بدھ _1 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0861
*بارش کے دنوں میں راستہ چلتے کیچڑ کپڑوں پر لگ جائے تو اسی کپڑوں پر نماز پڑھنے کا کیا مسئلہ ہے؟*
*بارش کے موسم میں راستوں پر جو کیچڑ یا جمع شدہ پانی بدن پر لگ جائے تو اگر کیچڑ یا جمع شدہ پانی میں نجاست ملنے کا یقین ہو تو وہ تھوڑا لگے تو معاف ہے اگر زیادہ لگ جائے تو معاف نہیں اور پاک پانی سے اس کا دھونا ضروری ہے زیادہ اور کم کی مقدار کا اعتبار عرف سے کیا جائے گا۔اور اگر نجاست کا یقین نہ ہو تو وہ پانی اور کیچڑ پاک ہے ۔ اس حالت میں نماز درست ہوگی۔*
(*ﻭﻃﻴﻦ اﻟﺸﺎﺭﻉ) ﻳﻌﻨﻲ ﻣﺤﻞ اﻟﻤﺮﻭﺭ ﻭﻟﻮ ﻏﻴﺮ ﺷﺎﺭﻉ ﻛﻤﺎ ﻫﻮ ﻇﺎﻫﺮ (اﻟﻤﺘﻴﻘﻦ ﻧﺠﺎﺳﺘﻪ) ﻭﻟﻮ ﺑﻤﻐﻠﻆ ﻣﺎ ﻟﻢ ﺗﺒﻖ ﻋﻴﻨﻪ ﻣﺘﻤﻴﺰﺓ ﻭﺇﻥ ﻋﻤﺖ اﻟﻄﺮﻳﻖ ﻋﻠﻰ اﻷﻭﺟﻪ ﺧﻼﻓﺎ ﻟﻠﺰﺭﻛﺸﻲ ﻟﻨﺪﺭﺓ ﺫﻟﻚ ﻓﻼ ﻳﻌﻢ اﻻﺑﺘﻼء ﺑﻪ ﻭﻓﺎﺭﻕ ﻣﺎ ﻣﺮ ﻧﺤﻮ ﻣﺎ ﻻ ﻳﺪﺭﻛﻪ ﻃﺮﻑ ﻭﻣﺎ ﻳﺄﺗﻲ ﻓﻲ ﺩﻡ اﻷﺟﻨﺒﻲ ﺑﺄﻥ ﻋﻤﻮﻡ اﻻﺑﺘﻼء ﺑﻪ ﻫﻨﺎ ﺃﻛﺜﺮ ﺑﻞ ﻳﺴﺘﺤﻴﻞ ﻋﺎﺩﺓ اﻟﺨﻠﻮ ﻫﻨﺎ ﻋﻨﻪ ﺑﺨﻼﻓﻪ ﻓﻲ ﺗﻠﻚ اﻟﺼﻮﺭ ﻭﻛﺎﻟﺘﻴﻘﻦ ﺇﺧﺒﺎﺭ ﻋﺪﻝ ﺭﻭاﻳﺔ ﺑﻪ (ﻳﻌﻔﻰ ﻋﻨﻪ) ﺃﻱ ﻓﻲ اﻟﺜﻮﺏ ﻭاﻟﺒﺪﻥ ﻭﺇﻥ اﻧﺘﺸﺮ ﺑﻌﺮﻕ ﺃﻭ ﻧﺤﻮﻩ ﻣﻤﺎ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻴﻪ ﻧﻈﻴﺮ ﻣﺎ ﻳﺄﺗﻲ ﺩﻭﻥ اﻟﻤﻜﺎﻥ ﻛﻤﺎ ﻫﻮ ﻇﺎﻫﺮ ﺇﺫ ﻻ ﻳﻌﻢ اﻻﺑﺘﻼء ﺑﻪ ﻓﻴﻪ (ﻋﻤﺎ ﻳﺘﻌﺬﺭ اﻻﺣﺘﺮاﺯ ﻋﻨﻪ ﻏﺎﻟﺒﺎ) ﺑﺄﻥ ﻻ ﻳﻨﺴﺐ ﺻﺎﺣﺒﻪ ﻟﺴﻘﻄﺔ ﺃﻭ ﻗﻠﺔ ﺗﺤﻔﻆ ﻭﺇﻥ ﻛﺜﺮ ﻛﻤﺎ اﻗﺘﻀﺎﻩ ﻗﻮﻝ اﻟﺸﺮﺡ اﻟﺼﻐﻴﺮ ﻻ ﻳﺒﻌﺪ ﺃﻥ ﻳﻌﺪ اﻟﻠﻮﺙ ﻓﻲ ﺟﻤﻴﻊ ﺃﺳﻔﻞ اﻟﺨﻒ ﻭﺃﻃﺮاﻓﻪ ﻗﻠﻴﻼ ﺑﺨﻼﻑ ﻣﺜﻠﻪ ﻓﻲ اﻟﺜﻮﺏ ﻭاﻟﺒﺪﻥ اﻩـ. ﺃﻱ ﺃﻥ ﺯﻳﺎﺩﺓ اﻟﻤﺸﻘﺔ ﺗﻮﺟﺐ ﻋﺪ ﺫﻟﻚ ﻗﻠﻴﻼ ﻭﺇﻥ ﻛﺜﺮ ﻋﺮﻓﺎ ﻓﻤﺎ ﺯاﺩ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺎﺟﺔ ﻫﻨﺎ ﻫﻮ اﻟﻀﺎﺭ ﻭﻣﺎ ﻻ ﻓﻼ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻧﻈﺮ ﻟﻜﺜﺮﺓ ﻭﻻ ﻗﻠﺔ ﻭﺇﻻ ﻟﻌﻈﻤﺖ اﻟﻤﺸﻘﺔ ﺟﺪا ﻓﻤﻦ ﻋﺒﺮ ﺑﺎﻟﻘﻠﻴﻞ ﻛﺎﻟﺮﻭﺿﺔ ﺃﺭاﺩ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎﻩ (ﻭﻳﺨﺘﻠﻒ) ﺫﻟﻚ (ﺑﺎﻟﻮﻗﺖ ﻭﻣﻮﺿﻌﻪ ﻣﻦ اﻟﺜﻮﺏ ﻭاﻟﺒﺪﻥ) ﻓﻴﻌﻔﻰ ﻓﻲ ﺯﻣﻦ اﻟﺸﺘﺎء ﻭﻓﻲ اﻟﺬﻳﻞ ﻭاﻟﺮﺟﻞ ﻋﻤﺎ ﻻ ﻳﻌﻔﻰ ﻋﻨﻪ ﻓﻲ ﺯﻣﻦ اﻟﺼﻴﻒ ﻭﻓﻲ اﻟﻴﺪ ﻭاﻟﻜﻢ ﺳﻮاء ﻓﻲ ﺫﻟﻚ اﻷﻋﻤﻰ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﻛﻤﺎ ﻳﺼﺮﺡ ﺑﻪ ﺇﻃﻼﻗﻬﻢ ﻧﻈﺮا ﻟﻤﺎ ﻣﻦ ﺷﺄﻧﻪ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺧﺼﻮﺹ ﺷﺨﺺ ﺑﻌﻴﻨﻪ ﻭﻣﻊ اﻟﻌﻔﻮ ﻋﻨﻪ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺗﻠﻮﻳﺚ ﻧﺤﻮ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﺑﺸﻲء ﻣﻨﻪ ﻭﺧﺮﺝ ﺑﺎﻟﻤﺘﻴﻘﻦ ﻧﺠﺎﺳﺘﻪ۔* (تحفة المحتاج:١٣٠/٢) *ﺃﻣﺎ اﻟﺸﻮاﺭﻉ اﻟﺘﻲ ﻟﻢ ﻳﺘﻴﻘﻦ ﻧﺠﺎﺳﺘﻬﺎ ﻓﻤﺤﻜﻮﻡ ﺑﻄﻬﺎﺭﺗﻬﺎ ﻭﺇﻥ ﻇﻦ ﻧﺠﺎﺳﺘﻬﺎ ﻋﻤﻼ ﺑﺎﻷﺻﻞ.* (حاشیة الجمل: ٤٢٠/١)
جمعرات _2 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0862
*کُتا اگر کسی جگہ بیٹھ جائے تو اس جگہ کو دھونا دھونے کا کیا طریقہ کیا ہے؟*
*کُتا ناپاک ہے، لہذا کُتا کسی جگہ پر بیٹھ کر چلا گیا اگر وہ جگہ اور کُتا دونوں خشک تھے تو وہ جگہ ناپاک نہیں ہوگی۔ لیکن اگر کتا اور جگہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک تر ہو تو وہ جگہ ناپاک ہوگی۔ اس جگہ کو پاک کرنے کے لئے سات مرتبہ دھونا ضروری ہے، اور سات مرتبہ میں ایک مرتبہ مٹی ملاکر پانی بہانا ضروری ہے۔البتہ اگر وہ زمین مٹی والی ہو تو اس صورت میں صرف سات مرتبہ صرف پانی بہانا کافی ہے ۔*
*النَّجِسُ إذَا لَاقَى شَيْئًا طَاهِرًا، وَهُمَا جَافَّانِ: لَا يُنَجِّسُهُ* (الأشباه والنظائر للسيوطي:٤٣٢) *لَوْ مَاسَّ الْكَلْبُ ثَوْبًا رَطْبًا أَوْ مَاسَّ بِبَدَنِهِ الرَّطْبِ ثَوْبًا يَابِسًا أَوْ وَطِئَ بِرُطُوبَةِ رِجْلِهِ عَلَى أَرْضٍ أَوْ بِسَاطٍ كَانَ كَالْوُلُوغِ فِي وُجُوبِ غَسْلِهِ سَبْعًا فِيهِنَّ مَرَّةٌ بِالتُّرَابِ۔* (الحاوي الكبير:٣١٥/١) *يَكْفِي التُّرَابُ الْمَمْزُوجُ بِالْمَائِعِ؛ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ تِلْكَ الْغَسْلَةِ إنَّمَا هُوَ التُّرَابُ وَلَا يَجِبُ تَتْرِيبُ أَرْضٍ تُرَابِيَّةٍ إذْ لَا مَعْنَى لِتَتْرِيبِ التُّرَابِ فَيَكْفِي تَسْبِيعُهَا بِمَاءٍ وَحْدَهُ۔* (مغني المحتاج :٢٤١/١) *بِخِلَافِ الْأَرْضِ الْحَجَرِيَّةِ وَالرَّمْلِيَّةِ الَّتِي لَا غُبَارَ فِيهِمَا فَلَا بُدَّ مِنْ تَتْرِيبِهِمَا۔* (نهاية المحتاج:٢٥٦/١)
منگل _7 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0863
*اگر کوئی شافعی شخص حنفی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا ہو تو ایسا مقتدی اپنی سورہ فاتحہ کب پڑھے گا؟*
*شوافع کے نزدیک ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اگر کوئی شافعی شخص حنفی امام کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ امام کے سورہ فاتحہ کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اپنی سورہ فاتحہ شروع کرے اور اگر یہ گمان ہو کہ امام طویل سورت پڑھنے کا عادی نہیں ہے جس کی وجہ سے سورہ فاتحہ کا موقع نہیں مل سکتا تو امام کے سورہ فاتحہ شروع کرنے کے بعد مقتدی اپنی سورة فاتحہ شروع کرکے مکمل کرسکتا ہے*
*علامہ خطیب شربینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ﻓﺈﻥ ﻋﻠﻢ ﺃﻥ اﻹﻣﺎﻡ ﻻ ﻳﻘﺮﺃ السورة ﺃﻭ ﻳﻘﺮﺃ ﺳﻮﺭﺓ ﻗﺼﻴﺮﺓ ﻻ ﻳﺘﻤﻜﻦ ﺑﻌﺪ ﻗﺮاءﺗﻪ ﻣﻦ ﺇﺗﻤﺎﻡ اﻟﻔﺎﺗﺤﺔ ﻓﻌﻠﻴﻪ ﺃﻥ ﻳﻘﺮﺃ اﻟﻔﺎتحة معه.* (مغني المحتاج:١/٥٠٩) *علامہ رملي رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: لَوْ عَلِمَ أَنَّ إمَامَهُ يَقْتَصِرُ عَلَى الْفَاتِحَةِ أَوْ سُورَةٍ قَصِيرَةٍ وَلَا يَتَمَكَّنُ مِنْ إتْمَامِ الْفَاتِحَةِ فَعَلَيْهِ أَنْ يَقْرَأَ الْفَاتِحَةَ مَعَ قِرَاءَتِهِ۔* (نهاية المحتاج:٢/٢٣١)
منگل _7 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0864
*خطبہ جمعہ میں تقوی کی وصیت کا کیا حکم ہے ؟*
*خطبہ جمعہ میں تقوی کی وصیت کرنا ضروری ہے البتہ تقوی کی وصیت کرنے میں کسی خاص الفاظ کا استعمال کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اصل مقصد اللہ کی اطاعت پر ابھارنا اور گناہ پر تنبیہ کرنا ہے اگر کوئی خطیب خطبہ جمعہ میں انہی چیزوں کو دوسرے الفاظ میں بیان کرے تو تقوی کی وصیت حاصل ہوگی لیکن صرف دنیاوی زیب و زینت اور دھوکہ سے متنبہ کرنا کافی نہیں ہوگا۔*
*وثالثها الوصية بالتقوی للأتباع رواه مسلم، ولا يتعين لفظ الوصية بالتقوى لان الغرض الوعظ والحث على طاعة الله تعالى فيكفى أَطِيعُوا الله وراقبوه۔* (مغنى المحتاج:٤٨٧/١) *الوصیت بالتقوی للأتباع، ولا يتعين لفظها اي الوصية بالتقوى لان غرضها الوعظ وهو حاصل بغير لفظها كاطيعوا الله … ولا يكفي الاقتصار على تحذير من غرور الدنيا .* (اسني المطالب:٥١٥/٥١٦:١)
بدھ _8 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0865
*عمامہ پہنے شخص کے لیے وضو کرتے وقت عمامہ کو اتارنا ضروری ہے یا حرکت دئیے بغیر سر کے پچھلے یا کانوں کے اوپری حصہ کے بالوں میں مسح کرے تو کیا مسح درست ہے؟*
*وضو میں سر کا مسح کرنا فرض ہے اور سر کے مسح کی حد سر میں بالوں کے اگنے کی متعین جگے ہیں اگر کوئی عمامہ پہنا ہوا شخص سر کے پچھلے یا کانوں کے اوپری حصہ کے بالوں کا مسح کرے تو کافی ہوگا۔*
*علامہ رملی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔(اﻟﺮاﺑﻊ) ﻣﻦ اﻟﻤﻔﺮﻭﺽ ﻣﺴﻤﻰ ﻣﺴﺢ ﻟﺒﺸﺮﺓ ﺭﺃﺳﻪ) ﻭﺇﻥ ﻗﻞ (ﺃﻭ) ﺑﻌﺾ (ﺷﻌﺮ) ﻭﻟﻮ ﺑﻌﺾ ﻭاﺣﺪﺓ (ﻓﻲ ﺣﺪﻩ) ﺃﻱ اﻟﺮﺃﺱ ﺑﺤﻴﺚ ﻻ ﻳﺨﺮﺝ اﻟﻤﻤﺴﻮﺡ ﻋﻨﻪ ﺑﻤﺪ ﻭﻟﻮ ﺗﻘﺪﻳﺮا ﺑﺄﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻌﻘﻮﺻﺎ ﺃﻭ ﻣﺘﺠﻌﺪا، ﻏﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﺑﺤﻴﺚ ﻟﻮ ﻣﺪ ﻣﺤﻞ اﻝﻣﺴﺢ ﻣﻨﻪ ﺧﺮﺝ ﻋﻦ اﻟﺮﺃﺱ ﻣﻦ ﺟﻬﺔ ﻧﺰﻭﻟﻪ ﺃﻭ اﺳﺘﺮﺳﺎﻝ ﻣﻦ ﺟﻬﺔ ﻧﺰﻭﻟﻪ ﺳﻮاء ﻓﻴﻬﻤﺎ ﺟﺎﻧﺐ اﻟﻮﺟﻪ ﻭﻏﻴﺮﻩ، ﻟﻤﺎ ﺻﺢ ﻣﻦ «ﻣﺴﺢﻫ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﻟﻨﺎﺻﻴﺘﻪ ﻭﻋﻠﻰ ﻋﻤﺎﻣﺘﻪ» اﻟﺪاﻟﻴﻦ ﻋﻠﻰ اﻻﻛﺘﻔﺎء ﺑﻣﺴﺢ اﻟﺒﻌﺾ۔* (نهايةالمحتاج:١٧٣/١) *علامہ عبدالواحد الرویانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وإن مسح على الصدغين أو النزعتين جاز۔* (بحر المذهب :٩٦/١)
جمعرات _9 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0866
*بدن پر کھجلی کی بناء پر پانی میں ڈیٹول ڈال کر اس پانی سے فرض غسل کرنے کا کیا حکم ہے؟*
*اگر ڈیٹول پانی میں اتنی معمولی مقدار میں ڈالا جائے جس سے پانی کے رنگ، بُو یا مزہ میں تبدیلی واقع نہ ہو تو اس پانی سے فرض غسل کر سکتے ہیں، لیکن اگر ڈیٹول اتنی زیادہ مقدار میں ڈالا جائے جس کی وجہ سے پانی کا رنگ، بو یا مزہ تبدیل ہوجائے تو اب اس پانی کو فرض غسل کے لیے استعمال کرنا درست نہیں۔ لہذا فرص غسل کے لئے صاف پانی استعمال کرنا ضروری ہے ۔*
*قال الماوردي في الحاوي الكبير: اعْلَمْ أَنَّ كُلَّ مَا خَالَطَهُ مَذْرُورٌ طَاهِرٌ كَالزَّعْفَرَانِ وَالْعُصْفُرِ وَالْحِنَّاءِ، أَوْ خَالَطَ الْمَائِعَ طَاهِرٌ كَمَاءِ الْوَرْدِ وَالْخَلِّ، فَإِنْ لَمْ يُؤَثِّرْ فِي تَغَيُّرِ الْمَاءِ جَازَ اسْتِعْمَالُهُ فِي الْحَدَثِ وَالنَّجَسِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْمَائِعُ الْمَخَالِطُ أَكْثَرَ وَإِنْ غَيَّرَ أَحَدَ أَوْصَافِ الْمَاءِ مِنْ لَوْنٍ أَوْ طَعْمٍ أَوْ رَائِحَةٍ لَمْ يَجُزِ اسْتِعْمَالُهُ فِي حَدَثٍ وَلَا نَجَسٍ.* (الحاوي الكبير:١/ ٤٦) *قال النووي في المجموع: وَأَمَّا صِفَةُ التَّغَيُّرِ فَإِنْ كَانَ تَغَيُّرًا كَثِيرًا سَلَبَ قَطْعًا: وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا بِأَنْ وَقَعَ فِيهِ قَلِيلُ زَعْفَرَانٍ فَاصْفَرَّ قَلِيلًا أَوْ صَابُونٌ أَوْ دَقِيقٌ فَابْيَضَّ قَلِيلًا بِحَيْثُ لَا يُضَافُ إلَيْهِ فَوَجْهَانِ الصَّحِيحُ منهما انه طهور لبقاء الاسم هكذا صححه الخراسانيون وهو المختار۔* (المجموع:١ / ١٠٣)
اتوار _19 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0867
اگر کسی جانور کو پیدائشی طور پر خصتین نہ ہوں یا خصی کیا گیا ہو تو اس جانور کی قربانی کا کیا حکم ہے؟
خصی کیے ہوئے جانور کی قربانی درست ہے۔ اگر کوئی جانور پیدائشی طور پر خصی کیا ہوا ہو یا اسے بعد میں خصی کیا گیا ہو تو دونوں صورتوں میں اس جانور کی قربانی درست ہوگی۔ اگر جانور کی خصی کرنا عیب ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جانور کی قربانی کرنے کو منع فرماتے۔
علامہ ماوردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ﻓﻼ ﻳﺠﺰﺉ ﻣﻨﻬﺎ ﺇﻻ اﻟﺴﻠﻴﻢ ﻣﻦ ﻋﻴﻮﺏ اﻟﻀﺤﺎﻳﺎ ﻭﻳﺠﺰ اﻟﺨﺼﻲ ﻓﻴﻬﺎ ﻹﺟﺰاﺋﻪ ﻓﻲ اﻟﻀﺤﺎﻳﺎ۔
(الحاوی الکبیر:٤٨٦/١٥)
اتوار _19 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0868
*استنجاء کے لیے روئی کا استعمال کرنا کیسا ہے ؟*
*اگر کوئی شخص استنجاء کے لیے کپاس یا روئی کا استعمال کرے تو استنجا درست نہیں ہوگا اسلئے کہ کپاس میں قالعیت یعنی جذب کرنے والی صفت نہیں پائی جاتی ہے اور استنجاء حاصل کرنے والی چیز کا جامد یعنی سخت اور قالع یعنی جزب کرنے والی ہونا ضروری ہے نیز استنجاء حاصل کرنے والی چیز کا محترم بھی نہ ہونا ضروری ہے۔*
*قال الماوردي في الحاوي الكبير: وَإِنْ عُدِمَ الْوَصْفُ الثَّانِي فَكَانَ غَيْرَ مُزِيلٍ لَمْ يَجُزِ الِاسْتِنْجَاءُ بِهِ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ بِالِاسْتِنْجَاءِ هُوَ الْإِزَالَةُ، وَمَا لَا يُزِيلُ عَلَى أَرْبَعَةِ أَضْرُبٍ: أَحَدُهَا: مَا لَا يُزِيلُ لِنُعُومَتِهِ كَالْخَزِّ وَالْحَرِيرِ وَالْقُطْنِ.* (الحاوي الكبير:١ /١٦٧)
اتوار _19 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0869
*جانور کو ذبح کرتے وقت پوری گردن کٹ جائے اور جسم سے الگ ہوجائے تو کیا ذبیحہ درست ہوگا یا نہیں؟*
*جانور ذبح کرتے وقت اس بات خیال رکھیں کہ گردن پوری طرح جسم سے الگ نہ ہوجائے ہاں اگر چھری زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے اچانک پوری گردن کٹ جائے تو اس صورت میں ذبیحہ حلال ہوگا البتہ عمدا ایسا کرنا مکروہ ہے۔*
*علامه ماوردي رحمه الله علیہ فرماتےہیں: ﻗﺎﻝ اﻟﻤﺎﻭﺭﺩﻱ ﻭﻫﺬا ﺻﺤﻴﺢ ﻳﻜﺮﻩ ﺇﺫا ﻗﻄﻊ اﻟﺤﻠﻘﻮﻡ ﻭاﻟﻤﺮﻱء ﻭاﻟﻮﺩﺟﻴﻦ ﺃﻥ ﻳﺰﻳﺪ ﻓﻲ اﻟﺬﺑﺢ ﻟﻮﻗﻮﻉ اﻟﺬﻛﺎﺓ ﺑﻬﺎ ﻭﺇﺯﻫﺎﻕ ﺭﻭﺣﻪ ﺑﻤﺎ ﺯاﺩ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﺈﻥ ﺯاﺩ ﻓﻲ اﻟﺬﺑﺢ ﺣﺘﻰ ﻗﻄﻊ ﺭﺃﺳﻬﺎ ﻟﻢ ﺗﺤﺮﻡ۔* (الحاوي الكبير:٩٨/١٥) *علامہ رملی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَيُكْرَهُ لَهُ إبَانَةُ رَأْسِهَا حَالًا وَزِيَادَةُ الْقَطْعِ وَكَسْرُ الْعُنُقِ وَقَطْعُ عُضْوٍ مِنْهَا وَتَحْرِيكُهَا وَنَقْلُهَا حَتَّى تَخْرُجَ رُوحُهَا۔* (نهاية المحتاج:١١٨/٨)
منگل _21 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0870
*قربانی کے چمڑے کو بطور صدقہ غریب کو دینا اور وہ غریب اس چمڑے کو بیچ دے تو کیا قربانی درست ہوگی یا نہیں؟*
*قربانی کے جانور کا چمڑا اس کے گوشت کی طرح کسی غریب کو صدقہ کی نیت سے دینا جائز ہے۔ چونکہ غریب اس چمڑے کا مالک بن جاتا ہے اس اعتبار سے اس کے لئے قربانی کے گوشت کی طرح قربانی کے جانور کا چمڑا فروخت کرنا بھی جائز ہے۔*
*وَيَتَصَدَّقُ بِجِلْدِهَا أَوْ يَنْتَفِعُ بِهِ) بِنَفْسِهِ أَوْ يُعِيرُهُ لِغَيْرِهِ، وَيَحْرُمُ عَلَيْهِ وَعَلَى وَارِثِهِ بَيْعُهُ كَسَائِرِ أَجْزَائِهَا وَإِجَارَتُهُ وَإِعْطَاؤُهُ أُجْرَةً لِلْجَزَّارِ لِخَبَرِ «مَنْ بَاعَ جِلْدَ أُضْحِيَّتِهِ فَلَا أُضْحِيَّةَ لَهُ» وَلِزَوَالِ مِلْكِهِ عَنْهَا بِذَبْحِهَا .* (نهايه المحتاج.١٤٢/٨) *ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻔﻘﺮاء ﻓﻴﺠﻮﺯ ﻟﻬﻢ ﻓﻲ اﻟﻤﺄﺧﻮﺫ ﺟﻤﻴﻊ اﻟﺘﺼﺮﻓﺎﺕ.* (حاشيه الجمل.٢٥٩/٥)