اتوار _23 _جون _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0741
اگر کم عمری میں کسی بال سفید ہوجائیں تو ان سفید بالوں کو کاٹنے کا کیا حکم ہے ؟
حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سفید بالوں کو مت اکھاڑو (کاٹو) اسلیے کہ وہ قیامت میں مسلمان کے لیے نور ہوگا۔ (رواه الترمذي :٢٨٢١) فقہاء کرام نے سر اور ڈاڑھی کے سفید بالوں کو نکالنا مطلقاً مکروہ لکھا ہے۔ چاہیے کم عمری ہی میں بال سفید ہوئے ہوں۔
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: يُكْرَهُ نَتْفُ الشَّيْبِ لِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَنْتِفُوا الشَّيْبَ فَإِنَّهُ نُورُ الْمُسْلِمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَدِيثٌ حَسَنٌ رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَغَيْرُهُمْ بِأَسَانِيدَ حسنة قال الترمذي حديث حَسَنٌ هَكَذَا: قَالَ أَصْحَابُنَا يُكْرَهُ صَرَّحَ بِهِ الْغَزَالِيُّ كَمَا سَبَقَ وَالْبَغَوِيُّ وَآخَرُونَ: وَلَوْ قِيلَ يَحْرُمُ لِلنَّهْيِ الصَّرِيحِ الصَّحِيحِ لَمْ يَبْعُدْ: وَلَا فرق بَيْنَ نَتْفِهِ مِنْ اللِّحْيَةِ وَالرَّأْسِ۔ (المجموع :١/٢٩٣) علامہ دمیری رحمة الله عليه فرماتے ہیں *يكره تبييض اللحية بالكبريت وغيره، ونتفها أول طلوعها إيثارًا للمرودة، وتصفيفها طاقة فوق طاقة تحسينًا، والزيادة فيها، والنقص منها بازيادة في شعر العذارين، ونتف جانب العنفقة، وتركها شعثة، والنظر إليها إعجابًا وافتخارًا * (النجم الوهاج :٩/٥٣٤) (وَالنَّتْفُ لِلشَّيْبِ) مِنْ الرَّأْسِ، وَاللِّحْيَةِ (مَكْرُوهٌ) لِخَبَرِ «لَا تَنْتِفُوا الشَّيْبَ فَإِنَّهُ نُورُ الْمُسْلِمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ قَالَ فِي الْمَجْمُوعِ وَلَوْ قِيلَ بِتَحْرِيمِهِ لَمْ يَبْعُدْ وَنَقَلَ ابْنُ الرِّفْعَةِ تَحْرِيمَهُ عَنْ نَصِّ الْأُمِّ۔ (اسنى المطالب: ١/١٧٣) وَيُكْرَهُ أَنْ يَنْتِفَ الشَّيْبَ مِنْ الْمَحَلِّ الَّذِي لَا يُطْلَبُ مِنْهُ إزَالَةُ شَعْرِهِ وَيُسَنُّ خَضْبُهُ بِالْحِنَّاءِ وَنَحْوِهِ۔ (حاشیة الجمل :١/٤١٨)
جمعرات _27 _جون _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0742
جو شخص حرام طریقہ سے مال کماتا ہو تو ایسے شخص کے ساتھ معاملہ کرنا یا اس سے ادھار پیسے لینا کیسا ہے؟
ایسا شخص جو حرام طریقہ سے کماتا ہے یا اس کے کمائی کا اکثر حصہ مال حرام سے ہے یا حلال اور حرام مال مقدار برابر برابر ہے تو ایسے شخص کے ساتھ معاملہ کرنا یا پیسے ادھار لینا مکروہ ہے، البتہ اگر اس بات کا یقین ہوجائے کہ اس کے پاس حلال مال سرے سے موجود ہی نہ ہو بلکہ پورا کا پورا مال حرام ہو تو ایسے لوگوں کے ساتھ کسی بھی طرح کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے.
علامہ عمرانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: 📚 وأما ما لا أصل له في الحظر والإباحة: فهو المال، فمن أكثر ماله حرام، أو تساوى عنده الحلال والحرام.. فيحتمل الذي يؤخذ منه أنه حرام، ويحتمل أنه حلال، وليس له أصل في الحظر والإباحة، فهذا يكره الأخذ منه، وابتياعه، فإن ابتاعه…صح؛ لأن الظاهر أنه ملكه. (البیان:121/5) امام سیوطی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: 📚 والثالث: مثل معاملة من أكثر ماله حرام ولم يتحقق أن المأخوذ من ماله عين الحرام فلا تحرم مبايعته لإمكان الحلال وعدم تحقق التحريم، ولكن يكره خوفا من الوقوع في الحرام. انتهى. (الاشباہ والنظائر:75/1) * تحفة المحتاج:180/7
منگل _25 _جون _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0743
علاج کی غرض سے نجس اور ناپاک چیزوں مثلا (پیشاب وغیرہ) کے استعمال کا شرعا کیا حکم ہے؟
کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے پاک چیزوں کا استعمال ضروری ہے۔ اور ناپاک چیزوں سے علاج کرنا حرام ہے۔ ہاں البتہ کوئی ایسا مرض ہو کہ اس کے بارے میں کسی مسلمان ماہر ڈاکٹر یہ کہے کہ اس بیماری کا علاج پاک دوائی سے ممکن نہیں ہے یا اس علاج کے لیے پاک دوائی میسر نہ ہو، یاپاک دوائی کے مقابلہ میں نجس دوائی کے استعمال سے جلد شفایابی ممکن ہو توایسی صورت میں نجس چیزوں سے علاج کرنا جائز ہے ۔
ﺇﺫا اﺿﻄﺮ ﺇﻟﻰ ﺷﺮﺏ اﻟﺪﻡ ﺃﻭ اﻟﺒﻮﻝ ﺃﻭ ﻏﻴﺮﻫﻤﺎ ﻣﻦ اﻟﻨﺠﺎﺳﺎﺕ اﻟﻤﺎﺋﻌﺔ ﻏﻴﺮ اﻟﻤﺴﻜﺮ ﺟﺎﺯ ﻟﻪ ﺷﺮﺑﻪ ﺑﻼ ﺧﻼﻑ ﻭﺇﻥ اﺿﻄﺮ ﻭﻫﻨﺎﻙ ﺧﻤﺮ ﻭﺑﻮﻝ ﻟﺰﻣﻪ ﺷﺮﺏ اﻟﺒﻮﻝ ﻭﻟﻢ ﻳﺠﺰ ﺷﺮﺏ اﻟﺨﻤﺮ ﺑﻼ ﺧﻼﻑ ﻟﻤﺎ ﺫﻛﺮﻩ اﻟﻤﺼﻨﻒ (ﻭﺃﻣﺎ) اﻟﺘﺪاﻭﻱ ﺑﺎﻟﻨﺠﺎﺳﺎﺕ ﻏﻴﺮ اﻟﺨﻤﺮ ﻓﻬﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﺳﻮاء ﻓﻴﻪ ﺟﻤﻴﻊ اﻟﻨﺠﺎﺳﺎﺕ ﻏﻴﺮ اﻟﻤﺴﻜﺮ ﻫﺬا ﻫﻮ اﻟﻤﺬﻫﺐ ﻭاﻟﻤﻨﺼﻮﺹ ﻭﺑﻪ ﻗﻄﻊ اﻟﺠﻤﻬﻮﺭ ﻭﻓﻴﻪ ﻭﺟﻪ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻡ ﺳﻠﻤﺔ اﻟﻤﺬﻛﻮﺭ ﻓﻲ اﻟﻜﺘﺎﺏ…..قال اصحابنا وانما یجوز التداوی بالنجاسة اذا لم یجد طاھرا یقوم مقامھا فان وجدہ حرمت النجاسة بلاخلاف۔ (ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﻟﻢ ﻳﺠﻌﻞ ﺷﻔﺎءﻛﻢ ﻓﻴﻤﺎ ﺣﺮﻡ ﻋﻠﻴﻜﻢ) ﻓﻬﻮ ﺣﺮاﻡ ﻋﻨﺪ ﻭﺟﻮﺩ ﻏﻴﺮﻩ ﻭﻟﻴﺲ ﺣﺮاﻣﺎ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﺠﺪ ﻏﻴﺮﻩ ﻗﺎﻝ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻳﺠﻮﺯ ﺫﻟﻚ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ اﻟﻤﺘﺪاﻭﻱ ﻋﺎﺭﻓﺎ ﺑﺎﻟﻄﺐ ﻳﻌﺮﻑ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﻘﻮﻡ ﻏﻴﺮ ﻫﺬا ﻣﻘﺎﻣﻪ ﺃﻭ ﺃﺧﺒﺮﻩ ﺑﺬﻟﻚ ﻃﺒﻴﺐ ﻣﺴﻠﻢ ﻋﺪﻝ ﻭﻳﻜﻔﻲ ﻃﺒﻴﺐ ﻭاﺣﺪ ﺻﺮﺡ ﺑﻪ اﻟﺒﻐﻮﻱ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﻓﻠﻮ ﻗﺎﻝ اﻟﻄﺒﻴﺐ ﻳﺘﻌﺠﻞ ﻟﻚ ﺑﻪ اﻟﺸﻔﺎء ﻭﺇﻥ ﺗﺮﻛﺘﻪ ﺗﺄﺧﺮ ﻓﻔﻲ ﺇﺑﺎﺣﺘﻪ ﻭﺟﻬﺎﻥ ﺣﻜﺎﻫﻤﺎ اﻟﺒﻐﻮﻱ ﻭﻟﻢ ﻳﺮﺟﺢ ﻭاﺣﺪا ﻣﻨﻬﻤﺎ ﻭﻗﻴﺎﺱ ﻧﻈﻴﺮﻩ ﻓﻲ اﻟﺘﻴﻤﻢ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ اﻷﺻﺢ ﺟﻮاﺯﻩ. (المجموع: 9/50) وقال العز بن عبد السلام رحمه الله جاز التداوي بالنجاسات إذا لم يجد طاهرًا يقوم مقامها، لأن مصلحة العافية والسلامة أكمل من مصلحة اجتناب النجاسة. (قواعد الأحكام في إصلاح الأنام:1/132)
پیر _1 _جولائی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0744
حاجی (تمتع اور قِران) پر اگر دم واجب ہوجائے تو دم دینے کا وقت کب تک رہتا ہے؟ اور اس میں افضل کونسا وقت ہے؟
تمتع اور قِران والے حاجی پر اگر دم واجب ہوجائے اس کے لیے کوئی وقت متعین نہیں ہے. بلکہ وہ عید سے پہلے پہلے دم دے (جانور ذبح کرے) البتہ افضل وقت یوم النحر کی صبح سے لیکر ایام تشریق کے تیسرے دن کے غروب تک رہتا ہے۔
قال الشيرازي رحمه الله: الأفضل ان يذبح دم التمتع و القران يوم النحر۔ (التنبيه/١٥٥) قال امام الحرمين رحمه الله: اذا وجب الدم فلا وقت له على الخصوص بعد الوجوب فله ان يريق الدم قبل العيد قياسا على سائر دماء الجبرانات۔ (نهاية المطلب:٥٨/٤) وذهب الشافعية الى انها لا تختص بزمان بل يجوز ان يذبحها بعد الإحرام بالقران وبعد الإحرام بالحج فى التمتع ويجوز قبل الإحرام بالحج بعد التحلل من العمرة فى الاظهر. (الموسوعة الفقهية:٢٥٠/٤٢) *بحر المذهب:٦٦/٥ *الوسيط:٥٩/٢
پیر _8 _جولائی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0745
اضطباع کسے کہتے ہیں اور اس کا کیا حکم ہے؟
اضطباع یعنی سعی کرتے وقت احرام کی چادر کو اس طرح اوڑھے کہ چادر کا درمیانی حصہ داہنے کندھے کے نیچے رہے اور احرام کی چادر کے دونوں کنارے بائیں کندھے پر آجائے۔ سعی میں طواف کی طرح اضطباع سنت ہے۔ البتہ دوران سعی نماز پڑھنے کی نوبت اجائے تو اضطباع کی حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ (وأن يضطبع) الذكر المحقق ولو صبيا فيسن للولي فعله به (في جميع كل طواف يرمل فيه) أي يشرع فيه الرمل، وإن لم يرمل للاتباع بسند صحيح ويكره تركه ولو تركه في بعضه أتى به في باقيه (وكذا) يسن الاضطباع (في) جميع (السعي على الصحيح) قياسا على الطواف ويكره فعله في الصلاة كسنة الطواف۔ (تحفة المحتاج:٤/٩٠) (وأن يضطبع) الذكر المحقق ولو صبيا فيسن للولي فعله به (في جميع كل طواف يرمل فيه) أي يشرع فيه الرمل، وإن لم يرمل للاتباع بسند صحيح ويكره تركه ولو تركه في بعضه أتى به في باقيه (وكذا) يسن الاضطباع (في) جميع (السعي على الصحيح) قياسا على الطواف ويكره فعله في الصلاة كسنة الطواف۔ (مغنى المحتاج:٢/٢٥١)
بدھ _10 _جولائی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0746
اگر کوئی مٹی کا کام کرنے کی وجہ سے ناخن میں میل کچیل یا مٹی جمع ہوجائے اور اسی حالت میں کوئی وضو کرلے تو کیا اس کا وضو صحیح ہوگا؟
اگر کوئی شخص مٹی کا کام کرتا ہو جیسے کاشتکار وغیرہ جس کی وجہ سے اس کے ناخن میں مٹی کا میل کچیل جمع رہتا ہے اور ایسا شخص بےتوجہی سے وضو کرتا ہے اور میل کچیل کی وجہ سے پانی چمڑی تک نہیں پہنچتا تو اس کا وضو صحیح نہیں ہوگا ہاں اگر کوئی کاشتکار میل کچیل اور جمع شدہ مٹی کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے لیکن مسلسل ایسا کام کرنے کی وجہ سے مٹی کا تھوڑا بہت اثر باقی رہتا ہے تو وضو درست ہوگا۔
ما يشترط في المغسول جري الماء عليه وتقديم ازالةمانع وصوله الى البشرة كوسخ ظفر و كشمع او حناء او دهن جامد في شقوق القدمين ان لم يبلغ اللحم (العباب :۸۵/۱) ويعلم مما تقرر انه يجب ازالة ما تحت الاظفار من الوسخ، لمنعه وصول الماء. نعم : يعفي عن القليل في حق من ابتلي به: كالفلاحين ونحوهم ممن يشتغل في الطين.. قال الغزالى والزركشى غيرهما واطالوافي ترجيحه،وصرحوا بالمسامحة عما تحتها من الوسخ دون نحوالعجين (فتح العلام :١/ ١٩٤ – ١٩٥) *روضةالطالبين :١/ ١٦٤ *الاقناع :١/ ١٢٥ *اعانة الطالبين :١/ ٦٠
جمعرات _11 _جولائی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر /0747
اگر کوئی شخص حالت احرام میں بھول کر یا لاعلمی میں خوشبو لگائے یاسلے ہوئے کپڑے پہنے تو کیا ایسے شخص پر فدیہ لازم ہوگا؟
اگر کوئی شخص حالت احرام میں بھول کر یا لاعلمی میں خوشبو لگائے یا سلے ہوئے کپڑے پہنے تو اس پر فدیہ لازم نہ ہوگا۔ اس لیے کہ خوشبو اور سِلے ہوئے کپڑے کا انسان عام طور سے عادی ہوتا ہے، اس لیے بھول اور لاعلمی کی وجہ سے معاف ہے۔
(وان لبس أو تطيب أو دهن رأسه أو لحيته جاهلا بالتحريم أو ناسيا للاحرام لم يلزمه الفدية۔ (المجموع 7/338) والفرق بين ما نحن فيه والطيب واللباس ونحوهما من الاستمتاعات: أن الاستمتاعات تميل الطباع إليها [ولا يتكامل فيها القصد، فذر بالنسيان، والإتلافات على خلاف الطبع] فلا يقدم عليها إلا عن تكامل قصد ووجود رؤية؛ فلذلك كان حكم العمد [والنسيان فيها] سواء.
(كفاية التنبيه: ٧/٢٣٦)
پیر _15 _جولائی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0748
اگر عورت حالت احرام میں اپنے ہاتھوں میں گلوز پہنے تو اسکا کیا مسئلہ ہے؟
احرام کی حالت میں عورت کے لیے ہاتھوں میں دستانے (گلوز) پہننا درست نہیں ہے اور گلوز پہننے پر دم دینا واجب ہوگا ۔ یعنی ایک بکری یا بکرا ذبح کرے۔یا ساڑھے سات کلو اناج صدقہ کرے یا تین روزے رکھے)*
اذا لبست القفاز فعليها دم اللبس و دم اللبس وهو دم تخيير (ارقة دم، اخراج ثلاثة آصع، صيام ثلاثة أيام) (كفاية المحتاج كتاب الحج:٣٥٨/٣٥٩) (ابو داود باب المناسك/١٨٢٧) (المهذب كتاب الحج :1/694) (المجموع كتاب الحج : ٧/٢٣٨) (روضة الطالبين كتاب الحج: ٢/٤٠٤) (البيان كتاب الحج :٤/١٤٥)
پیر _15 _جولائی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0749
اگر کم پانی میں چوہا چھلانگ لگائے اور باہر نکل جائے تو اس پانی کی طہارت کا کیا حکم ہے؟
اگر کم پانی میں چوہا چھلانگ لگائے اور باہر نکل جائے تو اس حالت میں پانی ناپاک نہیں ہوگا اس لیے کہ پانی کو اس طرح کے جانوروں سے بچانا مشکل ہے۔ البتہ جانور کے جسم پر کوئی ظاہری نجاست ہو اور وہ پانی میں مل جائے تو پانی ناپاک ہوگا۔
الطائر اذا كان علي منفذه نجاسه فانه لا ينجس الماء القليل اذا وقع فيه لو خرج حيا… المشقة في صيانه المائي… والفارة كاالطير۔ (عمدة المحتاج الى شرح المنهاج:٣٦٦/١) اما الفأرة اذا وقعت في ماء قليل وخرجت حيه فلا يحكم بنجاسة الماء علي الازهر (الوسيط:٦٤/١)
منگل _16 _جولائی _2019AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0750
حاجی یا عمرہ کرنے والا حالت طواف میں تین چار پھیروں کے بعد تھکان محسوس کرے تو کیا ایسا شخص بقیہ طواف دوسرے دن کر سکتا ہے؟
حالت طواف میں کسی شخص کو تین چار پھیروں کے بعد (بیماری/ضعف) کی وجہ سے تھکان محسوس کرے جس کی بنا پر اس نے بقیہ طواف کو دوسرے دن ادا کیا تو اس کا طواف درست ہوگا، البتہ بہتر یہی ہے کہ طواف پے در پے کر کے جلد مکمل کرلے۔
الواجب الثامن: مختلف فيه، وهو الموالاة بين الطوفات السبع، وفيها قولان.اظهرهما انها سنة، فلا تبطل بالتفريق الكثير. (روضة الطالبين:٨٤/٣) فلو أحدث فيه توضا و بنى، وفى قول يستانف. (السراج الوهاج:١٢٣/١)