منگل _21 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0871
*کیا عقیقہ اور قربانی ایک ساتھ ایک ہی جانور میں ہو سکتی ہے یا الگ الگ کرنا ہوگا؟*
*بڑے جانور یعنی اونٹ اور بیل کے سات حصوں میں کچھ عقیقہ اور کچھ قربانی کے حصہ بنانا درست ہے۔ لھذا اگر کوئی شخص بڑے جانور کے حصوں میں بیک وقت عقیقہ اور قربانی کرنا چاہے تو عقیقہ اور قربانی کرنا درست ہے۔*
*ﻭﻟﻮ ﺫﺑﺢ ﺑﻘﺮﺓ ﺃﻭ ﺑﺪﻧﺔ ﻋﻦ ﺳﺒﻌﺔ ﺃﻭﻻﺩ ﺃﻭ اﺷﺘﺮﻙ ﻓﻴﻬﺎ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﺟﺎﺯ ﺳﻮاء ﺃﺭاﺩﻭا ﻛﻠﻬﻢ اﻟﻌﻘﻴﻘﺔ ﺃﻭ ﺃﺭاﺩ ﺑﻌﻀﻬﻢ اﻟﻌﻘﻴﻘﺔ ﻭﺑﻌﻀﻬﻢ اﻟﻠﺤﻢ ﻛﻤﺎ ﺳﺒﻖ ﻓﻲ اﻷﺿﺤﻴﺔ (اﻟﺜﺎﻟﺜﺔ) اﻟﻤﺠﺰﺉ ﻓﻲ اﻟﻌﻘﻴﻘﺔ ﻫﻮ اﻟﻤﺠﺰﺉ ﻓﻲ اﻷﺿﺤﻴﺔ۔* (المجموع:٤٢٩/٨)
بدھ _22 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0872
*وضو کی حالت گوبر سے بنی ہوئی سوکھی زمین پر تَر پاؤں سے داخل ہوجائے تو اس صورت میں وضو کا کیا مسئلہ ہے؟*
*نجاست کا بدن یا کپڑے پر لگنا نواقض وضو میں شامل نہیں ہے البتہ اس لگی ہوئی نجاست کو بدن یا کپڑے سے دور کرنا ضروری ہے مذکورہ صورت میں گوبر سے بنی ہوئی سوکھی زمین پر گِلے پاؤں لے جانے سے یا اسی طرح کسی گیلی نجاست پر پاؤں گرنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا البتہ نجاست کا پاؤں سے دور کرنا اور صرف پانی سے نجاست کی جگہ کو دھونا کافی ہے دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں*
*علامہ ماوردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ﻣﻦ ﻣﺲ ﻛﻠﺒﺎ ﺃﻭ ﺧﻨﺰﻳﺮا ﻟﻢ ﻳﺘﻮﺿﺄ ﻭﻟﻮ ﻣﺲ ﺑﻮﻻ ﺃﻭ ﻋﺬﺭﺓ ﻟﻢ ﻳﺘﻮﺿﺄ۔* (الحاوی الکبیر:٣٧٧/١) *علامہ بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وإن كانت [عيينة] كالدم والروث يحثها، ويقرضها، ثم يدلكها بالماء؛ فتطهر۔* (التهذيب:١٩٣/١)
جمعرات _23 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0873
*باپ اگر استطاعت کے باوجود اپنی طرف سے قربانی نہ کرے بلکہ اپنے نابالغ بچہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہیے تو کیا اس کی گنجائش ہے؟*
*قربانی کے اصل مخاطب عاقل، بالغ، استطاعت رکھنے والے مسلمان ہیں، لیکن اگر بچے کا ولی اپنی طرف سے قربانی نہ کرتے ہوئے اپنے بچہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔*
*قال ابن حجر الهيتمي في تحفة المحتاج: أَنَّ لِلْوَلِيِّ الْأَبِ فَالْجَدِّ التَّضْحِيَةَ عَنْ مُوَلِّيهِ وَعَلَيْهِ فَلَا يُقَدَّرُ انْتِقَالُ الْمِلْكِ فِيهَا لِلْمُوَلِّي كَمَا هُوَ ظَاهِرٌ.* (تحفة المحتاج:٩ / ٣٦٩) *ﻭَﺃَﻣَّﺎ اﻟﺘَّﻀْﺤِﻴَﺔُ ﻋَﻦْ ﻃِﻔْﻠِﻪِ ﻓَﻬِﻲَ ﻏَﻴْﺮُ ﻣُﺨَﺎﻃَﺐٌ ﺑِﻬَﺎ ﻭَﺇِﻧَّﻤَﺎ ﻭُﺳِّﻊَ ﻟَﻪُ ﻓِﻴﻬَﺎ ﺗَﺤْﺼِﻴﻼً ﻟِﻠﺜَّﻮَاﺏِ ﻟِﻤُﻮَﻟِّﻴﻪِ.* (فتاوى الفقهية الكبرى:٤ / ٢٥٥)
جمعہ _24 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0874
*کسی شخص کو بکرے کی قربانی کی طاقت کے باوجود بڑے جانوروں کی قربانی میں حصہ لینا کیسا ہے؟*
*جو شخص بکرے کی قربانی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اس کے لیے بڑے جانوروں میں حصہ لینے کے مقابل بکرے کی قربانی کرنا افضل ہے، اس لئے کہ اس صورت میں تنہا خون بہانے کی فضیلت حاصل ہوگی.*
*امام ابو اسحاق الشیرازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: والشاة أفضل من مشاركة سبعة في بدنة أو بقرة لأنه يتفرد بإراقة دم* (المهذب في فقة الإمام الشافعي ١/ ٤٣٣) *امام نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں. والشاة عن واحد وأفضلها بعير ثم بقرة ثم ضأن ثم معز وسبع شياه أفضل من مشاركة في بعير* (منهاج الطالبين وعمدة المفتين في الفقه/٣٢٠) *وَشَاةٌ أَفْضَلُ مِنْ مُشَارِكَةٍ بِقَدْرِهَا (فِي بَعِيرٍ) أَوْ بَقَرَةٍ لِلِانْفِرَادِ بِإِرَاقَةِ الدَّمِ.* (حاشيتا قليوبي وعميرة:٤/ ٢٥٢) *والبدنة أفضل من البقر لانها أعظم والبقرة أفضل من الشاة لانها بسبع من الغنم والشاة أفضل من مشاركة سبعة في بدنة أو بقرة لانه ينفرد باراقة دم.* المجموع شرح المهذب:٨/ ٣٩٥ *والشاة أفضل من مشاركة سبعة في بدنة أو بقرة.* البيان في مذهب الإمام الشافعي ٤: ٤٤١
جمعرات _30 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0875
*عرفہ کے روزہ میں کس جگہ کی تاریخ کا اعتبار ہوگا سعودیہ کی یا ہندوستان کی؟*
*ہر شہر والوں کے لئے ان کی رؤیت کا اعتبار ہوگا اور جب کسی شہر میں لوگ چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم ان سے دور والے شہر کے لوگوں کے لئے ثابت نہیں ہوگا۔ شہروں کے مختلف ہونے کی وجہ سے مطالع اور مغارب بھی مختلف ہوتے ہیں اور ہر قوم اپنے اپنے مطلع و مغرب کے مخاطب ہوتے ہیں. امام شافعی ؒکے نزدیک مشہور قول کے مطابق قرب وبعد کا مدار اختلاف مطالع پر ہے کہ جن دو مقامات کے طلوع شمس یا طلوع فجر یا طلوع کواکب اور ان کے غروب کے اوقات مختلف ہوں تو اختلاف مطالع مانا جائے گا، اسی طرح چاند کی رؤیت میں ہندوستان اور سعودیہ کے اعتبار سے فرق ہوگا، کیوں کہ ان دونوں ملکوں کے طلوع وغروب میں فرق ہے۔ چاند کے معاملہ میں بھی مقامی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے اعلان پر عمل کریں گے، اس اعتبار سے اپنے اپنے علاقے میں چاند کی رویت کے اعتبار سے جس دن نو ذی الحجہ کی تاریخ ہوگی عرفہ کا روزہ اسی دن رکھنا سنت ہے ۔*
*إن أم الفضل بنت الحارث بعثتہ إلی معاویۃ بالشام قال: فقدمت الشام فقضیت حاجتھا واستھل علی رمضان وأنا بالشام فرأیت الھلال لیلۃ الجمعۃ ثم قدمت المدینۃ فی آخر الشھر فسألنی عبد اللہ بن عباسؓ ثم ذکر الھلال فقال متی رأیتم الھلال؟ فقلت: رأیناہ لیلۃ الجمعۃ فقال آنت رأیتہ؟ فقلت: نعم ورآہ الناس وصاموا وصام معاویۃ، فقال: لکن رأیناہ لیلۃ السبت فلا نصوم حتی نکمل ثلاثین أو نراہ، فقلت: أولاتکتفی برؤیۃ معاویۃ وصیامہ فقال: لا، ھٰکذا امرنا رسول اللہﷺ* (صحیح مسلم:۲۵۲۸ *امام نوویؒ فرماتے ہیں: باب بیان أن لکل بلد رؤیتھم وأنھم إذا رأوا الھلال ببلد لا یثبت حکمہ لما بعد عنھم* *امام نووی ؒلأن الطوالع والغوارب قد تختلف لاختلاف البلدان وإنما خوطب کل قوم بمطلعھم ومغربھم ألا تری الفجر قد یتقدم طلوعہ فی بلد ویتأخر فی بلد آخر؟ وکذلک الشمس قد یتعجل غروبھا فی بلد ویتأخر فی آخر ثم کل بلد یعتبر طلوع فجرہ وغروب شمسہ فی حق أھلہ فکذلک الھلال* (المجموع: ۶؍۲۷۵)
جمعرات _30 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر /0876
*قربانی کے لیے جانوروں کی عمر کا اعتبار ہوگا یا دانتوں کا اعتبار ہوگا؟*
*قربانی کے صحیح ہونے کے لیے جانور کے لیے متعین کردہ عمر کے مطابق ہونا ضروری ہے قربانی کے جانوروں میں دانتوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، بلکہ دانت صرف عمر معلوم کرنے کے لئے بطور علامت کے ہیں، لہذا اگر یقینی طور پر شریعت کی متعین کردہ عمر کے مطابق جانور ہے تو خواہ دانت ہوں یا نہ ہوں قربانی درست ہوگی۔*
*قال الإمام الرملي في نهاية المحتاج: وَشَرْطُ) إجْزَاءِ (إبِلٍ أَنْ تَطْعُنَ) بِضَمِّ الْعَيْنِ…..أَيْ تَشْرُعُ (فِي السَّنَةِ السَّادِسَةِ وَبَقَرٌ وَمَعْزٌ فِي الثَّالِثَةِ وَضَأْنٌ فِي الثَّانِيَةِ) بِالْإِجْمَاعِ .* (نهاية المحتاج:٨ / ١٣٣)
منگل _4 _اگست _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0877
*ایام تشریق میں جو تکبیرات سنت ہیں وہ صرف فرض نمازوں کے بعد ہے یا سنن و رواتب کے بعد بھی مسنون ہیں؟*
*عیدالاضحیٰ کے موقع پر جو تکبیرات فرض نمازوں کے بعد پڑھی جاتی ہیں وہ صرف فرض نمازوں کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ سنن و رواتب اور اسی طرح نمازجنازہ ودیگر نوافل نمازوں کے بعد بھی تکبیر پڑھنا مسنون ہے، چونکہ ان دنوں تکبیر کہنا شعائر اسلام میں سے ہے،لھذا زیادہ سے زیادہ تکبیر پڑھنا افضل ہے۔*
*علامہ خطیب شربینی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: (وَ) يُكَبِّرُ (فِي) عِيدِ (الْأَضْحَى خَلْفَ صَلَاةِ الْفَرَائِضِ) وَالنَّوَافِلِ وَلَوْ فَائِتَةً وَصَلَاةِ جِنَازَةٍ (مِنْ) بَعْدِ صَلَاةِ (صُبْحِ يَوْمَ عَرَفَةَ إلَى)بَعْدِ صَلَاةِ (الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ)۔* (حاشیة البجیرمی علی الخطیب٢٢٤/٢) *علامہ سلیمان جمل رحمة الله علیه فرماتے ہیں: (قَوْلُهُ عَقِبَ كُلِّ صَلَاةٍ) وَلَا يُلْحِقُ بِالصَّلَاةِ سَجْدَةَ التِّلَاوَةِ وَالشُّكْرِ وَلَوْ فَاتَتْهُ صَلَاةٌ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ وَقَضَاهَا فِي غَيْرِهَا لَمْ يُكَبِّرْ عَقِبَهَا كَمَا فِي الْمَجْمُوعِ بَلْ قَالَ إنَّهُ لَا خِلَافَ فِيهِ لِأَنَّ التَّكْبِيرَ شِعَارُ الْوَقْتِ كَمَا مَرَّ اهـ. شَرْحُ م ر(قَوْلُهُ أَيْضًا وَعَقِبَ كُلِّ صَلَاةٍ إلَخْ) وَيُقَدَّمُ عَلَى أَذْكَارِهَا لِأَنَّهُ شِعَارُ الْوَقْتِ وَلَا يَتَكَرَّرُ فَكَانَ الِاعْتِنَاءُ بِهِ أَشَدَّ مِنْ الْأَذْكَارِ وَأَمَّا الْمُطْلَقُ فَيُسَنُّ تَأْخِيرُهُ عَنْ الْأَذْكَارِ اهـ. حَجّ اهـ. ع ش عَلَى م ر(قَوْلُهُ وَلَوْ فَاتَتْهُ) أَيْ فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ أَوْ فِي غَيْرِهَا وَقَضَاهَا فِي تِلْكَ الْأَيَّامِ. اهـ ح ل(قَوْلُهُ وَنَافِلَةٌ) أَيْ مُطْلَقَةٌ أَوْ ذَاتُ وَقْتٍ أَوْ سَبَبٍ اهـ. شَيْخُنَا وَمِنْهَا الرَّوَاتِبُ اهـ. ق ل عَلَى الْجَلَالِ۔* (حاشیة الجمل علی شرح المنھاج:١٠٣/٢) *علامه بجیرمی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: قَالَ ع ش وَيُقَدِّمُ التَّكْبِيرَ عَلَى أَذْكَارِهَا أَيْ الصَّلَاةِ لِأَنَّهُ شِعَارُ الْوَقْتِ وَلَا يَتَكَرَّرُ فَكَانَ الِاعْتِنَاءُ بِهِ أَشَدَّ مِنْ الْأَذْكَارِ وَأَمَّا الْمُطْلَقُ فَيُسَنُّ تَأْخِيرُهُ عَنْ الْأَذْكَارِ اهـ (قَوْلُهُ: وَلَوْ فَائِتَةً) أَيْ فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ، أَوْ فِي غَيْرِهَا وَقَضَاهَا فِي تِلْكَ الْأَيَّامِ كَمَا فِي ح ل وَقَوْلُهُ: وَنَافِلَةٍ أَيْ مُطْلَقَةٍ أَوْ ذَاتَ وَقْتٍ أَوْ سَبَبٍ وَمِنْهَا الرَّوَاتِبُ كَمَا قَرَّرَهُ شَيْخُنَا وَذَكَرَهُ قل۔* (حاشیة البجیرمی علی المنھج:٤٣٠/١)
جمعرات _30 _جولائی _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0878
*اگر کوئی شخص بیرون ملک مقیم ہو اور اسکی جانب سے ہندوستان میں قربانی کی جارہی ہو تو بیرون کی عید کا اعتبار کرتے ہوئےقربانی عید سے ایک روز پہلےکی جائے گی یا ہندوستان کی عید کے روز کرنا ہوگا؟*
اگر کوئی شخص بیرون ملک ہو اور اس کی جانب سے ہندوستان میں قربانی کی جا رہی ہو تو قربانی کا وقت اور دن اس جگہ کے اعتبار سے ہوگا جہاں قربانی ہورہی ہے یعنی ھندوستان کی تاریخ اور ھندوستان میں دن کا وقت ہونا ضروری ہے
*علامه رملي رحمة الله فرماتے ہیں: ﺑﺄﻥ اﻟﺘﻀﺤﻴﺔ ﻣﻦ ﺗﻮاﺑﻊ اﻟﻌﻴﺪ.* (نھایة المحتاج:١٣٨/٨) *علامہ نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ﻣﺤﻞ اﻟﺘﻀﺤﻴﺔ ﻣﻮﺿﻊ اﻟﻤﻀﺤﻲ ﺳﻮاء ﻛﺎﻥ ﺑﻠﺪﻩ ﺃﻭ ﻣﻮﺿﻌﻪ ﻣﻦ اﻟﺴﻔﺮ۔* (المجموع:٤٢٥/٨) *علامہ البکری الدمیاطی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ﻭﻳﺠﻮﺯ اﻟﺘﻮﻛﻴﻞ ﻓﻲ ﺷﺮاء اﻷﺿﺤﻴﺔ ﻭاﻟﻌﻘﻴﻘﺔ ﻭﻓﻲ ﺫﺑﺤﻬﺎ۔* (اعانة الطالبين:٣٨١/٢)
منگل _4 _اگست _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0879
*کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنے کا کیا حکم ہے اور اس کے گوشت کی تقسیم کا کیا مسئلہ ہے؟*
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا درست نہیں ہے مسند حاکم میں جو روایت ملتی ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وصیت کی بنیاد پر ہے، چونکہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا آپ کی طرف سے قربانی کرنا ثابت نہیں ہے، ہاں اگر کسی کو مرحوم کی طرف سے وصیت ہو تو قربانی کرنا جائز ہے البتہ پورا گوشت فقراء و مساکین میں تقسیم کیا جائے گا۔*
*ولا تصح التضحية عن الميت الا ان يوصي بها و به قطع الرافعي* (المجموع ٢٩٩/٨) *ولا تجوز ولا تقع عن الغير اى الحي بغير اذنه كسائر العبادات (نهاية المحتاج: ٣/٧) *ولا تضحية عن الغير بغير أذنه لانها عبادة ولم يرد من الشارع إذن فى فعلها عن الغير* (النجم الوهاج:٢٥٦/٩) *امام دمیری رحمة الله علیه فرماتے ہیں: قال الرافعي: والقياس جوازها عنه؛ لأنها ضرب من الصدقة، والصدقة تصح عن الميت، وتصل إليه بالإجماع.* النجم الوھاج علی المنھاج٥٢٢/٩
بدھ _5 _اگست _2020AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0880
*کوئی داڑھی کے بالوں کو سیدھا کرنے کے لئے جیل لگائے جس کی وجہ سے بالوں میں پانی نہیں پہنچ رہا ہو لیکن چہرہ تک پہنچ رہا ہے تو وضو ہوگا یا داڑھی کے بال تک پانی پہنچنا ضروری ہے؟*
*اگر کوئی شخص داڑھی کے بالوں کو سیدھا کرنے کے لیے جیل لگائے اور جس کی وجہ سے وضو کا پانی داڑھی کے بالوں تک نہ پہنچ رہا ہو تو اس صورت میں وضو درست نہیں ہوگا اس لئے کہ جیل لگانا داڑھی کے بالوں تک پانی پہنچنے کے لیے رکاوٹ بنتا ہے.اور وضو میں داڑھی کے بالوں کو پانی پہنچانا ضروری ہے*
*امام نووی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: وَقَالَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ إمَامُ الْحَرَمَيْنِ كَلَامًا مُخْتَصَرُهُ أَنَّ النَّازِلَ عَنْ حَدِّ الْوَجْهِ إنْ كَانَ كَثِيفًا فَالقَوْلَانِ فِي وُجُوبِ إفَاضَةِ الْمَاءِ عَلَى ظَاهِرِهِ وَلَا يَجِبُ غَسْلُ بَاطِنِهِ بِلَا خِلَافٍ وَإِنْ كَانَ خَفِيفًا فَالْقَوْلَانِ فِي وجوب غسله ظاهر أو باطنا وَهَذَا هُوَ الصَّوَابُ۔* المجموع شرح المهذب :١/ ٣٨٠ *علامہ ماردی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: قال الشافعي رضي الله عنه: فَإِذَا كَانَ أَمْرَدَ غَسَلَ بَشَرَةَ وَجْهِهِ كُلَّهَا وَإِنْ نَبَتَتْ لِحْيَتُهُ وَعَارِضَاهُ أَفَاضَ الْمَاءَ عَلَى لِحْيَتِهِ وَعَارِضَيْهِ وَإِنْ لَمَ يَصِلِ الْمَاءُ إِلَى بَشَرَةِ وَجْهِهِ الَّتِي تَحْتَ الشَّعْرِ أَجْزَأَهُ إِذَا كان شعره كثيفا.قال الماوردي: وهذا صحيح.* (الحاوي الكبير:١/ ١٠٩) *قَوْلُهُ: مَا يَجِب إلَى قَوْلِهِ وَبِغَرْفَةٍ فِي النِّهَايَةِ وَالْمُغْنِي قَوْلُهُ: مَا يَجِبُ غَسْلُ ظَاهِرِهِ فَقَطْ إلَخْ أَمَّا الشَّعْرُ الْخَفِيفُ أَوْ الْكَثِيفُ الَّذِي فِي حَدِّ الْوَجْهِ مِنْ لِحْيَةِ غَيْرِ الرَّجُلِ وَعَارِضِهِ فَيَجِبُ إيصَالُ الْمَاءِ إلَى ظَاهِرِهِ وَبَاطِنِهِ وَمَنَابِتِهِ بِتَخْلِيلٍ أَوْ غَيْرِهِ نِهَايَةٌ وَمُغْنِي۔* (تحفة المحتاج في شرح المنهاج وحواشي الشرواني والعبادي :١/ ٢٣٤) *أَمَّا مَا يَجِبُ غَسْلُهُ مِنْ ذَلِكَ كَالْخَفِيفِ وَالْكَثِيفِ الَّذِي فِي حَدِّ الْوَجْهِ مِنْ لِحْيَةِ غَيْرِ الرَّجُلِ وَعَارِضَيْهِ فَيَجِبُ إيصَالُ الْمَاءِ إلَى ظَاهِرِهِ وَبَاطِنِهِ وَمَنَابِتِهِ بِتَخْلِيلٍ أَوْ غَيْرِهِ۔* (مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج: ١/ ١٩١) *والعارض ظاهرا أو باطنا وَإِنْ كَثُفَ لَا غَسْلُ بَاطِنِ كَثِيفِ خَارِجٍ عنه ولو غير لِحْيَةٍ وَعَارِضٍ وَ لَا بَاطِنِ كَثِيفِ لِحْيَةٍ بِكَسْرِ اللَّامِ أَفْصَحُ مِنْ فَتْحِهَا وَعَارِضٍ وَإِنْ لَمْ يَخْرُجَا عَنْ الْوَجْهِ وَ لَا بَاطِنِ كَثِيفِ بَعْضِهَا أَيْ الثَّلَاثِ وَ قَدْ تَمَيَّزَ عَنْ بَعْضِهَا الْآخَرِ إنْ كَانَتْ مِنْ رَجُلٍ فَلَا يَجِبُ لِعُسْرِ إيصَالِ الْمَاءِ إلَيْهِ فَيَكْفِي غَسْلُ ظَاهِرِهَا أَمَّا إذَا لَمْ يَتَمَيَّزْ الْبَعْضُ الْكَثِيفُ عَنْ الْخَفِيفِ فَيَجِبُ غَسْلُ الْجَمِيعِ۔* (فتح الوهاب بشرح منهج الطلاب:١/ ١٥) *إذَا كَانَ عَلَى بَعْضِ أعضائه شمع أو عجين أو حناء واشتباه ذلك فمنع وصول الماء الى شئ من العضو لم تصح طهارته سواء كثر ذَلِكَ أَمْ قَلَّ۔* المجموع شرح المهذب:١/ ٤٦٧