (فقه المنهجى:١٣١/١) علامہ قلیوبی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: (ﻭﺗﺘﻌﻴﻦ اﻟﻔﺎﺗﺤﺔ ﻛﻞ ﺭﻛﻌﺔ) ﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﺸﻴﺨﻴﻦ ﻻ ﺻﻼﺓ ﻟﻤﻦ ﻟﻢ ﻳﻘﺮﺃ ﺑﻔﺎﺗﺤﺔ اﻟﻜﺘﺎﺏ۔(ﻭاﻟﺒﺴﻤﻠﺔ ﻣﻨﻬﺎ) ﻭﺗﺸﺪﻳﺪاﺗﻬﺎ) ﻣﻨﻬﺎ ﻷﻧﻬﺎ ﻫﻴﺌﺖ ﻟﺤﺮﻭﻓﻬﺎ اﻟﻤﺸﺪﺩﺓ ﻭﻭﺟﻮﺑﻬﺎ ﺷﺎﻣﻞ ﻟﻬﻴﺌﺘﻬﺎ. (ﻭﻟﻮ ﺃﺑﺪﻝ ﺿﺎﺩا) ﻣﻨﻬﺎ ﺃﻱ ﺃﺗﻰ ﺑﺪﻟﻬﺎ (ﺑﻈﺎء ﻟﻢ ﺗﺼﺢ) ﻗﺮاءﺗﻪ ﻟﺘﻠﻚ اﻟﻜﻠﻤﺔ (ﻓﻲ اﻷﺻﺢ) ﻟﺘﻐﻴﻴﺮﻩ اﻟﻨﻈﻢ. (حاشيتا قليوبي:١٦٩/١) ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻠﺤﻦ ﻓﻲ اﻟﻔﺎﺗﺤﺔ ﻭاﻟﻤﺮاﺩ ﺑﻪ ﺗﻐﻴﺮ ﺷﻲء ﻣﻦ ﺣﺮﻛﺎﺗﻬﺎ ﺃﻭ ﺳﻜﻨﺎﺗﻬﺎ ﻻ ﺧﺼﻮﺹ اﻟﻠﺤﻦ ﻓﻲ اﺻﻄﻼﺡ اﻟﻨﺤﻮﻳﻴﻦ ﻭﻫﻮ ﺗﻐﻴﻴﺮ اﻹﻋﺮاﺏ ﻭاﻟﺨﻄﺄ ﻓﻴﻪ ﻓﺎﻟﻤﺮاﺩ ﻫﻨﺎ ﻣﺎ ﻫﻮ ﺃﻋﻢ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﻓﺈﻥ ﻏﻴﺮ اﻟﻤﻌﻨﻰ ﻛﻀﻢ ﺗﺎء ﺃﻧﻌﻤﺖ ﺃﻭ ﻛﺴﺮﻫﺎ ﻓﺈﻥ ﺗﻌﻤﺪ ﻭﻋﻠﻢ ﺑﻄﻠﺖ ﺻﻼﺗﻪ.. (نهاية الزين:٦١/١)
بدھ _7 _اکتوبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0906
*نماز میں تشہد اخیر میں بیٹھ کر اگر کوئی سوجائے پھر بیدار ہوکر تشہد و درود مکمل کرے تو ایسے شخص کی نماز کا کیا حکم ہے؟*
*اگر کوئی شخص نماز کی حالت میں بیٹھے ہوئے کچھ دیر کے لیے سو جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوگی۔ لھذا تشہد اخیر میں حالت تمکین میں سو کر بیدار ہوجائے پھر تشہد اور درود پڑھ کر نماز مکمل کرے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوگی۔ اگر سونے کی وجہ سے نماز کا کوئی چھوٹا رکن اعتدال اور جلسہ (دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا) بڑا ہوجائے تو نماز باطل ہوجائے گی۔*
*قال شيخ الإسلام زكريا الأنصاري رحمة الله عليه: لَوْ أُغْمِيَ عَلَيْهِ وَهُوَ جَالِسٌ فِي التَّشَهُّدِ مُتَمَكِّنًا بَطَلَتْ صَلَاتُهُ لِانْتِقَاضِ وُضُوئِهِ صَرَّحَ بِهِ أَبُو الْفُتُوحِ الْعِجْلِيّ بِخِلَافِ مَا لَوْ نَامَ فِي الصَّلَاةِ مُمَكِّنَ الْمَقْعَدَةِ فَإِنَّهُ لَا تَبْطُلُ صَلَاتُهُ إنْ قَصَرَ زَمَنُ النَّوْمِ فَإِنْ طَالَ وَكَانَ فِي رُكْنٍ قَصِيرٍ بَطَلَتْ لِانْقِطَاعِ الْمُوَالَاةِ بِتَطْوِيلِ الرُّكْنِ الْقَصِيرِ أَوْ فِي رُكْنٍ طَوِيلٍ كَالتَّشَهُّدِ لَمْ تَبْطُلْ صَلَاتُهُ هَذَا مُقْتَضَى.* (أسنى المطالب:١ / ٥٥) *قال الإمام ابن حجر الهيتمي رحمة الله عليه :وَلَوْ سَكَتَ) أَوْ نَامَ فِيهَا مُمَكَّنًا خِلَافًا لِمَنْ وَهَمَ فِيهِ (طَوِيلًا) فِي غَيْرِ رُكْنٍ قَصِيرٍ فِي صُورَةِ السُّكُوتِ الْعَمْدِ كَمَا هُوَ مَعْلُومٌ مِنْ كَلَامِهِ (بِلَا غَرَضٍ لَمْ تَبْطُلْ فِي الْأَصَحِّ) لِأَنَّهُ لَا يَحْرُمُ هَيْئَتُهَا أَمَّا الْيَسِيرُ فَلَا يَضُرُّ جَزْمًا*.(تحفة المحتاج مع وحواشي الشرواني والعبادي:٢ / ١٤٨) *قال الإمام النووي رحمة الله عليه: وحاصل المنقول في النوم خمسة أقوال للشافعي, الصحيح منها من حيث المذهب, ونصه في كتبه ونقل الأصحاب, والدليل أنه إن نام ممكنا مقعده من الأرض أو نحوها لم ينتقض, وإن لم يكن ممكنا انتقض على أي هيئة كان في الصلاة وغيرها.* (المجموع:٢ / ١٤) *قال الإمام الرملي رحمة الله عليه: وَلَوْ سَكَتَ طَوِيلًا) وَلَوْ بِنَوْمٍ مُمْكِنٌ مَقْعَدُهُ فِي غَيْرِ رُكْنٍ قَصِيرٍ (بِلَا غَرَضٍ لَمْ تَبْطُلْ) صَلَاتُهُ (فِي الْأَصَحِّ) ؛ لِأَنَّهُ غَيْرُ مُخِلٍّ بِهَيْئَتِهَا.* (نهاية المحتاج مع حاشية)
بدھ _7 _اکتوبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0907
*اگر کوئی اعتدال میں طویل اذکار پڑھے اور اعتدال لمبا ہوجائے تو نماز کا کیا حکم ہے؟*
*اعتدال رکن قصیر ہے اور رکن قصیر کو طویل کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، البتہ جن صورتوں میں اعتدال کو طویل کرنا مشروع ہے وہاں پر طویل کرنے سے نماز باطل نہیں ہوگی جیسے قنوت پڑھنے کے لئے اور صلاۃ التسبیح میں تسبیحات پڑھنے کے لئے اعتدال کو طویل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔*
*قال الإمام الرملي رحمه الله عليه : وتُكْرَهُ إطَالَةُ الْقُنُوتِ كَالتَّشَهُّدِ الْأَوَّلِ كَمَا فِي الْمَجْمُوعِ عَنْ الْبَغَوِيّ وَقَضِيَّتُهُ عَدَمُ الْبُطْلَانِ بِتَطْوِيلِهِ بِهِ وَهُوَ كَذَلِكَ كَمَا أَفَادَهُ الشَّيْخُ، وَلَا يُقَالُ: قِيَاسُ امْتِنَاعِ تَطْوِيلِ الرُّكْنِ الْقَصِيرِ عَمْدًا بُطْلَانُهَا لِأَنَّهُ مَحْمُولٌ عَلَى غَيْرِ مَحَلِّ الْقُنُوتِ مِمَّا لَمْ يُرِدْ الشَّرْعُ بِتَطْوِيلِهِ*. (اسنی المطالب:۵۵/۱) *قال الإمام خطيب الشربيني رحمه الله:(فَالِاعْتِدَالُ قَصِيرٌ) لِأَنَّهُ لِلْفَصْلِ بَيْنَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وَاخْتَارَ الْمُصَنِّفُ مِنْ حَيْثُ الدَّلِيلُ جَوَازَ تَطْوِيلِ كُلِّ اعْتِدَالٍ بِذِكْرٍ غَيْرِ رُكْنٍ. وَقَالَ الْأَذْرَعِيُّ: إنَّهُ الصَّحِيحُ مَذْهَبًا وَدَلِيلًا وَأَطَالَ فِي ذَلِكَ وَنَقَلَهُ عَنْ نَصِّ الشَّافِعِيِّ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ – وَغَيْرِهِ بِخِلَافِ تَطْوِيلِهِ بِرُكْنٍ كَالْفَاتِحَةِ وَالتَّشَهُّدِ. أَمَّا تَطْوِيلُهُ بِمَشْرُوعٍ كَقُنُوتٍ فِي مَوْضِعِهِ أَوْ تَسْبِيحٍ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ الْآتِي بَيَانُهَا فِي صَلَاةِ النَّفْلِ فَلَا يُبْطِلُ الصَّلَاةَ لِوُرُودِهِ.* (مغني المحتاج:١ / ٤٣٠) *قال الإمام الحرمين رحمه الله عليه: قال العلماء: القَوْمةُ عن الركوع قصيرة، لا تطويل فيها، إلا القومة التي شُرع القنوت فيها، وكذلك القَوْمةُ عن الركوع في صلاة التسبيح مطولة بالتسبيح، وقد صح ذلك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.* (نهاية المطلب:٢ / ٢٦٧) *قال الإمام النووي رحمة الله عليه قَالَ أَصْحَابُنَا الْخُرَاسَانِيُّونَ وَالِاعْتِدَالُ عَنْ الرُّكُوعِ رُكْنٌ قَصِيرٌ أُمِرَ الْمُصَلِّي بِتَخْفِيفِهِ فَلَوْ أَطَالَهُ عَمْدًا بِالسُّكُوتِ أَوْ الْقُنُوتِ حَيْثُ لَمْ يُشْرَعْ أَوْ بِذِكْرٍ آخَرَ فَثَلَاثَةُ أَوْجُهٍ أَصَحُّهَا عِنْدَ إمَامِ الْحَرَمَيْنِ وَبِهِ قَطَعَ الْبَغَوِيّ تَبْطُلُ صَلَاتُهُ إلَّا حَيْثُ وَرَدَ الشَّرْعُ بِالتَّطْوِيلِ فِي الْقُنُوتِ أَوْ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ وَقَدْ قَطَعَ الْمُصَنِّفُ بِهَذَا فِي قَوْلِهِ.* (المجموع:٤ / ١٢٦، ١٢٧)
بدھ _21 _اکتوبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0908
*حاملہ عورت کی شرمگاہ میں ڈاکٹر علاج و معالجہ کے لیے اگر کوئی چیز داخل کرے تو کیا اس عورت پر غسل واجب ہوگا؟*
*علاج کی غرض سے ڈاکٹر ہاتھ یا کوئی دوسری چیز عورت کی شرمگاہ میں داخل کرنے سے اس پر غسل واجب نہیں ہوگا۔*
*قال الامام النووي رحمة الله عليه: فَإِنَّهُ يُوجِبُ الْغُسْلَ بِالِاتِّفَاقِ مَعَ أَنَّهُ لَا يُقْصَدُ بِهِ لَذَّةٌ فِي الْعَادَةِ: وَالثَّانِي أَنَّ الْأُصْبُعَ لَيْسَتْ آلَةً لِلْجِمَاعِ: وَلِهَذَا لَوْ أَوْلَجَهَا فِي امْرَأَةٍ حَيَّةٍ لَمْ يَجِبْ الْغُسْلُ بِخِلَافِ الذكر والله أعل.* (المجموع شرح المهذب:2/138) *قال الامام الخطيب الشر بيني رحمة الله عليه: وَجَنَابَةٌ بِدُخُولِ حَشَفَةٍ، أَوْ قَدْرِهَا فَرْجًا، …وَجَنَابَةٌ بِدُخُولِ حَشَفَةٍ، أَوْ قَدْرِهَا فَرْجًا۔* (مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج:٢١٣/١)
پیر _12 _اکتوبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0909
*کن صورتوں میں نمازِ جنازہ غائبانہ پڑھ سکتے ہیں نیز لاک ڈاؤن کے پیش نظر مقام میں رہتے ہوئے غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا کیا مسئلہ ہے؟*
*غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے شرط یہ ہے کہ میت شہر سے باہر ہو، چاہے شہر بڑا ہو یا چھوٹا، اور جنازہ کو غسل دیا جاچکا ہو۔ البتہ لاک ڈاؤن کے پیش نظر وفات پانے والے شخص پر جنازہ کی نماز ہوچکی ہو تو باقی حضرات اپنی اپنی جگہوں پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں۔*
*قال الإمام النووي رحمة الله عليه: و مذهبنا جواز الصلاة على الميت الغائب عن البلد سواء كان في جهة القبلة أم في غيرها ولكن المصلي يستقبل القبلة ولا فرق بين أن تكون المسافة بين البلدين قريبة أو بعيدة ولا خلاف في هذا كله عندنا أما إذا كان الميت في البلد فطريق انا المذهب وبه قطع المصنف والجمهور لا يجوز أن يصلي عليه حتى يحضر عنده لأن النبي ﷺ لم يصل على حاضر في البلد إلا بحضرته ، ولأنه لا مشقة فيه بخلاف الغائب عن البلد .* (المجموع:٥ / ٢٠٦) *قال الإمام ابن حجر الهيتمي رحمة الله عليه : ولَوْ تَعَذَّرَ عَلَى مَنْ فِي الْبَلَدِ الْحُضُورُ لِحَبْسٍ أَوْ مَرَضٍ لَمْ يَبْعُدْ جَوَازُ ذَلِكَ كَمَا بَحَثَهُ الْأَذْرَعِيُّ، وَجَزَمَ بِهِ ابْنُ أَبِي الدَّمِ فِي الْمَحْبُوسِ لِأَنَّهُمْ قَدْ عَلَّلُوا الْمَنْعَ بِتَيَسُّرِ الذَّهَابِ إلَيْهِ، وَفِي مَعْنَاهُ إذَا قُتِلَ إنْسَانٌ بِبَلَدٍ وَأُخْفِيَ قَبْرُهُ عَنْ النَّاسِ وَالْأَوْجَهُ فِي الْقُرَى الْمُتَقَارِبَةِ جِدًّا أَنَّهَا كَالْقَرْيَةِ الْوَاحِدَةِ، وَلَوْ صَلَّى عَلَى مَنْ مَاتَ فِي يَوْمِهِ أَوْ سَنَتِهِ وَظَهَرَ فِي أَقْطَارِ الْأَرْضِ جَازَ وَإِنْ لَمْ يَعْرِفْ عَيْنَهُمْ بَلْ تُسَنُّ؛ لِأَنَّ الصَّلَاةَ عَلَى الْغَائِبِ جَائِزَةٌ وَتَعَيُّنُهُمْ غَيْرُ شَرْطٍ*. (نهاية المحتاج :٢ / ٤٨٥) *قال الإمام الخطيب الشربيني رحمة الله عليه: أمَّا الْحَاضِرُ بِالْبَلَدِ فَلَا يُصَلِّي عَلَيْهِ إلَّا مَنْ حَضَرَ وَإِنْ كَبُرَتْ الْبَلَدُ لِتَيَسُّرِ حُضُورِهِ وَشَبَّهُوهُ بِالْقَضَاءِ عَلَى مَنْ بِالْبَلَدِ مَعَ إمْكَانِ حُضُورِهِ، وَلَوْ تَعَذَّرَ عَلَى مَنْ فِي الْبَلَدِ الْحُضُورُ لِحَبْسٍ أَوْ مَرَضٍ لَمْ يُبْعَدْ الْجَوَازُ كَمَا بَحَثَهُ.* (مغني المحتاج : ٢ / ٢٨) *قال الإمام الدمياطي رحمة الله عليه لو تعذر الحضور لها بنحو حبس أو مرض: جازت حينئذ -على الاوجه-(قوله: جازت) أي الصلاة (وقوله: حينئذ) أي حين إذ تعذر الحضور لها(وقوله: على الأوجه) أي عند الرملي وفي التحفة خلافه، وعبارتها فلا يصلى عليه وإن كبرت وعذربنحو مرض، أو حبس، كما شمله إطلاقهم* (إعانة الطالبين:٢ / ٢٠٨) *قال الإمام القليوبي رحمة الله عليه والمراد به من يشق عليه الحضور مشقة لا تحتمل عادة ولو في البلد*. (حاشيتا القليوبي وعميرة:١ /٣٩١)
منگل _20 _اکتوبر _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر /0910
* دو سال سے کم عمر کا بچہ اگر موبائیل پر پیشاب کردے تو اس موباہیل کو پاک کرنےکا کیا مسئلہ ہے؟*
*پیشاب عین نجس ہے۔ موبائل فون پر اگر دو سال سے کم عمر کا ایسا بچہ پیشاب کرے جو غذا کے طور پر دودھ کے علاوہ کوئی اور چیز نہ کھاتا ہو تو موبائل فورا کھول کر سکھادے اور اوپر سے اتنا پانی چھڑکا جائے کہ پیشاب کے محل کو گھیر دے تو اب موبائل پاک ہوجائے گا، پانی بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بچہ دودھ کے علاؤہ کچھ کھاتا ہو یا بچہ کی عمر دو سال یا اس سے زیادہ ہو تو پھر پانی بہانا ضروری ہے۔*
*قال الإمام الرافعي رحمه الله عليه: الواجب في إزالة النجاسات الغسل إلا في بول الصبي الذي لم يَطْعَمْ، ولم يشرب سوى اللبن، فيكفي فيه الرَّشُّ، ولا يجب الغُسْلُ.* (الشرح الكبير: ١ / ٦٤) *قال الإمام عبد الواحد الروياني رحمة الله عليه: أن أبوال الآدميين كلها نجسة سواء في ذلك بول الكبير والصغير، والأنثى والذكر، ويجب غسل جميعها إلا بول الغلام ما لم يطعم الطعام، فإن الرش عليه يجزى، وهو أن ينضح بالماء حتى يغمره من غير أن ينزل الماء عنه، وأطلق أصحابنا هذا اللفظ، ومن أصحابنا من قيد. وقال: ما لم يطعم الطعام غير اللبن، وهو صحيح.* (بحر المذهب: ٢ / ١٨٩ ) *قال النووي رحمة الله عليه: إذا أصابت النجاسة شيئاً صقيلاً كالسيف والسكين والمرآة ونحوها لم تطهر بالمسح ولا تطهر إلا بالغسل كغيرها* (المجموع: ٢ / ٥٩٩) *قال الإمام خطيب الشربيني رحمة الله عليه: وَالصَّقِيلُ مِنْ سَيْفٍ وَسِكِّينٍ وَنَحْوِهِمَا كَغَيْرِهِ فَلَا يَكْفِي مَسْحُهُ بَلْ لَا بُدَّ مِنْ غَسْلِه.* (مغني المحتاج: ١ / ٢٤٣) *قال الإمام النووي رحمة الله عليه: إِذَا أَصَابَتِ النَّجَاسَةُ شَيْئًا صَقِيلًا، كَسَيْفٍ، وَسِكِّينٍ، وَمِرْآةٍ، لَمْ يَطْهُرْ بِالْمَسْحِ عِنْدَنَا، بَلْ لَا بُدَّ مِنْ غَسْلِهَا. * (روضة الطالبين:١ / ٣٠)