اتوار _29 _جنوری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0111
اگر کوئی شخص کسی بیماری کی وجہ سے مکمل دن یا کسی ایک نماز کے مکمل وقت تک بےہوش رہا تو ان نمازوں کی قضاء کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر اس کا اسی حالت میں انتقال ہو جائے تو کیا ان نمازوں کی قضاء اس کے ذمہ باقی رہیگی؟
جواب:۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "تین لوگوں سے قلم کو اٹھا لیا گیا ہے، سونے والے سے یہاں تک کہ بیدار ہو جائے مجنون سے یہاں تک کہ اس کا جنون ختم ہو جائے بچہ ہاں تک کہ بالغ ہو جائے۔(ابو داؤد 4398)
اس حدیث سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ مجنون سے نماز ساقط ہو جاتی ہے اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر کوئی شخص بیماری یا کسی کی اور وجہ سے مکمل دن یا کسی ایک نماز کے وقت بے ہوش رہا تو ان نمازوں کی قضاء ضروری نہیں ، نیز اگر اسی حالت میں انتقال ہوگیا تو ان نمازوں کی قضاء اس کے ذمہ باقی نہیں رہتی البتہ قضا کرنا مستحب ہے۔
—————
امام رملی رحمة الله عليه فرماتے ہیں
ولا قضاء….ذي جنون أو إغماء ورد النص فى الجنون وقيس عليه كل من زال عقله بسبب بعذر فيه سواء أقل زمن ذلك أم طال…ويستحب للمجنون والمغمى عليه ونحوها القضاء (نهاية المحتاج1/241)
جمعرات _26 _جنوری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0112
اگر کوئی شخص حالتِ حیض میں اپنی بیوی سے جماع کرے تو اس کے لئے شرعاً کیا حکم ہے،نیز ایسے شخص کے بارے میں شرعاً کیا وعید ہے؟
جواب :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے”کہ لوگ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں. آپ کہہ دیجئے کہ وہ گندہ اور نقصان دہ خون ہوتا ہے.اس لئے حالتِ حیض میں اپنی عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ جب خون سے اچھی طرح پاک ہو جائیں تو ان کے ساتھ اس جگہ جماع کرو جہاں جماع کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے (البقرۃ: 222)
حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا سے منقول ہے فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عورتوں سے مباشرت کرتے درانحالیکہ وہ حائضہ ہوتیں اور ان پر ازار ہوتی رانوں تک یا گھٹنوں تک جس کے ذریعہ وہ پردہ کرتے۔(ابوداؤد: 267)
آیتِ کریمہ اور حدیثِ پاک سے پتہ چلتا ہے اور امت کا اس بات پر اجماع بھی ہے کہ حالتِ حیض میں عورت سے جماع کرنا حرام ہے، اگر کوئی شخص حالتِ حیض میں اپنی بیوی سے جماع کرے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہوگا بلکہ اس کی تعزیر کی جائے گی اور وہ اللہ سے استغفار کرے گا اور توبہ کرے گا. اور وہ کہ جس میں ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرنے کا ذکر ہے اس حدیث کو امام نووی رحمة الله عليه نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس پر حفاظ کا اتفاق بھی نقل کیا ہے، پس درست بات یہ ہے کہ اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے.(شرحِ مسلم: 536)
—————
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
أجمع المسلون على تحريم وطئ الحائض للآية الكريمة والأحاديث الصحيحة …….
الصحيح الجديد لا يلزمه كفارة بل يعذر ويستغفرالله تعالى ويتوب.(المجموع:362/2)
بدھ _25 _جنوری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0113
بسا اوقات بعض جگہوں پر پانی میں کیمیکل چھوڑا جاتا ہے جس کی وجہ سے مچھلیاں پانی کے کنارے لگ جاتی ہیں اگر ان کو فورا نہ پکڑا جائے تو تھوڑی دیر کے بعد مر جاتی ہیں تو ایسی مچھلی کے کھانے کا کیا حکم ہے ؟
جواب:۔ سمندر کا مردار تمام حلال ہے، چاہے وہ شکار کے بعد فطری موت مرے یا کسی سبب کی بنا پر مرے، لہذا کسی جگہ اگر کیمیکل چھوڑنے کی وجہ سے مچھلیاں مر جائیں تو وہ سب حلال ہیں جبکہ ان مچھلیوں کو کھانے کی بناء پر کسی قسم کے ضرر کا اندیشہ نہ ہو، ہاں اگر کسی بیماری وغیرہ کا اندیشہ ہو تو حرام ہیں۔
————
قال الامام النووي:
فيحل عندنا كل ميتات البحر… سواء ما مات بسبب و غيره (المجموع 9/30)
وقال ايضاً:
قد ذكرنا أن مذهبنا: إباحة ميتتات السمك سواء الذي مات بسبب (المجموع. 9/70)
قال وهبة الزحيلي:
مذهب الجمهور غير الحنفية، ورأيهم هو الاصح: حيوان الما: السمك و شبهه مما لا يعيش إلا في الما…. حلال… كيف مات ، حتف أنفه ،أو بسبب ظاهر…. لكن إنتفخ الطافي بحيث يخشي منه السقم يحرم للضرر (موسوعة الفقه الإسلامي 3/672)
منگل _24 _جنوری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0114
میت کو غسل دیتے وقت غسل میت کے ساتھ احتلام و جنابت وغیرہ کا غسل دینے کا عام رواج ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ غسل میت سے تمام غسل ادا ہوتے ہیں یا نہیں؟
جواب:۔ ميت کو غسل دیتے وقت احتلام و جنابت کے غسل کا رواج صحیح نہیں ہے، بلکہ صرف غسل میت کافی ہے۔
—————
علامہ خطیب شربینی فرماتے ہیں
ولو اجتمع على المرأة غسل حيض و جنابة كفت نية أحدهما قطعا.(مغني المحتاج:125/1)
سيلانه على جميع البدن أي شرائط مخصوصة بالنية أي فى غير غسل الميت … أي أما هو فلا يجب فيه النیة بل يستحب.(حواشي الشرواني وابن القاسم العبادي:257/1)
پیر _23 _جنوری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0115
اگر کسی میت کو دفن کرنے کے لیے قبر کے بقدر جگہ خریدنی ہو تو قبر کی جگہ کی قیمت میت کے ترکہ (مال) میں سے دیجائے گی یا ورثاء اپنے مال میں سے اداء کرینگے؟
جواب:۔ اگر کسی میت کو دفن کرنے کے لیے قبر کے بقدر جگہ خریدنی ہو تو اس جگہ کی قیمت میت کے ترکہ سے دیجائے گی ، ورثاء اپنے ذاتی مال سے میت کی تجہیز و تکفین کا خرچہ دینا ضروری نہیں ۔
—————-
امام شافعی رحمة الله عليه فرماتے ہیں :
وكفن الميت و حنوطه ومؤنته حتى يدفن من رأس ماله ليس لغرمائه ولا لوارثه منع ذالك۔(الأم:595/2)
ہفتہ _21 _جنوری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0116
ایصالِ ثواب کے لئے میت کی جانب سے جو چیز خرچ کی جائے وہ صدقہ میں شمار کی جائے گی یا نہیں؟ تو اس کے پیش نظر اگر میت کے ایصالِ ثواب کے لئے کھانا پکا کر امیر و غریب دونوں قسم کے لوگوں کو کھلایا جائے تو مالدار لوگوں کے لئے اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:۔ میت کی طرف سے ایصالِ ثواب کی خاطر جو دیا جاتا ہے وہ سب صدقہ نہیں ہوا کرتا، بلکہ اس میں دینے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا، اگر صدقہ تطوع (مستحب ) کے طور پر دیا گیا ہو پھر اس میں مالدار بھی شریک ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں، ہاں واجب صدقہ (زکات، وغيره) میں مالدار لوگوں کو شامل کرنا جائز نہیں ہے۔ نیز مالدار کو نفلی صدقہ لینے سے احتیاط کرنا بہتر ہے۔
————–
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
قال اصحابنا: لا يجوز صرف الزكاة إلى غني من سهم الفقراء والمساكين (المجموع:219/6)
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
ﺗﺤﻞ ﺻﺪﻗﺔ اﻟﺘﻄﻮﻉ للأﻏﻨﻴﺎء ﺑﻼ ﺧﻼﻑ ﻓﻴﺠﻮﺯ ﺩﻓﻌﻬﺎ ﺇﻟﻴﻬﻢ ﻭﻳﺜﺎﺏ ﺩاﻓﻌﻬﺎ ﻋﻠﻴﻬﺎ و لكن المحتاج أفضل۔(المجموع:٢٣٢\٦)
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں يستحب للغني التنزه عنها(روضةالطالبين:204/2)
جمعرات _19 _جنوری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0117
اگر کوئی شخص سفر کی وجہ سے جمع تقدیم کرے، پھر اپنے شہر کو اس وقت پہنچے کہ ابھی دوسری نماز کا وقت شروع نہ ہوا ہو، تو کیا اس کی دوسری نماز ہوگئی ہوگی یا دوبارہ اس نماز کو دہرانا ہوگا ؟
جواب:۔ جمع تقدیم کے لئے یہ شرط ہے کہ دوسری نماز مکمل ہونے تک سفر باقی ہو لہٰذا مذکورہ صورت میں اس کی دونوں نماز صحیح ہوجائے گی. لہٰذا اسے دوسری نماز کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی مسافر ظہر کے وقت ظہر اور عصر کو جمع کر دے، اور عصر کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہی اس کا سفر ختم ہو جائے تو اسے عصر کی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ۔
————
وَمِنْ ثَمَّ لَوْ جَمَعَ تَقْدِيمًا، ثُمَّ دَخَلَ الْمَقْصِدَ فِي وَقْتِ الظُّهْرِ لَمْ تَلْزَمْهُ إعَادَةُ الْعَصْرِ۔(تحفة المحتاج في شرح المنهاج – الهيتمي 1 / 438)
وَلَوْ جَمَعَ تَقْدِيمًا فَصَارَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مُقِيمًا بَطَلَ الْجَمْعُ. وَفِي الثَّانِيَةِ وَبَعْدَهَا لَا يَبْطُلُ فِي الْأَصَحِّ۔(منهاج الطالبين وعمدة المفتين – النووي ص : 46)
منگل _17 _جنوری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0118
کھانا کھانے کے بعد عام طور پر napkin سے ہاتھ صاف کیا جاتا ہے اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب:۔ کھانا کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ لے پھر رومال وغیرہ سے صاف کرنا مستحب ہے، البتہ پانی سے ہاتھوں کو دھونا زیادہ صفائی کا باعث ہے۔
احادیث مبارکہ میں اس تعلق سے جو ذکر ملتا وہ اس طرح ہے۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:جب تم میں سے کوئ کھانا کھائے تو اپنے ہاتھوں کو نہ پونچھے یہانتک کہ اس کو چاٹے یا چٹوائے۔(مسلم:2031)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بکری کا شانہ کھایا پھر نیچے رکھی ہوئی چادر سے ہاتھ پونچھا پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی۔ (ابوداؤد:189)
————–
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويستحب مسح اليد بالمنديل بعد فراغ الطعام ولا يستحب ذالك قبله (فتاوی الامام )(النووی:ص 165)
علامہ شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں:
(بمسح) بکسرالمیم البلاس وھو کساء معروف (فصلی)..فيه ثلاث مسائل:…جواز مسح اليد بعد الطعام و أن غسلها ليس بضروري.(عون المعبود :225/1)
الراجح: وفيه(أي الحديث) جواز مسح اليد بعد الطعام و أنه لا يجب الغسل وإنما يستحب فإذا مسح بالمنديل كفى، وإن غسلها فهو أكمل وأفضل۔(شرح سنن ابي داؤد: كتاب الطهارة. باب ترك الوضوء مما مست النار.)
منگل _17 _جنوری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0119
اگر کس شخص کو پیشاب کے دوران یا جھنکتے وقت یا نماز میں جھکنے سے یا وضو کے دوران ودی کا قطرہ نکل جائے تو ایسے شخص کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب:۔اگلی یا پچھلی شرمگاہ سے اگر کوئی چیز نکلے چاہے وہ پیشاب، پاخانہ، ہوا، حیض کا خون، یا مذی ودی، کیڑا، یا کنکر وغیرہ تو ان سب چیزوں کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ لھذا اگر کسی شخص کو پیشاب کے دوران یا زیادہ جھنکنے سے یا نماز میں جھکتے سے یا وضو کے دوران ودی کا قطرہ خارج ہو جائے تو ان تمام صورتوں میں دوبارہ وضو کرنا ضروری ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجا تو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مذی کے بارے میں پوچھا جو انسان سے نکلتا ہے کہ وہ کیا کرے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وضو کرے اور اپنی شرمگاہ کو صاف کرے۔
————–
امام ماوردی فرماتے رحمة الله عليه ہیں:۔
ﻭاﻟﺨﺎﺭﺝ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﺿﺮﺑﺎﻥ: ﻣﻌﺘﺎﺩ ﻭﻧﺎﺩﺭ: ﻓﺎﻟﻤﻌﺘﺎﺩ اﻟﻐﺎﺋﻂ ﻭاﻟﺒﻮﻝ ﻭاﻟﺼﻮﺕ ﻭاﻟﺮﻳﺢ ﻭﺩﻡ اﻟﺤﻴﺾ. ﻭﻓﻴﻬﺎ اﻟﻮﺿﻮء. ﻭﻓﺎﻗﺎ ﻟﻘﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ{ﺃﻭ ﺟﺎء ﺃﺣﺪ ﻣﻨﻜﻢ ﻣﻦ اﻟﻐﺎﺋﻂ) {اﻟﻤﺎﺋﺪﺓ: 6) . ﻭاﻟﻨﺎﺩﺭ اﻟﻤﺬﻱ ﻭاﻟﻮﺩﻱ، ﻭاﻟﺪﻭﺩ ﻭاﻟﺤﺼﻰ… ﻓﻤﺬﻫﺒﻪ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﻭﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﺟﻮﺏ اﻟﻮﺿﻮء ﻣﻨﻪ ﻛﺎﻟﻤﻌﺘﺎﺩ…ﻭﺩﻟﻴﻠﻨﺎ ﻗﻮﻟﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ: {ﺃﻭ ﺟﺎء ﺃﺣﺪ ﻣﻨﻜﻢ ﻣﻦ اﻟﻐﺎﺋﻂ} ، ﻭﻫﻮ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻟﻠﻨﺎﺩﺭ ﻭاﻟﻤﻌﺘﺎﺩ، ﻭﺭﻭﻯ ﻋﺎﺑﺲ ﺑﻦ ﺃﻧﺲ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻋﻠﻴﺎ ﺑﺎﻟﻜﻮﻓﺔ ﻳﻘﻮﻝ ﻗﻠﺖ ﻟﻌﻤﺎﺭ ﺳﻞ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻦ اﻟﻤﺬﻱ ﻳﺼﻴﺐ ﺃﺣﺪﻧﺎ ﺇﺫا ﺩﻧﺎ ﻣﻦ ﺃﻫﻠﻪ ﻓﺈﻥ اﺑﻨﺘﻪ ﺗﺤﺘﻲ ﻭﺃﻧﺎ ﺃﺳﺘﺤﻲ ﻣﻨﻪ ﻓﺴﺄﻟﻪ ﻋﻤﺎﺭ ﻓﻘﺎﻝ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻜﻔﻲ ﻣﻨﻪ اﻟﻮﺿﻮء، ﻓﺈﻧﻤﺎ ﺃﻭﺟﺐ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﻮﺿﻮء ﻣﻦ اﻟﻤﺬﻱ ﻭﻫﻮ ﻧﺎﺩﺭ ﻓﻜﺬﻟﻚ ﻣﻦ ﻛﻞ ﻧﺎﺩﺭ (الحاوی الكبير :1/176)
ہفتہ _14 _جنوری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0120
آج کل حجامہ(پچھنہ) لگوانا عام ہو گیا ہے۔تو کیا پچھنہ لگوانے کے بعد غسل کرنا مستحب ہے ؟
جواب:۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم چار اسباب کی وجہ سے غسل کرتے تھے ۔جنابت کی وجہ سے جمعہ کے دن حجامہ لگوانے کے بعد میت کو غسل دینے کے بعد (ابو داؤد 348)
اس حدیث کے تحت امام خطابی فرماتے ہیں کہ حجامہ کے بعد غسل کرنا یہ گندگی کو دور کرنے کیلئے ہے۔ اسلئے کہ حجامہ لگوانے والا خون کے چھینٹوں سے محفوظ نہیں رہتا۔ نیز حجامہ کے بعد چونکہ بدن میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور غسل اس کمزوری اور ضعف کو دور کرتا ہے اور بدن میں نشاط اور چشتی پیدا کرتا ہے نیز طھارت میں احتیاط اور نظافت کی زیادتی کی لئے غسل کرنا مستحب ہے۔
————
قال الشيخ شمس الحق
قال الخطابي : ومعقول أن الاغتسال من الحجامة إنما هو لإماطة الأذى وإنما لا يومن من أن يكون أصاب المحتجم رشاش الدم فالإغتسال منه استظهار بالطهارة استحباب للنظافة۔(عون المعبود:10/2)
قال النووي رحمة الله عليه:
والمختار: الجزم بإستحباب الغسل من الحجامة والحمام فقد نقل صاحب جمع الجوامع فى منصوصات الشافعي أنه قال أحب الغسل من الحجامة و الحمام وكل أمر غير الجسد وأشار الشافعي إلى أن حكمته أن ذالك يغير الجسد ويضعفه والغسل يشده وينعشه۔(روضة الطالبين:550/1)