جمعرات _9 _فروری _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0401
اگر کوئی کینسر کے مرض میں مبتلا ہو اور اسی مرض میں اسکا انتقال ہو جائے تو کیا یہ شہید شمار ہوگا؟
جواب:۔ کینسر یہ ایک مہلک مرض ہے اور اسکی کئی قسمیں ہیں جیسے پھیپھڑا، دماغ، خون، پیٹ، جلد وغیرہ کا کینسر لہذا جسے پیٹ کا کینسر ہو اور وہ اسی مرض میں وفات پائے تو ایسا شخص آخرت کی رو سے شہید شمار ہوگا۔ ترمذی شریف میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "شہداء پانچ طرح کے ہیں۔1۔جو طاعون کے مرض انتقال ہو جائے,2۔جو پیٹ کی بیماری میں مر جائے۔3۔ڈوب کر مرنے والا۔4۔جو شخص دیوار وغیرہ کے اپنے اوپر گرنے کی وجہ سے مرنے والا۔5۔اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔ (ترمذى:1063)
اسی بنیاد پر دنیاوی اعتبار سے پیٹ کے کینسر میں انتقال ہونے والے پر عام میت کےاحکام جاری ہوں گے یعنی اسے غسل دیا جائیگا، کفن پہنایا جائیگا، اور اس پر نماز جنازہ بھی پڑھی جائیگی اور دفن کیا جائے گا۔
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمة الله عليه فرماتے ہیں
و المبطون ای الذى يموت يمرض البطن كالاستحاضة ونحوه.(تحفة الاحوذي 4/121)
علامه دمياطى رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
وأما شهيد الآخرة فقط… واقسامه كثيرة فمنها….الميت بالبطن أو فى زمن الطاعون ولو بغيره…….
وأما شهيد الآخرة فقط: فهو كغيره الشهيد فيغسل و يكفن و يصلى عليه و يدفن.(اعانة الطالبین 2/169)
پیر _27 _مارچ _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0402
خرگوش کھانے کا شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب:۔امام نووی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ خرگوش کھانا حلال ہے اس سلسلے کا ایک واقع بخاری میں ملتا ہے جس کے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم مر ظہران (ایک جگہ کا نام) میں تھے کہ ہمیں ایک خرگوش ملا، تو ہم لوگوں نے اس کو پکڑا، پھر اس کو حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیا، حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے اس کو ذبح کیا پھر اس کی ران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کیا(یعنی) تناول فرمایا. صحیح بخاری/5535
اس حدیث کے تحت فقہاء فرماتے ہیں کہ خرگوش کھانا حلال ہے۔
علامہ نووی رحمة الله عليه لکھتے ہیں:
وأكل الأرنب حلال عند مالك وأبي حنيفة والشافعي…..دليل الجمهور هذا الحديث مع أحاديث مثله ولم في النهي عنها شيئ.(شرح مسلم:91/5)
علامه نووي رحمة الله عليه لکھتے ہیں:
و يحل أكل الأرنب لقوله تعالى”و يحل لهم الطيبات” والأرنب من الطيبات (المجموع:11/9)
Question No/0402
What does the shariah say with regard to eating the meat of rabbit?
Ans; Imaam nawawi rehmatullah alaihi says that eating the meat of rabbit is lawful(halal).. There is an event described in sahih bukhari regarding this that Hazrat Anas R.A says that we were in Zuhran(name of a place)there we found a rabbit so we caught it and handed it to Hazrat Talha Ansari R.A .. Hazrat Talha R.A slaughtered the rabbit and presented the piece of thigh to the Messenger of Allah(peace and blessings of Allah be upon him) then Messenger of Allah accepted it ..(Sahih bukhari /5535)
On the basis of this hadeeth the jurists(fuqaha) says that eating the meat of rabbit is lawful(halal)..
جمعرات _30 _مارچ _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0403
حاملہ جانورکی بیع اور اسے ذبح کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ حاملہ جانور کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے، اس شرط کے ساتھ کہ دونوں کو بیچا جاے مثلا اگر کوئی صرف جانور کو بیچے اور حمل کے بچے کو دینے سے انکار کرے تو ایسا کرنا ناجائز ہے اسی طرح جانور کے صرف حمل کو بیچنا بھی ناجائز ہے۔
٢)حاملہ جانور کو ذبح کرنا جائز ہے. ذبح کے بعد پیٹ کا بچہ زندہ نہ رہے تو بغیر ذبح اس کو کھایا جاے گا اور اگر زندہ ہو تو ذبح کر کے اس کو کھائے۔
[ولا يصح بيع الحمل وحده ولا الحامل دونه ولا الحامل بحر ولو باع حاملا مطلقا دخل الحمل في البيع.] (منهاج الطالبين وعمدة المفتين/٩٨)
[ویحل جنین وجد میّتا فی بطن مذكاةِِ ](منهاج الطالبين وعمدة المفتين/٣٢٣)
(وَيَحِلُّ جَنِينٌ وُجِدَ مَيِّتًا) أَوْ عَيْشُهُ عَيْشُ مَذْبُوحٍ، سَوَاءٌ أَشْعَرَ أَمْ لَا (فِي بَطْنِ مُذَكَّاةٍ) بِالْمُعْجَمَةِ سَوَاءٌ كَانَتْ ذَكَاتُهَا بِذَبْحِهَا، أَوْ إرْسَالِ سَهْمٍ أَوْ كَلْبٍ عَلَيْهَا لِحَدِيثِ «ذَكَاةُ الْجَنِينِ ذَكَاةُ أُمِّهِ»
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ، وَابْنُ حِبَّانَ وَصَحَّحَهُ
أَيْ ذَكَاتُهَا الَّتِي أَحَلَّتْهَا أَحَلَّتْهُ تَبَعًا لَهَا وَلِأَنَّهُ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَائِهَا، وَذَكَاتُهَا ذَكَاةٌ لِجَمِيعِ أَجْزَائِهَا، وَلِأَنَّهُ لَوْ لَمْ يَحِلَّ بِذَكَاةِ أُمِّهِ لَحُرِّمَ ذكاتهَامَعَ ظُهُورِ الْحَمْلِ كَمَا لَا تُقْتَلُ الْحَامِلُ قَوَدًا أَمَّا إذَا خَرَجَ وَبِهِ حَيَاةٌ مُسْتَقِرَّةٌ فَلَا يَحِلُّ بِذَكَاةِ أُمِّهِ، وَلَا بُدَّ أَنْ يَسْكُنَ عَقِبَ ذَبْحِ أُمِّهِ، فَلَوْ اضْطَرَبَ فِي الْبَطْنِ بَعْدَ ذَبْحِ أُمِّهِ زَمَانًا طَوِيلًا ثُمَّ سَكَنَ لَمْ يَحِلَّ كَمَا قَالَهُ الشَّيْخُ أَبُو مُحَمَّدٍ فِي الْفُرُوقِ وَأَقَرَّاهُ، وَإِنْ خَالَفَ فِي ذَلِكَ الْبَغَوِيّ وَالْمَرْوَزِيُّ وَقَالَا بِالْحِلِّ مُطْلَقًا قَالَ الْأَذْرَعِيُّ وَالظَّاهِرُ أَنَّ مُرَادَ الْأَصْحَابِ إذَا مَاتَ بِذَكَاةِ أُمِّهِ، فَلَوْ مَاتَ قَبْلَ ذَكَاتِهَا مَيْتَةٌ لَا مَحَالَةَ؛ لِأَنَّ ذَكَاةَ الْأُمِّ لَمْ تُؤَثِّرْ فِيهِ وَالْحَدِيثُ يُشِيرُ إلَيْهِ. مغني المحتاج6/158
Question No/0403
What is the ruling on selling pregnant animals and slaughtering it?
Ans; 1)It is permissible to sell or buy pregnant animals but the condition is that both organisms should be sold..
for example;
If anyone sells only the animal and refuses to give its baby then it is not permissible. In the same way selling only the baby and not the animal is also not permissible in shariah..
2)It is permissible to slaughter the pregnant animal..and after slaughtering the animal, if the baby of the animal doesn’t survive then it is permissible to eat the baby animal without slaughtering and if it survives then slaughter the baby first and then eat..
اتوار _2 _اپریل _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0404
کیا ہاتھی اور شیر کی خرید و فروخت درست ہے؟
جواب:۔خریدوفروخت کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ خریدی جانے والی چیز میں منفعت ہو، اگر منفعت نہ ہو تو خرید و فروخت جائز نہیں ہے، لہذا شیر کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں عامة فائدہ نہیں ہوتا، اور ہاتھی کی خرید و فروخت جائز ہے، اس لئے کہ اس میں بہت سارے فوائد ہیں۔
قال الإمام النووي:
القسم الثاني من الحيوان ما لا ينتفع به فلا يصح بيعه…….. كالأسد۔ (المجموع:٢٢٧\٩)
قال الإمام الشربيني: الثاني النفع……….. أما ما ينفع من ذلك كا…الفيل للقتال…فيصح۔ (مغني المحتاج ٣٦٦\٢) ☆الاقناع:١٠\٢ ☆بجيرمي على الخطيب:١٠\٣ ☆الكنز مع الحاشيتا:١٤٣٩\٢
Question No/0404
Is it acceptable to sell and buy elephants and lions?
Ans; One of the conditions of marketing is that the thing that is to be bought must possess benefit… if it doesnot possess benefit then marketing is not permissible.. Therefore, marketing of lions is not permissible because it has no benefit but buying and selling of elephants is permissible because it is highly beneficial..
منگل _4 _اپریل _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0405
اگر حالت حیض میں عورتوں کو امتحانات میں سوال آئے اور جواب میں آیت قرآنی لکھنے کی ضرورت پیش آئے تو اس وقت آیت قرآنی کے لکھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ عورتوں کو امتحانات وغیرہ میں قرآنی آیات لکھنے کی ضرورت ہو تو قرآنی آیت اس طور پر لکھا جائے کہ آیت کے حروف لکھتے وقت ہاتھ نہ لگتا ہو تو اس طرح لکھنا بوقت ضرورت جائز ہے۔
قال الشيخ الكردي المدني: تحل كتابته القرآن للمحدث، ومثله الجنب حيث لا مس. (الحواشي المدنية:١١٥\۱)
قال العلامة بافضل الحضرمي: ويحل…….كتابته ما لم يمس المكتوب.(المقدمة الحضرمية مع الحواشي المدنية:١١٥\١) ☆المجموع:٨٧\٢ ☆روضة الطالبين:١٩١\١ ☆فتح العزيز:١٠٨\٢
Question No/0405
If a menstruating woman is supposed to write any quranic verse in question and answers as evidence during examination then what is the ruling on writing the quranic verse in this situation?
Ans; If a women has to write quranic verses in the examination then they must write the quranic verse in such a way that their hands should not touch the verses while writing.. so writing in this way for neccessity is permissible..
جمعرات _6 _اپریل _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0406
اگر کوئی شخص ایک جگہ پر فرض نماز تنہا یا جماعت کے ساتھ پڑھ چکا ہو اور دوسری مرتبہ نماز جماعت کے ساتھ مل رہی ہو تو کیا اس کو دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے؟
جواب:۔سنن ترمذی حدیث نمبر ۲۱۹ کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ فرض نماز پڑھ چکا ہو پھر وہی نماز دوسری جگہ/مسجد میں جماعت سے مل رہی ہو تو دوبارہ اس کو جماعت کے ساتھ پڑھنا مسنون ہے البتہ اس صورت میں پہلی نماز فرض واقع ہوگی۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻨﻴﻊ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻫﺸﻴﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻳﻌﻠﻰ ﺑﻦ ﻋﻄﺎء، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ اﻷﺳﻮﺩ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺷﻬﺪﺕ ﻣﻊ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺣﺠﺘﻪ، ﻓﺼﻠﻴﺖ ﻣﻌﻪ ﺻﻼﺓ اﻟﺼﺒﺢ ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪ اﻟﺨﻴﻒ، ﻓﻠﻤﺎ ﻗﻀﻰ ﺻﻼﺗﻪ اﻧﺤﺮﻑ ﻓﺈﺫا ﻫﻮ ﺑﺮﺟﻠﻴﻦ ﻓﻲ ﺃﺧﺮﻯ اﻟﻘﻮﻡ ﻟﻢ ﻳﺼﻠﻴﺎ ﻣﻌﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻋﻠﻲ ﺑﻬﻤﺎ، ﻓﺠﻲء ﺑﻬﻤﺎ ﺗﺮﻋﺪ ﻓﺮاﺋﺼﻬﻤﺎ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﻣﻨﻌﻜﻤﺎ ﺃﻥ ﺗﺼﻠﻴﺎ ﻣﻌﻨﺎ، ﻓﻘﺎﻻ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﺇﻧﺎ ﻛﻨﺎ ﻗﺪ ﺻﻠﻴﻨﺎ ﻓﻲ ﺭﺣﺎﻟﻨﺎ، ﻗﺎﻝ: ﻓﻼ ﺗﻔﻌﻼ، ﺇﺫا ﺻﻠﻴﺘﻤﺎ ﻓﻲ ﺭﺣﺎﻟﻜﻤﺎ ﺛﻢ ﺃﺗﻴﺘﻤﺎ ﻣﺴﺠﺪ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻓﺼﻠﻴﺎ ﻣﻌﻬﻢ، ﻓﺈﻧﻬﺎ ﻟﻜﻤﺎ ﻧﺎﻓﻠﺔ. (سنن ترمذی:219)
ويسن للمصلي صلاة المكتوبة موداة وحده وكذا جماعة في الأصح إعادتها مرة فقط مع الجماعة يدركها في اللوقت (مغنی المحتاج٢٣٣/١)
Question No/0406
If a person has prayed a fardh prayer alone or with congregation at some place and the second time he is getting a chance to perform the same prayer with congregation then is it necessary to repeat the prayer again?
Ans; The jurists(Fuqaha) based their opinion from hadeeth no. 219 of sunan Tirmidhi that if a person has prayed a fardh prayer and then he is getting a chance to perform the same prayer in some other place or masjid with congregation then performing the prayer again with congregation is Masnoon..
بدھ _26 _اپریل _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0407
بعض لوگ سر کی حرارت کو کم کرنے کے لئے تلوے (پیروں کا نیچے والا حصہ) میں مہندی لگاتے کیا شرعا اس کی گنجائش ہے؟
جواب:۔ مردوں کے لئے مہندی کا استعمال کرنا حرام ہے، اگر مجبورا مہندی کا استعمال کرنا پڑے جیسے کسی زخم پر لگانے کے لیے بطور علاج مہندی کا استعمال کریں تو یہ جائز ہے ۔البتہ سر کی گرمی کو کم کرنے کے لئے تیل کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وخضاب الیدین والرجلین بالحناء ونحوہ للرجل حرام لخبر لعن الله المتشبھین بالنساء من الرجال إلا لعذر. اسنی المطالب 1/551
وخضاب الیدین والرجلین بالحناء للرجل والخنثی حرام بلا عذر۔ نھایة المحتاج 8/149
Fiqhe Shafi Question No/0407
Few Men apply mehndi on the sole(underside of foot) to reduce the heat on the head .. What does the shariah say with regard to this?
Ans; Applying henna(mehndi)for men is unlawful(haram)
If a person applies henna (mehndi) due to some need like applying on an injured part and for treatment then it is permissible.. However, one can apply henna to reduce the heat on head..
بدھ _12 _اپریل _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0408
اگر کوئی امام دعائے قنوت کو چھوڑ کر سجدہ کرنے کیلئے جھک جائے اور مقتدی اسے لقمہ دے تو اس کو کس حد تک جانے سے پہلے واپس لوٹنے کی گنجائش ہے؟
جواب:۔ اگر کوئی امام دعائے قنوت کو چھوڑ کر سجدہ کرنے کیلئے جھک جائے اور مقتدی اس کو لقمہ دے اور اگر اسکو سجدہ میں جانے کے بعد آئے تو نہیں لوٹے گا اور اگر اسکو اعضاء سجود کو رکھنے سے پہلے یاد آئے تو وہ لوٹے گا یہاں تک کہ اگر ہاتھ اور گھٹنے رکھ دیا لیکن پیشانی زمین پر رکھنا باقی ہو اگر اس وقت بھی یاد آئے تو دعائے قنوت کے لیے لوٹ سکتا ہے. لیکن وہ جب لوٹے گا تو سجدہ سھو بھی کرے گا اسلئے کہ جب وہ رکوع کی حد پار کرچکا تو اس نے سجدے کی طرف مائل ہونے میں کی صورت میں ایک فعل کی زیادتی ہوئی
قال الخطیب: ولو نسي قنوتا فذكره فى سجوده لم يعد له لتلبسه بفرض أو قبله بأن لم يضع جميع أعضاء السجود حتى لو وضع لجبهته فقط أو مع بعض أعضاء السجود عاد اى جاز له العود لعدم التلبس بالفرض ويسجد للسهو أن بلغ حد الركوع اى أقل الركوع فى هويه لأنه زاد ركوعا سهوا والعمد به مبطل بخلاف ما إذا لم يبلغه فلا يسجد (مغني المحتاج1/358)
Fiqhe Shafi Question No/0408
If an Imaam skips dua e qunoot and moves toward sajdah and the followers(muqtadi) give a hint to the Imaam then after going to which extent can one return to its previous position.?
Ans; If an Imaam skips dua e qunoot and bends to perform sajdah and the follower(muqtadi)gives a hint to the Imaam and if the Imam remembers during sajdah then he must not return to the standing position and if he remembers before placing the parts of sujood then he may return to the previous position .. even if he places his hands and knees to the floor but did not place the forehead and now he remembers that he had skipped dua e qunoot then he can return for dua e qunoot.. but when he returns he must perform sajdah suhu in the end because when he passed the limitations of ruku, he performed an extra work while moving towards sajdah..
اتوار _16 _اپریل _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0409
کیا عقیقہ کے وقت بچہ کا موجود ہونا ضروری ہے؟ نیز سعودی عرب میں ولادت پر بھٹکل میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے؟
جواب. عقیقہ کے وقت بچے کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے اور سعودی عرب میں ولادت پر بھٹکل میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے۔
نعم يصح ذلك ويجوز التوكيل في شراء الاضحية والعقيقة وفي ذبحها ولو ببلد غير المضحی۔ (إعانة الطالبين، 2/650)
ويندب العق عمن مات بعد الايام السبعة والتمكن من الذبح وكذا قبلها كما في المجموع (نهاية المحتاج8/148)
Fiqhe Shafi Question No/0409
Is it necessary for a child to be present at the time of his aqeeqa??and if a child is born in Saudi Arabia, can one perform his aqeeqa in bhatkal?
Ans; It is not necessary for a child to be present at the time of his aqeeqa and if the child is born in Saudi Arabia then his aqeeqa can be done in bhatkal..
پیر _17 _اپریل _2017AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0410
عقیقہ کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے بہتر وقت کونسا ہے؟
جواب:۔ عقیقہ کا جانور دن کے ابتدائی وقت میں ذبح کرنا مستحب ہے.
یستحب كون ذبح العقیقة فی صدر النهار۔ (المجموع:8/342)
Fiqhe Shafi Question No/0410
What time is best for slaughtering an animal meant for aqeeqa?
Ans; Slaughtering the animal of aqeeqa in the beginning of the day is recommended(mustahab)..