بدھ _18 _مارچ _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0831
*بعض ملکوں میں کرونا وائرس کی وجہ سے مؤذن حضرات اذان میں ”الا صلوا في رحالكم“ کہتے ہیں اس طرح کہنے کا کیا حکم ہے؟ *
جن اعذار (جیسے خوف، مرض، تیز بارش، کیچڑ وغیرہ) کی وجہ سے جماعت کو ترک کرنے کی اجازت ہے ایسے موقع پر اذان کے بعد ”الا صلوا فی رحالکم“ کہنا مستحب ہے۔ اس وقت بعض ملکوں میں جس طرح اذان میں “الا صلوا فی رحالکم“کے کلمات کہنا شروع کیا ہے تو شرعا ان الفاظ کا اذان میں کہنا جائز ہے البتہ اذان مکمل ہونے کے بعد کہنا مستحب ہے تاکہ اذان کا وزن برقرار رہے۔ اگر کوئی حی علی الصلاہ اور حی علی الفلاح کے بعد کہے تب بھی جائز ہے۔
قال المبارك الفوري رحمة الله عليه: ألا صلوا في رحالكم في نفس الأذان، وفي حديث ابن عمر أنه قال في آخر ندائه، والأمران جائزان نص عليهما الشافعي رحمه الله تعالى في الأم في كتاب الأذان، وتابعه جمهور أصحابنا في ذلك، فيجوز بعد الأذان، وفي أثنائه؛ لثبوت السنة فيهما، لكن قوله بعده أحسن؛ ليبقى نظم الأذان على وضعه۔ (تحفة الاحوذي/٦٩٧) قال النووي رحمة الله عليه : قال الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي آخِرِ أَبْوَابِ الْأَذَانِ إذَا كَانَتْ لَيْلَةً مَطِيرَةً أَوْ ذَاتَ رِيحٍ وَظُلْمَةٍ يُسْتَحَبُّ أَنْ يَقُولَ الْمُؤَذِّنُ إذَا فَرَغَ مِنْ أَذَانِهِ أَلَا صَلُّوا في رحالكم قال فَإِنْ قَالَهُ فِي أَثْنَاءِ الْأَذَانِ بَعْدَ الْحَيْعَلَةِ فَلَا بَأْسَ هَذَا نَصُّهُ. (المجموع شرح المهذب:١٢٩/٣)
جمعرات _19 _مارچ _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0832
کاروبار میں خریدو فروخت کے وقت بائع یعنی بیچنے والا اگر یہ شرط لگائے (ڈئیل) ختم کرنے کی صورت میں ایڈوانس رقم واپس نہیں ملے گی، کیا اس طرح کی شرط کے ساتھ لین دین کرنا درست ہے؟
بائع یعنی بیچنے والا یہ کہے کہ ڈئیل (لین دین) ختم کرنے کی صورت میں ایڈوانس رقم واپس نہیں ملے گی تو شرعا اس طرح شرط رکھ کر خرید و فروخت کرنا درست نہیں ہے۔
بيع العُرْبون: وهو أن يبيعه شيئاً على أن يعطيه جزءاً من الثمن، يكون هبة للبائع إن لم يتم البيع، وإن تم البيع حُسب من الثمن. فهو منهي عنه وباطل لأن فيه شرطاً فاسداً، وهو الهبة للبائع. (الفقه المنهجي على مذهب الإمام الشافعي:٣٤/٣) الْعُرْبُونِ) بِفَتْحِ الْعَيْنِ وَالرَّاءِ وَبِضَمِّ الْعَيْنِ وَإِسْكَانِ الرَّاءِ لِمَا رَوَى أَبُو دَاوُد «أَنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ» أَيْ بِضَمِّ الْعَيْنِ وَإِسْكَانِ الرَّاءِ لُغَةٌ ثَالِثَةٌ (وَهُوَ أَنْ يُعْطِيَهُ بَعْضَ الثَّمَنِ فَإِنْ فُسِخَ كَانَ هِبَةً) عِبَارَةُ الْأَصْلِ وَهُوَ أَنْ يَشْتَرِيَ سِلْعَةً مِنْ غَيْرِهِ وَيَدْفَعَ إلَيْهِ دَرَاهِمَ لِتَكُونَ مِنْ الثَّمَنِ إنْ رَضِيَ السِّلْعَةَ وَإِلَّا فَهِبَةٌ۔ (أسنى المطالب في شرح روض الطالب:٣١/٢)
اتوار _22 _مارچ _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0833
کرونا وائرس کی وجہ سے بعض جگہ حکومت کی طرف سے جمعہ کے بجائے ظہر کی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے تو کیا ایسی صورت میں جمعہ چھوڑ کر ظہر پڑھنے کی گنجائش ہے؟
شریعت میں جن اعذار کی بنا پر جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے ان میں مرض، خوف، تیز بارش، زیادہ کیچڑ، وغیرہ شامل ہیں لیکن اس رخصت پر آخری درجہ میں عمل کیا جائے گا۔ اگر کسی جگہ حکومت کی طرف سے کسی خاص مرض کے پھیلنے کے خوف سے (کرونا وائرس) یا کسی اور عذر کی وجہ سے ایک جگہ بڑی تعداد میں جمع ہونے سے منع کیا گیا ہے تو اس صورت میں ممکن ہو تو اپنے علاقوں یا بستیوں میں چالیس افراد کے ذریعے جمعہ کی نماز پڑھنے کی کوشش کی جائے اگر اتنے لوگ بھی جمع ہونے پر پابندی ہو تو اس صورت میں کم از کم چار یا پانچ لوگ جمع ہو کر جس جگہ ممکن ہو جمعہ پڑھیں گے۔ اگر بیماری بہت زیادہ ہو یا حکومت کی طرف سے سخت رکاوٹ ہو تو ایسی صورت میں جمعہ کے بجائے ظہر کی نماز پڑھی جائے گی۔*
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ ". (سنن ابن ماجه:٧٩٣) قال المباركفوري رحمة الله عليه: من سمع النداء فلم يجب من غير ضرر ولا عذر فلا صلاة له (مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:٥٢٤/٣) قال ابن الملقن رحمة الله عليه: ولا رخصة في تركها، وان قلنا سنة اي ولا رخصة في ترك الجماعة… الا بعذر (عمدة المحتاج:٢٧٤/٣) *قال الرؤياني رحمة الله عليه : قال أصحابنا:كل ما كان عذرا في ترك الجماعة فهو عذر في ترك الجمعة…. * (بحر المذهب:١١٦/٣) (فتنعقد عنده باربعة) اي بالامام وهو قول قديم للشافعي ورجحه المزني وابن منذر وكذا مال اليه جمع من المحققين المتقدمين والمتأخرة ومنهم الامام السيوطي.. (ترشيح المستفيدين:١١٨)
جمعرات _26 _مارچ _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0834
بہت سارے ممالک میں حکومت کی طرف سے باہر نکلنے سے منع کیا گیا ہے اور اس وبائی مرض کی شدت اور حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اوقاف یا قاضی شہر کی طرف سے جمعہ نہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے تو کیا ایسی صورت میں ہم اپنے گھروں چند لوگوں کے ساتھ جمعہ پڑھ سکتے ہیں یا ظہر پڑھنا ہوگا؟
اس وقت جو مرض کرونا وائرس دنیا کے اکثر ممالک بشمول ہندوستان میں جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور اکثر جگہوں پر حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کیے گیے ہیں مقاصد شرعیہ کو سامنے رکھتے ہوئے وہاں کے اوقاف یا شہر کے قاضی کی طرف سے جمعہ نہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے تو ایسے وقت میں اپنے گھروں میں جمعہ کے بجائے ظہر کی چار رکعت نماز ادا کرینگے ۔اس لیے کہ مذکورہ صورت حال میں جمعہ نہ پڑھنے کی گنجائش ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ ". (سنن ابن ماجہ:793) قال ابن الملقن: ولا رخصة في تركها، وان قلنا سنة اي ولا رخصة في ترك الجماعة… الا بعذر (عمدۃ المحتاج:3/274) *قال الرؤياني: قال أصحابنا:كل ما كان عذرا في ترك الجماعة فهو عذر في ترك الجمعة…. * (بحرالمذھب:3/116) وقد ذكر الفقهاء جملة من الأعذار التي تسقط بها صلاة الجماعة في المسجد ومنها : المطر الشديد الذي يشق معه الخروج للجماعة، الريح الشديدة ليلا لما في ذلك من المشقة، البرد الشديد ليلا أو نهارا…..غير ذلك من الأعذار التي ذكرها الفقهاء رحمة الله عليهم ، ومن تأملها علم أن الحظر أولى بالاعتبار من تلك الأعذار ؛ لما يترتب على مخالفته من ضرر يلحق بالنفس والأهل . (حظر التجول واحكامه الفقهية)
جمعہ _27 _مارچ _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0835
اگر بالغ مرد اور نابالغ بچوں کے ساتھ عورتیں بھی جماعت سے نماز پڑھ رہی ہوں تو ان کی صف بندی کی کیا صورت ہوگی؟
اگر بالغ مرد اور نابالغ بچوں کے ساتھ عورتیں بھی ہوں تو امام کے پیچھے پہلی صف میں بالغ مرد اور نابالغ بچوں کو کھڑا کیا جائے گا، اور گھر کی عورتیں اس کے پیچھے دوسری صف بناکر نماز پڑھیں گی۔
قال الإمام النووي رحمه الله : وإن حضر معه إمرأة ورجلان ، أو رجل وصبي قام الرجلان ، أو الرجل والصبي خلف الإمام صفا وقامت هي خلفهما (روضة الطالبين١/٤٦٣) قال الإمام العمراني رحمه الله: وإن حضر مع الرجل والصبي إمرأة وقفت خلفهما لحديث أنس . (البيان:٢/ ٤١٤)
ہفتہ _28 _مارچ _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0836
اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ باجماعت نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو اس کی کیا ترتیب ہے؟
*اگر صرف میاں بیوی باجماعت نماز پڑھنا چاہتے ہوں تو مرد کی اقتداء میں بیوی بالکل پیچھے الگ صف میں کھڑی ہوگی۔ یعنی صرف دو مرد ہونے کی صورت میں جس طرح ایک دائیں جانب گھڑا ہوتاہے عورت کا اس طرح کھڑا ہونا درست نہیں۔ *
قال الإمام العمراني رحمه الله: وإن حضر مع الإمام إمرأة لا رجل معها وقفت خلف الإمام . (البيان:٢ / ٤١٤) قال الإمام النووي رحمه الله: ولو لم يحضر إلا إناث صفهن خلفه، سواء الواحدة وجماعتهن . (روضة الطالبين:١ /٤٦٣) قال الإمام ابن حجر الهيتمي رحمه الله: وكذا لو حضر إمرأة أو نسوة فقط فتقف هي أو هن خلفه، وإن كن محارمه للاتباع أيضا . (تحفة المحتاج:١ / ٢٩٤)
اتوار _29 _مارچ _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0837
ماسک پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
*موجودہ حالات میں کرونا وائرس سے بچنے کے لیے چہرے پر ماسک کا لگانا احتیاطی تدابیر میں داخل ہے، لہذا اگر کوئی شخص ماسک لگا کر نمازمیں سجدہ کرتا ہے، جبکہ سجدے میں ناک زمین پر لگنے سے ماسک حائل بن رہا ہے تو اس صورت میں ماسک لگا کر نماز پڑھنا صحیح اور درست ہے اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس لیے کہ سجدہ میں ناک کا زمین پر لگنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔ نیز ماسک کا پہننا عذر کی بناء پر ہے. لہذا اس صورت میں ناک کا زمین پر لگنا بھی شمار ہوگا جیسا کہ پیشانی پر زخم کی بناء پر پٹی ہوتو پیشانی کا لگنا شمار ہوتا ہے اور سجدہ درست ہوتا ہے *
وَإِنَّمَا لَمْ يَجِبْ وَضْعُ الْأَنْفِ كَالْجَبْهَةِ مَعَ أَنَّ خَبَرَ «أُمِرْت أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ» ظَاهِرُهُ الْوُجُوبُ لِلْأَخْبَارِ الصَّحِيحَةِ الْمُقْتَصِرَةِ عَلَى الْجَبْهَةِ قَالُوا وَتُحْمَلُ أَخْبَارُ الْأَنْفِ عَلَى النَّدْبِ قَالَ فِي الْمَجْمُوعِ وَفِيهِ ضَعْفٌ؛ (أسنى المطالب في شرح روض الطالب:١٦٢/١) فان کان بجبھتة جراحة فعصبھا بعصابة وسجد علی العصابة اجز أ ہ لانه لماجاز ترك اصل السجود لعذر فلان یجوز ترك مباشرۃ الجبھة لعذراولی (البیان:2/215) فالسجود على الجبهة واجب عند الشافعية بلا خلاف، والسجود على الأنف مع الجبهة مستحب عندهم، فلو تركه جاز، . فتح المنعم شرح صحيح مسلم٦٨/٣
پیر _13 _اپریل _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0838
اگر کوئی شخص نماز میں ایک ہی آیت کو باربار پڑھے اور دوسری آیت زبان پر نہیں آرہی ہو تو کیا ایسی صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب ہو گا یا نہیں؟
اگر کوئی شخص نماز میں ایک ہی آیت کو بار بار پڑھے اور دوسری آیت زبان پر نہیں آرہی ہو تو اس صورت میں اس کی نماز درست ہوگی اور سجدہ سہو کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
فلو كان تخلّل الذكر الأجنبي، أو السكوت الطويل، سهواً أو جهلاً أو كان السكوت لتذكر آية، لم يضر، كما لو كرر آية منها في محلها ولو لغير عذر……. (إعانة الطالبين:٢٢٦/١) قال الإمام: والذي أراه أنه لا تنقطع موالاته بتكرير كلمة منها كيف كان……في كتابه التبصرة بأنه لا تنقطع قراءته سواء كررها للشك أو للتفكر…… وقال المتولي: إن كرر الآية التي هو فيها لم تبطل قراءته، و إن أعاد بعض الآيات التي فرغ منها بأن وصل إلى {أنعمت عليهم} ثم قرأ {مٰلك يوم الدين}، فإن إستمر على القراءة من {مٰلك يوم الدين} أجزأته قراءته… (المجموع:٣٢٨/٤)
جمعرات _2 _اپریل _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0839
عورتوں کو جماعت کی نماز کے لیے اذان دینے کا کیا مسئلہ ہے؟
عورت چاہے اکیلی نماز پڑھے یا جماعت بنا کر ہر صورت میں عورت نماز کے لیے اذان نہ دے گی عورت کے اذان دینے میں فتنہ کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ البتہ اقامت آہستہ آواز دینا مسنون ہے۔
علامہ سلیمان جمل رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وَإِنْ كَانَ الْمُرَادُ أَنَّ الْمَرْأَةَ وَالْخُنْثَى لَا يُسَنُّ الْأَذَانُ مِنْ نَفْسِهِمَا وَيُسَنُّ أَنْ يُحَصِّلَا لَهُمَا ذَكَرًا يُؤَذِّنُ لَهُمَا سَوَاءٌ كَانَتَا مُنْفَرِدَتَيْنِ أَوْ مُجْتَمَعِينَ لَمْ يَحْصُلْ تَعَارُضٌ بَيْنَ الْمَحَلَّيْنِ حُرِّرَ، فَإِنِّي لَمْ أَرَ مَا يَقْتَضِي صِحَّةَ أَحَدِ الْمُرَادَيْنِ دُونَ الْآخَرِ (حاشية الجمل:٢٩٩/١) علامہ بجیرمی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وَ) سُنَّ. (إقَامَةٌ) لَا أَذَانٌ. (لِغَيْرِهِ) أَيْ لِلْمَرْأَةِ وَالْخُنْثَى مُنْفَرِدَيْنِ أَوْ مُجْتَمِعَيْنِ؛ لِأَنَّهَا لِاسْتِنْهَاضِ الْحَاضِرِينَ فَلَا تَحْتَاجُ إلَى رَفْعِ صَوْتٍ وَالْأَذَانُ لِإِعْلَامِ الْغَائِبِينَ فَيُحْتَاجُ فِيهِ إلَى الرَّفْعِ وَالْمَرْأَةُ يُخَافُ مِنْ رَفْعِ صَوْتِهَا الْفِتْنَةُ وَأُلْحِقَ بِهَا الْخُنْثَى احْتِيَاطًا. (حاشية البجيرمي:١٦٩/١) امام الحرمین فرماتے ہیں: وممّا نذكره مرسلاً، أن المرأة لا تؤذن رَافعةً صوتَها، ولو أذنت في جمع الرجال لا يعتدّ بأذانها وفاقاً، وذلك يناظر حكمنا بامتناع اقتداء الرجال بها، وإِن كانت صلاتها صحيحة، والقياس أن من صحت صلاتُه، صح الاقتداء به. (نهاية المطلب:٤٤/٢) امام بغوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں۔ويستحب للمرأة أن تقيم ولا تؤذن؛ لأن الأذان؛ لإعلام النَّاس وفي موتها فتنة. (التهذيب:٤٧/٢)
ہفتہ _11 _اپریل _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0840
گھر میں اکیلے فرض نماز پڑھتے وقت قرات بلند آواز سے پڑھنے کا کیا مسئلہ ہے؟
*اگر کوئی گھر میں اکیلے نماز پڑھتا ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنی قرات کو جہری نمازوں فجر، مغرب اور عشاء کی شروع کی دو رکعتوں میں قرات آواز کے ساتھ پڑھنا سنت ہے۔ اور بقیہ نمازوں یعنی ظہر اور عصر میں (سرا) آہستہ آواز میں پڑھنا سنت ہے *
فروع. يستحب للامام، والمنفرد الجهر في الصبح والاولين من المغرب والعشاء. والسنة. أن يجهر الامام، والمنفردفي. الصبح والاولين. من المغرب، والاولين من العشاء ويسر فيما سوى ذلك من الصلوات الخمس، لانه نقل ذلك من النبي.صلى الله عليه وسلم. نقلا متواترا وهو اجماع لا خلاف فيه. (مغني المحتاج:٣٦٢/١)