فقہ شافعی سوال نمبر/ 0131 اگر کسی سات یا آٹھ سال کی لڑکی کو خون آنا شروع ہوجائے تو اس خون کا کیا حکم ہوگا ؟
جواب:۔ لڑکی کو کم از کم اسلامی تاریخ کے اعتبار سے نو سال کی عمر سے حیض آنا شروع ہوتا ہے، اگر اس سے کم عمر کی لڑکی کو خون آنا شروع ہوجائے تو وہ حیض کا خون نہیں ہوگا بلکہ بیماری کا خون مانا جائےگا. لہذا سات یا آٹھ سال کی عمر میں نکلنے والا خون حیض کا نہیں بیماری کا خون ہوگا۔
امام بغوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
فوقته بعداستکمال المراۃ تسع سنین فلو رات الدم قبل ھذا لسن لا یکون حیضا۔ (التھذیب:1/438)
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
قال الشافعی لو رات الدم قبل استکمال تسع سنین فھو دم فساد۔ (المجموع:2/353)
Fiqhe Shafi Question No/0131 If a girl of 7 or 8 years of age starts bleeding then what is the ruling on this girl?
Ans; A girl starts menstruating when she is alteast 9 years old according to lunar calender(islamic).. If the blood is seen by a girl below this age then the blood is not considered as menses but a blood of disease… Therefore, the blood that comes in 7 or 8 years of age is not menses but rather it is the blood caused due to disease…
سوال نمبر/ 0132 جو آدمی کھڑے ہونے پر قادر ہو اور زمین پر سجدہ کرنے سے عاجز ہو تو کرسی پر بیھٹے بغیر نماز پڑھنے کا کیا طریقہ ہے ؟
جواب اگر کوئی شخص کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر ہو مگر پیشانی اور پیٹھ کو(رکوع اور سجدہ کے لیے) زمین پر رکھنے اور پیٹھ کو زیادہ جھکانے پر قادر نہ ہو تو رکوع اور سجدہ کے لیے اپنی گردن کو اپنی طاقت کے بقدر جتنا ممکن ہو جھکا کر رکوع اور سجدہ کرے، البتہ رکوع کے مقابلے میں سجدہ کے وقت ذرا زیادہ جھکائے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے”کسی شخص کو اپنی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا” (سورة بقرة:286)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیمار آدمی اگر طاقت رکھتا ہو تو کھڑے ہوکر نماز پڑھے، اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا تو بیٹھ کر نماز پڑھے، اگر سجدہ کرنے سے عاجز ہو تو اشارہ سے کرےاور رکوع کے مقابلے میں سجدہ میں زیادہ جھکے۔ (رواہ دارقطنی 1688)
علامہ عمرانی فرماتے ہیں۔ وان لم يقدر ان يسجد علي الارض لعلة بجبهته او ظهره، انحني اكثر مايقدر عليه ۔ (البیان431/2)
Question no/ 0132
If a person is able to stand while praying but unable to offer prostration(sajda) sitting on the floor then what is the method of praying without sitting on the chair?
Ans; If a person is able to stand during salah but unable to keep his forehead and back(for ruku and sajda)on the floor and cannot bend his back much then he must bend his neck as much as possible for sajda and ruku but his gestures for sajdah should be lower than those of his ruku..
"Allah does not charge a soul except (with what within)its capacity” (Surat al baqarah 286)
Hazrat Ali R.A narrated that the messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him)said "Whoever has some excuse due to illness if he is able to stand during fardh salah then he is must pray in a standing position, If he cannot stand then he is allowed to pray sitting,if he cannot pray in a sitting posture then he may pray while on his side making gestures. In such a case,his gestures for sajdah should be lower than those of his ruku..” ( dar qutni 1688)
سوال نمبر/ 0133 اگر کسی شخص نے بھول کر مغرب کی چار رکعت نماز پڑھی اور آخر میں سلام سے پہلے جب اسے یاد آیا تو سجدہ سہو بھی کر لیا تو کیا اس حالت میں اس کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟
جواب:۔ اگر کسی شخص نے مغرب کی نماز بھول کر چار رکعت پڑھی اور آخر میں اس کو یاد آجائے تو سجدہ سہو کرلے تو اس کی نماز درست ہوگی ۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی چار رکعت کے بجائے پانچ رکعت پڑھائی پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں پوچھا گیا تو آپ نے سجدہ سہو کیا” (صحیح البخاری ۱۲۲٦)
قال الإمام الروياني: لو سها في صلاة المغرب فزاد ركعة يسجد للسهو و أجزأته صلاته (بحر المذهب ٣٠٥/٢)
قال الإمام العمراني: إذا صلى المغرب أربع ركعات ساهيا سجد للسهو و أجزأته صلاته (البيان ٣٤٠/٢)
Question No/133
If a person prayed four raka’at(instead of three)at maghrib prayer and at the end before salam he remembered and he offered prostration of forgetfulness (sajda e suhu) then in this situation will his salah be valid?
Ans; If a person prayed four raka’ats(instead of three) at maghrib prayer forgetfully and later he remembered and performed prostration of forgetfulness(sajda e suhu) then his salah will be valid..
There is a narration in Bukhari that Once the Prophet mohammed sallallahu alaihi wasallam offered five raka’ats(instead of four) at zuhr prayer. When Allah’s messenger sallallahu alaihi wasallam was asked about this, he performed prostration of forgetfulness(sajda e suhu).. (sahih bukhari 1226)
سوال نمبر/ 0134 اگر والد کے پاس اپنے بچے کا عقیقہ کرنے کی طاقت نہ ہو تو کیا وہ بچے کے مال سے اسکا عقیقہ کر سکتا ہے؟
جواب:۔ باپ یا ولی بچے کے مال سے عقیقہ نہیں کرسکتا ہے ۔
حضرت ابن عباس سے مروی ھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ خود اپنی طرف سے کیا۔(ابوداود: 2831 )
اس حدیث پاک سے فقہاءکرام نے استدلال کیا ہے کہ عقیقہ کے خرچ کا ذمہ دار بچے کا باپ یا اسکی غیر موجودگی میں وہ شخص جس پر اس بچے کا نفقہ واجب ہوتا ہے. چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کا عقیقہ اسلئے کیا کہ حضرت علی تنگدست تھے اور انکی تنگدستی کی بناء ان کا نفقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لازم تھا۔ لہذا باپ یا ولی بچے کے مال سے عقیقہ نہیں کرسکتا۔
انما يعق عن المولود من تلزمه نفقته من مال العاق لا من مال المولود۔ (المجموع: 8/324)
اما من مال المولود فلا يجوز للولي ان يعق عنه من ذلك،لان العقيقة تبرع وهو ممنوع منه من مال المولود،فان فعل ضمن كما نقله في المجموع عن الاصحاب ۔(مغنی المحتاج:6/180)
سوال نمبر/ 0135 کسی کی حوصلہ افزائی کےلئے تالیاں بجانا کیسا ہے؟
جواب:۔ کسی کی حوصلہ افزائی کےلیے تالیاں بجانا مکروہ ہے، اور تالیاں بجانے میں غیروں سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے، اور تالیاں بجانا زمانہ جاہلیت کا طریقہ رہا ہے، لہذا غیروں کی مشابہت سےبچنا چائیے، اور کسی کی حوصلہ افزائی کے لیے اللہ اکبر اور سبحان اللہ کہنا بہتر ہے۔
———–
قال الإمام الشرواني:
سئل عن التصفيق خارج الصلاة لغير حاجة، فأجاب إن قصد الرجل بذلك اللهو والتشبه بالنساء حرم، وإلا كره۔ (حواشي الشرواني وابن القاسم العبادي:١٥٠\٢)
قال الإمام القليوبي:-
قال ابن حجر: يكره التصفيق خارج الصلاة مطلقا۔(حاشية القليوبي مع الكنز وعميرة:٥٣٤\١)
حاشية الجمل:١٦٤\٢
Question No/0135 What is the ruling on clapping hands for encouragement?
Ans: Clapping hands for one’s encouragement is Makrooh and clapping hands resembles other religions and this custom of clapping hands was practised during the pre islamic era (zamana e jahilat).. Therefore one must refrain from resembling others and the words that are best for encouraging someone are Allahu Akbar and Subhanallah..
سوال نمبر/ 0136 اگر خارش زدہ شخص کو نماز میں مسلسل کھجلانے کی ضرورت ہو یا کسی شخص کے جسم کے کسی عضو میں مسلسل حرکت کا مرض ہو تو اس صورت میں عمل کثیر سے ایسے شخص کی نماز باطل ہوگی؟
جواب:۔ اگر خارش زدہ شخص کو نماز میں مسلسل کھجلانے کی ضرورت ہو اس طور پہ کہ وہ کھجلائے بغیر اتنی دیر بھی صبر نہیں کرسکتا جس میں وہ فرض نماز کو ادا کرسکے. یا کسی شخص کے جسم کے کسی عضو میں مسلسل حرکت کا مرض ہو تو اس صورت میں زیادہ حرکت سے بهی ایسے شخص کی نماز باطل نہیں ہوگی۔
وانما یبطل العمل الکثیر كان لغير عذر كمرض يستدعي حركة لا يستطيع الصبر عنها زمنا يسع الصلاة قبل ضيق والا فلا تبطل. كتاب الفقه علي المذاهب الاربعة 1/286
Question no/ 136
If a person with itching problem has to continuously scratch the itching part or if a person have some problem that causes continuous movements in any part of the body when he is praying, in this situation, will the often movement invalidate his prayer ?
Ans; If a person have some itching problem and he needs to continuously scratch the itching part and he cannot wait till the end of his fardh salah or if a person have some disease that causes continuous movements in any part of the body, then in this situation his excessive and continuous movements does not invalidate his prayer..
جواب:۔ صحیح بخاری میں بلی پالنے اور بلی کو باندھ کر گھر میں رکھنے کا جواز اس وقت ملتا ہے جب اس کے کھلانے اور پلانے میں کسی طرح کی لا پرواہی نہ کی جائے، بلکہ بلی پالنے والے پر اس کو کھلانا پلانا بھی واجب ہے، اور علامہ مبارک پوری رحمة الله عليه نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ بلی کو پالنا مستحب ہے، لہذا گھر میں بلی کو پالنا جائز ہے، لیکن اس کے کھانے اور پینے کا مناسب انتظام کیا جائے۔
————–
ابن حجر العسقلاني: وفيه جواز اتخاذ الهرة ورباطها إذا لم يهمل إطعامها وسقيها… وإنما يجب إطعامها على من حبسه۔(فتح الباري ١١٩\٨)
الشيخ المباركفوري: فائدة: قال العلماء يستحب اتخاذ الهرة وتربيتها۔ تحفة الأحوذي/٢٧٧\١)
فال الإمام النووي: أجمعت الأمة على أن اتخاذه [الهرة] جائز۔(المجموع:٢١٧\٩)
Question No/0137 What is the ruling on keeping cats in ones house?
Ans; There is a permissibility in Sahih Bukhari for keeping cats in house only if there is no kind of negligence in feeding the cat with food and water.. Though feeding the cat with water and food is compulsory(wajib) for the one who adopts the cat… Allama Mubarakpuri Rehmatullah alaihi narrated from some scholars that adopting cat in house is recommendable(mustahab).. Therefore keeping cat in house is permissible but there should be maintenance of feeding the cat with water and food.
سوال نمبر/ 0138 اگر كسى شخص كا حادثہ (accident) ميں ہاتھ یا کوئی عضو كٹ گيا ہو تو اب اس عضو کو دفن كرنا ہوگا يا يونہی چهوڑ ديا جائے گا ؟
جواب:۔ جس طرح مرده انسان كے ہر عضو كو دفن کرنے كا حكم ديا گيا ہے اسی طرح زنده انسان كے جسم سے اگر كوئی عضو الگ ہو جائے تو فقهاء نے اس کو دفن كرنا مستحب لکھا ہے، لہذا اگر كسی شخص كا حادثہ (accident) ميں کوئی عضو كٹ گيا ہو تو اس عضو کو دفن كيا جائے گا۔
قال الإمام النووي:۔
ما ينفصل من الحي من شعر و ظفر وغيرهما يستحب له دفنه. روضة الطالبين:١١٧/٢
سوال نمبر/ 0139 بعض گھروں میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں ننگے رہتے ہیں اور والدین ان کے ستر ڈھانکنے کا اہتمام بھی نہیں کرتے شرعا اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب :۔ اگر بچے اور بچیاں اتنی کم عمر کے ہوں کہ تمیز کی حد کو نہیں پہونچے ہیں تو والدین کے لیے ان کی شرمگاہ کی طرف دیکھنا جائز ہے، اسی طرح والدین کے علاوہ دوسرے بھی بچہ (لڑکا) کی شرمگاہ دیکھ سکتے ہیں۔ البتہ بچی (لڑکی) کی شرمگاہ کی طرف دیکھنا درست نہیں ہےاس لیے کہ بچی کی شرمگاہ شہوت کےابھرنے کا سبب بن سکتی ہے اور دیکھنے اور نہ دیکھنے کا اصل دار و مدار شہوت ہی پر ہے۔
لھذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ ابتداء ہی سے چھوٹے بچوں کے ستر چھپانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
والاصح حل النظر الي صغيرة لا تشتهي كما عليه الناس في الإعصار والامصار….. والوجه ضبط بما مر ان المدار علي الإشتهاء وعدمه بالنسبة لذوي الطباع السليمة ….. نعم يجوز نظره ومسه لنحو الام زمن الرضاع والتربية للضرورة تحفة المحتاج ١٦٤/٣
والفرق بين فرج الصغير حيث حل النظر اليه … والفرج الصغيرة حيث حرم النظر اليه ان فرجها افحش ….. ويجوز لنحو الام اَي من كل من يتولي عالإر والتربية .. وقوله نظر فرجيهما اَي الصغير والصغيرة إعانة الطالبين ٤١٣/٣
میت کو غسل دینے کے بعد غسل دینے والے کیلئے غسل کا کیا حکم ہے اور اسکی کیا دلیل ہے؟ اور جنازہ اٹھانے کیلئے وضوء ضروری ہے یا نہیں؟
جواب:۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا ضروری نہیں ہے تمھارے لئے ہاتھ وغیرہ دھونا کافی ہے۔ بعضالمستدرك علي الصحيحين:1/1426
روایتوں میں غسل کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ استحباب پر محمول ہے نہ کہ وجوب پر,اسی طرح جنازہ اٹھانے کے وقت وضوء کرنا بھی استحباب پر محمول ہے۔
امام عمرانی فرماتے ہیں:۔ واذا فرغ الغاسل من غسل الميت إغتسل، وهل يجب ذلك عليه او يستحب، فيه قولان احدهما يستحب ولا يجب وبه قال ابن عباس وابن عمر وعائشة رضي الله عنهم لان الميت طاهر، ومة غسله طاهر فهو كما لو غسل جنبا، والثاني: يجب وبه قال علي وابو هريرة رضي الله عنهما لما روي ابو هريرة أن النبي صلي الله عليه وسلم: من غسل ميتا فليغتسل ومن مسه فليتوضا والاول الاصح، والخبر محمول علي الاستحباب بدليل: ما روي ابن عباس ان النبي صلي الله عليه وسلم قال: لا غسل عليكم من غسل ميتكم، حسبكم ان تغسلوا ايديكم البيان:3/32